غزل
حرم کی راہ کو، نُقصان بُت خانے سے کیا ہو گا
خیالاتِ بشر میں، اِنقلاب آنے سے کیا ہو گا
کسے سمجھا رہے ہیں آپ، سمجھانے سے کیا ہو گا
بجز صحرا نوَردی ، اور دِیوانے سے کیا ہو گا
ارے کافر ! سمجھ لے ، اِنقلاب آنے سے کیا ہو گا
بنا کعبہ سے بُت خانہ، تو بُت خانے سے کیا ہو گا
نمازی سُوئے مسجد جا...
غزل
شیخ آخر یہ صُراحی ہے، کوئی خُم تو نہیں
اور بھی، بیٹھے ہیں محِفل میں تمہی تم تو نہیں
ناخُدا ہوش میں آ، ہوش تِرے گُم تو نہیں
یہ تو ساحِل کے ہیں آثار ، تلاطُم تو نہیں
ناز و انداز و ادا ، ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی !
تیری تصویر میں سب کُچھ ہے تکلّم تو نہیں
دیکھ، انجام محبّت کا بُرا ہوتا ہے...
میرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا
زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا
میں اس حالت سے پہنچا حشر والے خود پکار اٹھے
کوئی فریاد کرنے آ رہا ہے راستہ دینا
اجازت ہو تو کہ دوں قصۂ الفت سرِ محفل
مجھے کچھ تو فسانہ یاد ہے کچھ تم سنا دینا
میں مجرم ہوں مجھے اقرار ہے جرمِ محبت کا
مگر پہلے...
غزلِ
قمرجلالوی
کِس یاس سے مرے ہیں مریض اِنتظار کے
قاتل کو یاد کر کے ، قضا کو پُکار کے
مقتل میں حال پُوچھو نہ مجھ بے قرار کے
تم اپنے گھرکو جاؤ چُھری پھیر پھار کے
رُکتی نہیں ہے گردشِ ایّام کی ہنسی
لے آنا طاق سے مِرا ساغر اُتار کے
جی ہاں شراب خور ہیں ہم تو جنابِ شیخ
بندے بس ایک آپ ہیں،...
سید شہزاد ناصر صاحب نے گلشن آرا سید کی آواز میں "موسیقی کی دنیا" میں یہ غزل شاملِ محفل کی تو ہمیں معلوم ہوا کہ ابھی تک "پسندیدہ کلام کے زمرے میں یہ خوبصورت موجود ہی نہیں۔ سو استاد قمر جلالوی کی یہ غزل سید شہزاد ناصر صاحب کی محبتوں کی نذر:
مریضِ محبت انھی کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکر...
خبر اب تو لے بے مروت کسی کی
چلی جان تیری بدولت کسی کی
مجھے حشر میں پیش داور جو دیکھا
ذرا سی نکل آئی صورت کسی کی
خدا کے لئے یوں نہ ٹھکرا کے چلئے
کہ پامال ہوتی ہے تربت کسی کی
ذرا روٹھ جانے پہ اتنی خوشامد
قمرتم بگاڑو گے عادت کسی کی
چونکہ اس کا مقطع بہت مشہور ہے۔ لہذا غالب گمان تھا کہ محفل میں...
بوسۂ خال کی قیمت مِری جاں ٹھہری ہے
چیز کتنی سی ہے اور کِتنی گراں ٹھہری ہے
چھیڑ کر پھر مجھے مصروف نہ کر نالوں میں
دو گھڑی کے لئے صیّاد زباں ٹھہری ہے
آہِ پُر سوز کو دیکھ اے دلِ کمبخت نہ روک
آگ نِکلی ہے لگا کر یہ جہاں ٹھہری ہے
صُبح سے جنبشِ ابرو و مژہ سے پیہم
نہ تِرے تیر رُکے...
چمن روئے ہنسے شبنم بیاباں پر نکھار آئے
اِک ایسا بھی نیا موسم مِرے پروردگار آئے
وہ سر کھولے ہماری لاش پر دیوانہ وار آئے
اِسی کو موت کہتے ہیں تو یارب باربار آئے
سرِ گورِ غریباں آؤ لیکن یہ گزارش ہے
وہاں منہ پھیر کر رونا جہاں میرا مزار آئے
بہا اے چشمِ تر ایسا بھی اِک آنسو ندامت کا
جسے دامن...
تربت کہاں لوحِ سرِ تربت بھی نہیں ہے
اب تو تمھیں پھولوں کی ضرورت بھی نہیںہے
وعدہ تھا یہیں کا جہاں فرصت بھی نہیں ہے
اب آگے کوئی اور قیامت بھی نہیں ہے
اظہارِ محبّت پہ بُرا مان گئے وہ
اب قابلِ اظہار محبّت بھی نہیں ہے
کس سے تمھیں تشبیہہ دوں یہ سوچ رہا ہوں
ایسی تو جہاں میں کوئی صوُرت بھی...
شہید راہِ حق کاشفی کی یاد میں جو حق پرستی کی پاداش میں مارا گیا :star:
اے مرے دل کسی سے بھی شکوہ نہ کر اب بلندی پہ ترا ستارہ نہیں
غیر کا ذکر کیا غیر پھر غیر ہے جو ہمارا تھا وہ بھی ہمارا نہیں
اے مرے ہمنشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزرا نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم اب تو...
نعت
تجھ سے پہلے کوئی شے حق نے اصلا دیکھی
خُوب جب دیکھ لیا تجھ کو تو دنیا دیکھی !
تو نے قبلِ دوجہاں شان ِ تجلّی دیکھی
عرش سجتا ہوا ، بنتی ہوئی دنیا دیکھی!
ترے سجدے سے جُھکی سارے رسُولوں کی جبیں
سب نے اللہ کو مانا تِری دیکھا دیکھی!
میزباں خالق ِ کونین بنا خود تیرا
تیری توقیر سر...
سنُ سنُ کے مجھ سے وصف ترے اختیار کا
دل کانپتا ہے گردش ِ لیل و نہار کا
لاریب لاشریک شہنشاہِ کُل ہے تو!
سَر خم ہے ترے دَر پہ ہر اک تاجدار کا
محموُد تیری ذات محمّد(ص) تِرا رسول
رکھا ہے نام چھانٹ کے مختار ِ کار کا
ہوتا نہیں جو حکم تِرا صید کے لئے
صید چھوڑدیتا ہے پیچھا شکار کا
بنوا...
مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی
کہ ہے نخلِ گلُ کا تو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی
مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا
تِرے جام خالی نہ ہو سکے مِری چشمِ تر نہ بھری رہی
میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھے رات دن یہ خیال ہے
یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ...
ج۔۔۔۔واں ہ۔۔و کر زباں ت۔۔یری بتِ بے پ۔۔یر بگ۔۔ڑی ہے
دعا کتنی حسیں تھی جس کی یہ تاثیر بگڑی ہے
وہ می۔را نام لکھتے وق۔ت روئ۔ے ہ۔وں گ۔ےاے قاص۔د
یہاں آنسوُ گرے ہ۔وں گے جہاں ت۔حریر ب۔گ۔ڑی ہ۔ے
مصّ۔ور اپنی صورت مجھ سے پہثانی نہیں جات۔۔۔ی
میں ایسا ہ۔و گیا ہ۔وں یا م۔۔یری ت۔صویر بگ۔۔ڑی ہے
چ۔لا...
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہو گئ زمانے کو
دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو
مری لحد پہ پتنگوں کا خون ہوتا ھے
حضور شمع نہ لایا کریں جلانے کو
سنا ہے غیر کی محفل میں تم نہ جاؤ گے
کہو تو آج سجا لوں غریب خانے کو
دبا کے قبر میں سب...
کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی اللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں
بے وجہ...