مجھ کو دیکھنے والے تو کس دھیان میں ہے
آخر کیا مشکل میری پہچان میں ہے
اپنےہجر کے پسِ منظر میں جھانک مجھے
میری سب روداد اِسی عنوان میں ہے
کب سننے دیتی ہے شور سمندر کا
پانی کی اِک بوند جو میرے کان میں ہے
بن سوچے سمجھے تو ثیق نہیں کرتا
کفر وہ شامل جو میرے ایمان میں ہے
ٹانک دو اس میں اِک...
رُو برو وہ ہے عبادت کر رہا ہوں
اُس کے چہرے کی تلاوت کر رہا ہُوں
لو خریدو اِک نظر کے مول مجھ کو
اپنی قیمت میں رعایت کر رہا ہُوں
لی ہے ضبط نے مجھ سے اجازت
اپنے مہمانوں کو رخصت کر رہا ہوں
چِھن گیا مُلکِ جوانی بھی تو کیا غم
اب بھی یادوں پر حکومت کر رہا ہوں
کوئی بھی غم اُس کو لوٹایا نہیں ہے...
آخر وہ میرے قد کی بھی حد سے گزر گیا
کل شام میں تو اپنے ہی سائے سے ڈر گیا
مٹھی میں بند کیا ہوا بچوں کے کھیل میں
جگنو کے ساتھ اس کا اجالا بھی مر گیا
کچھ ہی برس کے بعد تو اس سے ملا تھا میں
دیکھا جو میرا عکس تو آئینہ ڈر گیا
ایسا نہیں کہ غم نے بڑھا لی ہو اپنی عمر
موسم خوشی کا وقت سے پہلے گزر...
دُنیا کو دکھانی ہے اک شکل خیالوں کی
آؤ کہ بنائیں ہم تصویر اُجالوں کی
پل بھر کو مرے گھر میں آئی جو پری اُڑ کر
کی اُس نے بسر مجھ میں سو رات وصالوں کی
ہم دیتے چلے جائیں کس کس کا جواب آخر
رفتار نہیں گھٹتی دُنیا کے سوالوں کی
شاعر ہی تو دیتے ہیں تشبہیہ گھٹاؤں سے
ہم قدر بڑھاتے ہیں تم گیسوؤں...
سورج مرے دل میں جل رہا ہے
یہ موم کا گھر پگھل رہا ہے
اُٹھا تھا دُھواں بس اِک مکاں سے
اب شہر کا شہر جل رہا ہے
یہ شہر جو اب ہے نوحہ نوحہ
پہلے تو غزل غزل رہا ہے
اُس گھر سے ہوائیں بے خبر ہیں
جس گھر میں چراغ جل رہا ہے
اِس دھوپ میں یہ بھی ہے غنیمت
سایا مرے ساتھ چل رہا ہے
بن جائے نہ...
شاید دس بارہ برس قبل منی بیگم کی آواز میں قتیل شفائی کی ایک غزل سنی تھی۔۔۔ آج شام کو راہ چلتے اچانک اس کے اشعار ذہن میں گھومنے لگے اور ساتھ ہی ہمیں مزمل شیخ بسمل کا یہ سوال بھی یاد آ گیا:
قتیل شفائی کی یہ غزل بھی اسی بحر میں ہے جس میں درج بالا شعر۔
ہاتھ دیا اس نے مرے ہات میں
میں تو ولی بن گیا...
تیری راہوں میں بھٹکنے کے لیے زندہ ہوں
میں ازل سے ہی تِرے حُسن کا جویندہ ہوں
تیرے دل کی بھی نہ مل پائی مجھے شہریت
کس سے پوچھوں کہ میں کس مُلک کا باشندہ ہوں
بھا گئے تھے تیری آنکھوں کے سمندر جن کو
میں اُنہی ڈُوبنے والوں کا نُمائیندہ ہوں
دیکھنا ہے تو مُجھے ایک نظر دیکھ ہی لے
صُبح کا تارا ہوں...
شاعری سچ بولتی ہے
لاکھ پردوں میں رہوں بھید مرے کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
میں نے دیکھا ہے کہ جب میری زباں ڈولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
تیرا اصرار کہ چاہت مری بیتاب نہ ہو
واقف اس غم سے مرا حلقۂ احباب نہ ہو
تو مجھے ضبط کے صحراؤں میں کیوں رولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
یہ بھی کیا بات کہ چھپ...
کیا ہے پیار جسے ہم نے زندگی کی طرح
وہ آشنا بھی ملا ہم سے اجنبی کی طرح
بڑھا کے پیاس میری اُس نے ہاتھ چھوڑ دیا
وہ کر رہا تھا مروت بھی دل لگی کی طرح
کسے خبر تھی بڑھے گی کچھ اور تاریکی
چھپےگا وہ کسی بدلی میں چاندنی کی طرح
کبھی نہ سوچا تھا ہم نے قتیل اُس کے لئے
کرے گا ہم پہ ستم وہ بھی ہر کسی کی طرح
پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
سکوتِ مرگ طاری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ
مجھ سمیت اکثر لوگ یہی سمجھتے کہ "پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جا" نور جہاں کا گایا ہوا نغمہ ہے مگر درست یہ ہے کہ یہ نغمہ اقبال بانو نے گایا تھا۔ بعد ازاں نصرت فتح علی خان نے بھی اس پر ہاتھ صاف کیے۔
اس سے پہلے...
آج وارث صاحب سے گفتگو کے دوران انہیں ایک شعر سنایا جو غالب کے مصرع "اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے" پر قتیل شفائی کی تضمین ہے۔ شعر کچھ یوں تھا:
جس برہمن نے کہا ہےکہ یہ سال اچھا ہے
اس کو دفناؤ مرے ہاتھ کی ریکھاؤں میں
وارث صاحب کو یہ شعر بے حد پسند آیا اور ان کی جانب سے پذیرائی کو مہمیز...
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی ۔ سلمان علوی
YouTube - Ye Kiss Ne Kaha Tum Kooch Karo...Jawab e InSha
قتیل شفائی کی یہ مکمل غزل فرخ صاحب پہلے ہی پسندیدہ کلام کے زمرے میں ارسال فرما چکے ہیں۔
لیجیے قبلہ آپ کے حکم سے روگردانی کیونکر ممکن ہے۔
غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے
گلوکارہ: مالا
موسیقار: ماسٹر عنایت حسین
شاعر: قتیل شفائی
اداکارہ: شمیم آرا
فلم: نائلہ (پاکستان کی پہلی رنگین فلم)
سال: 1965
غمِ دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے
تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے تڑپانا بھی آتا ہے
کسی کی یاد میں جو زندگی ہم نے گزاری ہے...
پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے
پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے
پہلے مزاجِ راہ گزر جان جائیے
پھر گردِ راہ جو بھی کہے مان جائیے
کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں
میری سنیں تو دل کا کہا مان جائیے
اک دھوپ سی جمی ہے نگاہوں کے آس پاس
یہ آپ ہیں تو آپ پہ قربان جائیے
شاید حضور سے کوئی نسبت...
ہجر کی پہلی شام کے سائے دور افق تک چھائے تھے
ہم جب اس کے سحر سے نکلے سب راستے ساتھ لائے تھے
جانے وہ کیا سوچ رہا تھا اپنے دل میں ساری رات
پیار کی باتیں کرتے کرتے اس کے نین بھر آئے تھے
میرے اندر چلی تھی آندھی ٹھیک اسی دن پت جھڑ کی
جس دن اپنے جوڑے میں اس نے کچھ پھول سجائے تھے
اس نے کتنے...
وہ دل ھی کیا جو ترے ملنے کی دعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کے زندہ رھوں خدا نہ کرے
رھے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر
یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے
یہ ٹھیک ھے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی سے کسی کو مگر جدا نہ کرے
سنا ھے اس کو محبت دعائیں دیتی ھے
جو دل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے...
ھاتھ دیا اس نے جب مرے ھاتھ میں
میں تو ولی بن گیا اک رات میں
عشق کرو گے تو کماؤ گے نام
تہمتیں بٹتی نہیں خیرات میں
شام کی گلرنگ ھوا کیا چلی
درد مہکنے لگا جذبات میں
ھاتھ میں کاغذ کی لیے چھتریاں
گھر سے نہ نکلا کرو برسات میں
ربط بڑھایا نہ قتیل اس لیے
فرق تھا دونوں کے خیالات میں...
چاندی جیسا رنگ ھے تیرا سونے جیسے بال
ایک تو ھی دھنوان ھے گوری باقی سب کنگال
ھر آنگن میں سجے نہ تیرے اجلے روپ کی دھوپ
چھیل چھبیلی رانی تھوڑا گھونگھٹ اور نکال
بھر بھر نظریں دیکھیں تجھ کو آتے جاتے لوگ
دیکھ تجھے بدنام نہ کر دے یہ ھرنی جیسی چال
بیچ میں رنگ محل ھے تیرا کھائی چاروں اور
ھم...
یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو
بدن مرا سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے
میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں
برہنہ شہر میں کوئی نظر نہ آئے مجھے
وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا
جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے...