غزل
فراق گورکھپوری
سِتاروں سے اُلجھتا جا رہا ہُوں
شبِ فُرقت بہت گھبرا رہا ہُوں
تِرے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہُوں
جہاں کو بھی سمجھتا جارہا ہُوں
یقیں یہ ہے حقیقت کُھل رہی ہے
گُماں یہ ہے کہ دھوکے کھا رہا ہُوں
اگر مُمکن ہو، لے لے اپنی آہٹ
خبر دو حُسن کو میں آ رہا ہوں
حدیں حُسن و محبت کی مِلا...