حسن اس شوخ کا اہاہاہا
جن نے دیکھا کہا اہاہاہا
زلف ڈالے ہے گردن دل میں
دام کیا کیا بڑھا اہاہاہا
تیغ ابرو بھی کرتی ہے دل پر
وار کیا کیا نیا اہاہاہا
آن پر آن وہ اجی او ہو
اور ادا پر ادا اہاہاہا
ناز سے جو نہ ہو وہ کرتی ہے
چپکے چپکے حیا اہاہاہا
طائرِ دل پہ اس کا باز نگاہ
جس گھڑی آ پڑا اہاہاہا...
مرا خط ہے جہاں یارو وہ رشکِ حور لے جانا
کسی صورت سے تم واں تک مرا مذکور لے جانا
اگر وہ شعلہ رُو پوچھے مرے دل کے پھپولوں کو
تو اس کے سامنے اِک خوشۂ انگور لے جانا
جو یہ پوچھے کہ اب کتنی ہے اس کے رنگ پر زردی
تو یارو تم گلِ صد برگ با کافور لے جانا
اگر پوچھے مرے سینے کے زخموں کو تو اے یارو
کہیں سے...
نگہ کے سامنے اس کا جونہی جمال ہوا
وہ دل ہی جانے ہے اس دم جو دل کا حال ہوا
اگر کہوں میں کہ چمکا وہ برق کی مانند
تو کب مثل ہے یہ اس کی جو بے مثال ہوا
قرار و ہوش کا جانا تو کس شمار میں ہے
غرض پھر آپ میں آنا مجھے محال ہوا
ادھر سے بھر دیا مے نے نگاہ کا ساغر
ادھر سے زلف کا حلقہ گلے کا جال ہوا...
کیا دن تھے وہ جو واں کرمِ دلبرانہ تھا
اپنا بھی اس طرف گزر عاشقانہ تھا
مل بیٹھنے کے واسطے آپس میں ہر گھڑی
تھا کچھ فریب واں تو ادھر کچھ بہانہ تھا
چاہت ہماری تاڑتے ہیں واں کے تاڑ باز
تس پر ہنوز خوب طرح دل لگا نہ تھا
کیا کیا دلوں میں ہوتی تھی بن دیکھے بے کلی
ہے کل کی بات حیف کہ ایسا زمانہ تھا...
دیا دل تو پھر عہد و پیمان کیسا
لیا جس نے اس کا احسان کیسا
جہاں زلف کافر میں دل پھنس گیا ہے
تو واں دین کیسا اور ایمان کیسا
ادا نے کیا دل کو پہلو میں بے کل
کرے گی ستم دیکھیے آن کیسا
ادھر کاجل آنکھوں میں کیا کیا کھلا ہے
ملا ہے مسی سے ادھر پان کیسا
نظیر اس سے ہم نے چھپایا جو دل کو
تو ہنس کر کہا...
رہوں کاہے کو دل خستہ پھروں کاہے کو آوارا
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دلِ مارا
خدا گر مجھ گدا کو سلطنت بخشت تو میں یارو
بہ حالِ ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را
ہم اپنا تو بہشت و چشمۂ کوثر سمجھتے ہیں
کنار آب رکنا باد و گلگشت مصلیٰ را
زمیں پر آیا جب یوسف اسی دن آسماں رویا
کہ عشق از پردۂ عصمت بروں...
وہ مجھ کو دیکھ کچھ اس ڈھب سے شرمسار ہوا
کہ میں حیا ہی پر اس کی فقط نثار ہوا
سبھوں کو بوسے دئیے ہنس کے، اور ہمیں گالی
ہزار شکر! بھلا اس قدر تو پیار ہوا
ہمارے مرنے کو، ہاں، تم تو جھوٹ سمجھے تھے
کہا رقیب نے، لو، اب تو اعتبار ہوا
قرار کر کے نہ آیا وہ سنگ دل کافر
پڑیں قرار پہ پتھر، یہ کچھ قرار ہوا...
ملا آج وہ مجھ کو چنچل چھبیلا
ہوا رنگ سُن کر رقیبوں کا نیلا
لیا جس نے مجھ سے عداوت کا پنجہ
سنلقی علیہم عذاباً ثقیلا
نکل اس کی زلفوں کے کوچہ سے اے دل
تُو پڑھنا، قم اللّیلَ الّا قلیلا
کہستاں میں ماروں اگر آہ کا دم
فکانت جبالاً کثیباً مہیلا
نظیر اس کے فضل و کرم پر نظر رکھ
فقُل، حسبی اللہ نعم...
کل جُگ
دنیا عجب بازار ہے کچھ جنس یاں کی ساتھ لے
نیکی کا بدلہ نیک ہے بد سے بدی کی بات لے
میوہ کھلا میوہ ملے پھل پھول دے پھل پات لے
آرام دے آرام لے دُکھ درد دے آفات لے
کلجُگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہات دے اُس ہات لے
کانٹا کسی کے مت لگا گو مثل...
جب آدمي کے پيٹ ميں جاتي ہيں روٹياں
پھولے نہيں بدن ميں سماتي ہيں روٹياں
آنکھيں پري رخوں سے لڑاتي ہيں روٹياں
سينہ اپر بھي ہاتھ جلاتي ہيں روٹياں
جتنے مزے ہيں سب يہ دکھاتي ہيں روٹياں
روٹي سے جس کا ناک تلک پيٹ ہے بھرا
کرتا پھرتا ہے کيا وہ اچھل کود جا بجا
ديوار پھاند کر کوئي کوٹھا اچھل گيا...
نظیر اکبرابادی کے چند اشعار :
جب آدمي کے پيٹ ميں جاتي ہيں روٹياں
پھولے نہيں بدن ميں سماتي ہيں روٹياں
آنکھيں پري رخوں سے لڑاتي ہيں روٹياں
سينہ اپر بھي ہاتھ جلاتي ہيں روٹياں
جتنے مزے ہيں سب يہ دکھاتي ہيں روٹياں
روٹي سے جس کا ناک تلک پيٹ ہے بھرا
کرتا پھرتا ہے کيا وہ اچھل کود جا بجا...