رباعی

  1. ن

    رباعی: توڑے گا ہزار خواب جاتے جاتے

    توڑے گا ہزار خواب جاتے جاتے دے کر غم و اضطراب جاتے جاتے کاملؔ مگر اب بھی وہ ہمیشہ کی طرح کر جائے گا لاجواب جاتے جاتے
  2. ن

    رباعی: کب واقفِ اسرار ہوا میرا دل

    کب واقفِ اسرار ہوا میرا دل ہرگز نہ کھلے مجھ پہ رموزِ مشکل ہر ناقصِ کم فہم کہے مجھ کو امام میں اپنے کمال میں ہوں ایسا کاملؔ
  3. ن

    رباعی: اب کس سے کہیں کیا ہے اداسی کا سبب

    اب کس سے کہیں کیا ہے اداسی کا سبب ظاہر میں میّسر ہمیں آرام ہے سب ہے یاس نے وہ دام بچھایا کاملؔ رخصت ہوئی اس دل سے تمّنا ئے طرب
  4. ن

    رباعی: رس گھول رہے ہیں نغمہ ہائے بلبل

    رس گھول رہے ہیں نغمہ ہائے بلبل مدہوش ہوئے ہیں آج سرو و سنبل ہاتھوں میں لیے کھڑی ہے ہر شاخِ چمن پر’ بادۂ نوبہار صد ساغرِ گل
  5. ن

    رباعی: لایا ہے بہ منزل گہِ غم جادۂ شب

    لایا ہے بہ منزل گہِ غم جادۂ شب پھر زہرِ دمِ صبح بنی بادۂ شب کیا کیا نہ تھی امّید پر افسوس اسے ہنگامِ سحر بھول گیا وعدۂ شب
  6. ن

    رباعی: عالم یہ ہوا کہ تنہا غم میں اکثر

    عالم یہ ہوا کہ تنہا غم میں اکثر جلتا ہوں بہ آتشِ دل میں خستہ جگر دوپہر میں گرمیوں کی جیسے کاملؔ بے سایہ سڑک پہ کوئی تپتا پتھّر
  7. ن

    رباعی: دل بجھ سا گیا ہے تیرے نہ آنے سے

    دل بجھ سا گیا ہے تیرے نہ آنے سے یعنی وہی رسمِ ظلم دہرانے سے ہر غنچہِ و گل اداس ہے جانِ جہاں گلشن میں مرے اداس ہو جانے سے
  8. ن

    رباعی: ہر چند فغاں گیر ہوں مانندِ جرس

    ہر چند فغاں گیر ہوں مانندِ جرس غربت میں یہ قید مجھ پر بھاری ہے زِبس لیکن خبرِ یار اگر آ جائے ہو گوشہِ گلشن سے سوا کنجِ قفس
  9. ن

    رباعی: اس طرح کے سوءِ ظن میں کیا شاد رہوں

    اس طرح کے سوءِ ظن میں کیا شاد رہوں اپنے ہی گمان گا ظلم کس طور سہوں صد حیف جو مجھ سے یار ملنے کو کہے تو اِس کو بھی دشمن کی اک چال کہوں
  10. ن

    رباعی: ہر گامِ رہِ نگار منزل ہوتا

    ہر گامِ رہِ نگار منزل ہوتا گردابِ بلائے عشق ساحل ہوتا مشہورِجہاں ہم ہی ہوتے کیونکر ہر کوئی اگر عشق کے قابل ہوتا
  11. ن

    رباعی: گر بحرِبلائے عشق ساحل ہوتا

    گر بحرِبلائے عشق ساحل ہوتا اور گامِ رہِ نگار منزل ہوتا چاہت اگر اتنی ہی ہوتی آساں ہر سنگ ترے کوچے میں اک دل ہوتا
  12. ن

    رباعی: چاہت کو تری دل سے مٹایا کب تھا

    چاہت کو تری دل سے مٹایا کب تھا ہم نے تری یادوں کو بھلایا کب تھا پر خوف ترے کھونے کا ہوتا کیونکر اک وہم سے زیادہ تجھے پایا کب تھا
  13. ن

    رباعی: تجھ تک خبرِ یار آنے سے رہی

    تجھ تک خبرِ یار آنے سے رہی وہ بادۂ مشکبار آنے سے رہی کاملؔ نہ کر آرزوئے گل کہ یہ دل صحرا ہے یہاں بہار آنے سے رہی
  14. ن

    رباعی: اک لحظہ نہ تھا قرار کس سے کہتے

    اک لحظہ نہ تھا قرار کس سے کہتے دکھ درد تھے بے شمار کس سے کہتے نزدیک نہ تھا جو تو تو اے بے پروا احوالِ دلِ فگار کس سے کہتے
  15. ن

    رباعی: دل درد کا پابند ہوا جاتا ہے

    دل درد کا پابند ہوا جاتا ہے غم سینے میں دوچند ہوا جاتا ہے اب اور نہیں تاب بس اے شدّتِ یاس کر رحم کہ دم بند ہوا جاتا ہے
  16. ن

    رباعی: دل رنج سے بے حال ہو گیا ہے

    دل رنج سے بے حال ہو گیا ہے رنجور تا حدِّ کمال ہو گیا ہے قاتل ہمیں اس کا خیال ہو گیا ہے یہ عشق تو اک وبال ہو گیا ہے
  17. ن

    رباعی: ہر لمحہ غمِ نو میں گرفتار نہ تھا

    ہر لمحہ غمِ نو میں گرفتار نہ تھا بے چارۂ و بے یارو مددگار نہ تھا وحشت تو ہمیشہ سے ہے کاملؔ لیکن دل اس قدر آ شفتہ و بیزار نہ تھا
  18. ن

    رباعی: کیا آ گئی گلشن میں حریفِ بلبل

    کیا آ گئی گلشن میں حریفِ بلبل کانوں میں مرے آئے ہے صوتِ قُلقُل پیغامِ طرب ہے کہ کوئی نالہءِ زار؟ معشوقہِ رنداں ہے کہ ہے عاشقِ گل؟
  19. مزمل شیخ بسمل

    رباعی کے ”دو“ اوزان

    ابھی کچھ دیر پہلے ایک عزیز سے رباعی کے اوزان کے متعلق بات چل رہی تھی کہ رباعی کے چوبیس اوزان کو یاد رکھنا بڑا مشکل کام ہے اور بڑے بڑے عروضی بھی ان چوبیس اوزان کو اسی طرح لکھتے ہیں اور شاگردوں کو یاد کرواتے ہیں۔ قارئین میں جو میرا مضمون ہندی بحر کے حوالے سے پڑھ چکے ہیں انہیں کچھ عجب محسوس نہ...
  20. محمد وارث

    رباعی کے اوزان پر ایک بحث از محمد وارث

    رباعی بھی خاصے کی چیز ہے، قدما اس کے چوبیس وزن بنا گئے سو عام شعرا کو اس سے متنفر کرنے کیلیے یہی کافی ہے کہ رباعی کے چوبیس وزن ہیں، حالانکہ اگر تھوڑا سا تدبر و تفکر کیا جائے اور ان اوزان کو ایک خاص منطقی ترتیب اور انداز سے سمجھا جائے تو ان اوزان کو یاد رکھنا اور ان پر عبور حاصل کرنا کچھ مشکل...
Top