نوشی گیلانی

  1. سیما علی

    نوشی گیلانی ورثہ

    ورثہ بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں ضبطِ کے زرد آنچل میں اپنے سارے درد چُھپا لیتی ہیں روتے روتے ہنس پڑتی ہیں ہنستے ہنستے دل ہی دل ہی رو لیتی ہیں خوشی کی خواہش کرتے کرتے خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں سو حصّوں میں بٹ جاتی ہیں گھر کے دروازے پر بیٹھی اُمیدوں کے ریشم بنتے ….ساری عُمر گنوا دیتی ہیں...
  2. سیما علی

    بہ احتیاطِ عقیدت بہ چشمِ تر کہنا نوشی گیلانی

    بہ احتیاطِ عقیدت بہ چشمِ تر کہنا بہ احتیاطِ عقیدت بہ چشمِ تر کہنا صبا حضور سے حالِ دل و نظر کہنا! حصارِ جبر میں ہوں اور ہاں سے بھی ہجرت مَیں جانتی ہُوں کہ ممکن نہیں مگر، کہنا میں خاک شہرِ مدینہ پہن کے جب نکلوں تو مُجھ سے بڑھ کے کوئی ہو گا معتبر کہنا یہ عرض کرنا کہ آقا مِری بھی سُن لیجے...
  3. یاقوت

    نوشی گیلانی یہ نام ممکن نہیں رہے گا،مقام ممکن نہیں رہے گا

    یہ نام ممکن نہیں رہے گا،مقام ممکن نہیں رہے گا غرور لہجے میں آ گیا تو کلام ممکن نہیں رہے گا یہ برف موسم جو شہرِ جاں میں کُچھ اور لمحے ٹھہر گیا تو لہو کا دل کی کسی گلی میں قیام ممکن نہیں رہے گا تم اپنی سانسوں سے میری سانسیں الگ تو کرنے لگے ہو لیکن جو کام آساں سمجھ رہے ہو وہ کام ممکن نہیں رہے گا...
  4. حسن محمود جماعتی

    نوشی گیلانی کہیں کرتے نہیں اظہار، چپ ہیں::: نوشی گیلانی

    کہیں کرتے نہیں اظہار، چپ ہیں ہمیں تو حکم ہے سرکار، چپ ہیں کہانی کچھ بتانا چاہتی ہے مگر اس کے سبھی کردار، چپ ہیں بہت ہے بارش سنگ ملامت مگر ہم صورت کہسار، چپ ہیں ابھی تک ہے بہت محفوظ قاتل کہ مقتل کے درودیوار، چپ ہیں پتہ رہزن کا خلقت پوچھتی ہے مگر بستی کے پہریدار، چپ ہیں وہی موسم، وہی زنجیر شب...
  5. حسن محمود جماعتی

    نوشی گیلانی :::مزاروں پر محبت جاودانی سن رہے تھے:::

    مزاروں پر محبت جاودانی سن رہے تھے کبوتر کہہ رہے تھے ہم کہانی سن رہے تھے میری گڑیا تیرے جگنو ہماری ماؤں کے غم ہم اک دوجے سے بچپن کی کہانی سن رہے تھے کبھی صحرا کے سینے پر بکھرتا ہے تو کیسے سنہرے گیت گاتا ہے یہ پانی سن رہے تھے گزرتی عمر کے ہر ایک لمحے کی زبانی محبت رائیگانی رائیگانی سن رہے تھے...
  6. نظام الدین

    نوشی گیلانی کوئی مجھ کو مرا بھرپور سراپا لادے

    کوئی مجھ کو مرا بھرپور سراپا لادے مرے بازو، مری آنکھیں، مرا چہرہ لادے ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں گرے اس سے بہتر ہے کہ مجھ کو مرا صحرا لادے کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمرِ رواں مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لادے جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں کوئی چہرہ تو مرے شہر میں...
  7. محسن وقار علی

    نوشی گیلانی پلٹ کر پھر کبھی اُس نے پُکارا ہی نہیں ہے

    پلٹ کر پھر کبھی اُس نے پُکارا ہی نہیں ہے وہ جس کی یاد سے دل کو کنارا ہی نہیں ہے محّبت کھیل ایسا تو نہیں ہم لَوٹ جائیں کہ اِس میں جیت بھی ہو گی خسارا ہی نہیں ہے کبھی وہ جگنوؤں کو مُٹھیوں میں قید کرنا مگر اب تو ہمیں یہ سب گوارا ہی نہیں ہے اب اس کے خال و خد کا ذکر کیا کرتے کِسی سے کہ ہم پر آج تک...
  8. ظ

    نوشی گیلانی لانگ ڈیسٹنس کال ( نظم )

    “ بہت برفاف موسم ہے ہوائیں برف رُت کی شال اوڑھے بند کمرے میں پناہیں ڈھونڈتیں ہیں یہ کمرہ جس میں ہیٹر چل رہا ہے اور بدن سارے کا سارا برف کی سل بن گیا ہے بدن کی حدتیں اب اک غبار آلود خواہش کی طرح گم ہو رہیں ہیں‌ مگر اس منجمد شب میں جہاں پر ذہن سُن ہو اور پوریں بےحس و حرکت وہاں...
  9. ایم اے راجا

    نوشی گیلانی راستوں میں رہے نہ گھر میں رہے ۔ نوشی گیلانی

    راستوں میں رہے، نہ گھر میں رہے عمر بھر حالتِ سفر میں رہے لفظ سارے چراغ بن جائیں وصف ایسا مرے ہنر میں زہر سارا شجر میں آ جائے اے خدا زندگی ثمر میں رہے اس لیئے گردشوں کو پالا ہے کوئی تو حلقہءِ اثر میں رہے اک زمانا گھروں میں تھا آباد بے گھری ہم تری نظر میں رہے (نوشی گیلانی)
  10. کاشفی

    نوشی گیلانی مجھ کو رسوا سرِ بازار نہ کروایا کرے - نوشی گیلانی

    غزل مجھ کو رسوا سرِ بازار نہ کروایا کرے کاش آنسو میری آنکھوں میں ہی رہ جایا کرے اے ہوا میں نے تو بس اسکا پتہ پوچھا تھا اب کہانی تو نہ ہر بات کی بن جایا کرے بس بہت دیکھ لئے خواب سہانے دن کے اب وہ باتوں کی رفاقت سے نہ بہلایا کرے اک مصیبت تو نہیں‌ٹوٹی سو اب اس دل سے جس مصیبت نے گزرنا...
  11. پ

    نوشی گیلانی غزل-کوئی مجھ کو مرا بھر پور سراپا لا دے-نوشی گیلانی

    غزل-کوئی مجھ کو مرا بھر پور سراپا لا دے-نوشی گیلانی کوئی مجھ کو مرا بھر پور سراپا لا دے مرے بازو ، مری آنکھیں، مرا چہرہ لا دے ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں گرے اس سے بہتر ہے کہ مجھ کو مرا صحرا لا دے کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمرِ رواں مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لا دے جس کی...
  12. فرخ منظور

    بہ احتیاطِ عقیدت بہ چشمِ تر کہنا - نوشی گیلانی

    بہ احتیاطِ عقیدت بہ چشمِ تر کہنا صبا حضور سے حالِ دل و نظر کہنا! حصارِ جبر میں ہوں اور یہاں سے بھی ہجرت مَیں جانتی ہُوں کہ ممکن نہیں مگر‘ کہنا میں خاک شہرِمدینہ پہن کے جب نکلوں تو مُجھ سے بڑھ کے کوئی ہوگا معتبر کہنا یہ عرض کرنا کہ آقا مِری بھی سُن لیجے بحبز تمُھارے نہیں کوئی چارہ گر کہنا...
  13. فرخ منظور

    شاعرہ نوشی گیلانی کا بلاگ

    مشہور شاعرہ نوشی گیلانی کا بلاگ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  14. زونی

    نوشی گیلانی خواب کے قیدی رہے تو (نوشی گیلانی)

    خواب کے قیدی رہے تو کچھ نظر آتا نہ تھا جب چلے تو جنگلوں میں راستہ بنتا گیا تہمتیں تو خیر قسمت تھیں مگر اس ہجر میں پہلے آنکھیں بجھ گیئں اور اب چہرہ گیا ہم وہ محرومِ سفر ہیں دشتِ خواہش میں جنہیں اک حصارِ درو دیوار میں رکھا گیا بر ملا سچ کی جہاں تلقین کی جاتی رہی پھر وہاں جو لوگ...
  15. فرخ منظور

    نوشی گیلانی کون روک سکتا ہے - نوشی گیلانی

    کون روک سکتا ہے - نوشی گیلانی لاکھ ضبط خواہش کے بے شمار دعوے ہوں اس کو بھول جانے کے بے پناہ ارادے ہوں اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا فیصلہ سنانے کو کتنے لفظ سوچے ہوں دل کو اسکی آہٹ پر بر ملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے پھر وفا کے صحرا میں اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی خوشبوؤں...
  16. فرخ منظور

    نوشی گیلانی پچھلے سال کی ڈائری کا آخری ورق - از نوشی گیلانی

    کوئی موسم ہو وصل و ہجر کا ہم یاد رکھتے ہیں تری باتوں سے اس دل کو بہت آباد رکھتے ہیں کبھی دل کے صحیفے پر تجھے تصویر کرتے ہیں کبھی پلکوں کی چھاؤں میں تجھے زنجیر کرتے ہیں کبھی خوابیدہ شاموں میں کبھی بارش کی راتوں میں کوئی موسم ہو وصل و ہجر کا ہم یاد رکھتے ہیں تری باتوں سے اس دل کو...
  17. عمر سیف

    نوشی گیلانی ہوا کو لکھنا جو آگیا ہے ۔۔۔

    ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے اب اس کی مرضی کہ وہ خزاں کو بہار لکھ دے بہار کو انتظار لکھ دے سفر کی خواہش کو واہموں کے عذاب سے ہمکنار لکھ دے وفا کے رستوں پہ چلنے والوں کی قسمتوں میں غبار لکھ دے ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے ہوا کی مرضی کہ وصل موسم میں ہجر کو حصہ دار لکھ دے محبتوں میں گزرنے والی...
  18. سارہ خان

    نوشی گیلانی محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا - نوشی گیلانی

    محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا محبت کی اسیری سے رہائی مانگتے رہنا بہت آساں نہیں ہوتا جدائی مانگتے رہنا ذرا سا عشق کر لینا،ذرا سی آنکھ بھر لینا عوض اِس کے مگر ساری خدائی مانگتے رہنا کبھی محروم ہونٹوں پر دعا کا حرف رکھ دینا کبھی وحشت میں اس کی نا رسائی مانگتے رہنا وفاؤں کے تسلسل...
  19. امیداورمحبت

    نوشی گیلانی تتلیاں پکڑنے کو - از نوشی گیلانی

    نوشی گیلانی تتلیاں پکڑنے کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ کتنا سہل جانا تھا خوشبوؤں کو چھو لینا بارشوں کے موسم میں شام کا ہرایک منظر گھر میں قید کر لینا روشنی ستاروں کی مٹھیوں میں بھر لینا کتنا سہل جانا...
  20. فرذوق احمد

    نوشی گیلانی اداس شام کی ایک نظم

    اداس شام کی ایک نظم وصال ُرت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش تھی کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کیا تمہارے ہاتھوں کالمس جب میری وفا کی ہتھیلوں پر حنا بنے گا تو سوچ لو گی رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں ہمارے باغوں سے سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو نہ گزر پائے تو یہ نہ کہنا...
Top