غزل۔۔۔۔۔صابر ظفر
وہ جو اس طرف سے گزر گیا تو چمن تمام ہرا ہوا
چمن ایسا ، جیسے فلک پہ ہو ، کوئی طشت رنگ دھرا ہوا
ابھی تجھ سے دور ہے زندگی، ادھر آ، سرور ہے زندگی
مری شام بھی ہے سجی ہوئی ، مرا جام بھی ہے بھرا ہوا
وہ اگرچہ ایک خیال ہے ، مجھے آج بھی یہ ملال ہے
کئی سلوٹوں کا سبب بنا جو قریب اس کے...
( غزل)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2020۔10۔18
گُل، ہوئے جاتے تھے کیا کیا ، چمنِ سُرخ میں گم
مَیں بھی خلوت میں ہُوا پِیرہَنِ سُرخ میں گم
سرخ یاقوت ہو جیسے کسی یاقوت کے پاس
اک تن ِ سرخ تھا اک اور تن ِ سُرخ میں گم
رنگ جمتا ہی نہ تھا اور کسی حیلے سے
خون تھوکا تو غزل تھی سخنِ سُرخ میں گم
دور جاتا ہوا، زنجیر...
اب تک مزاحمت کی روایت رہی ہے کیا
تم کو ابھی خبر ہی نہیں سر کشی ہے کیا
بڑھتے رہے ہیں ایک کے بعد ایک سر فروش
تحریک زندگی کی کبھی دب سکی ہے کیا
آئی نہیں بہار مگر پھول کھل اٹھے
دیکھو شہادتوں کی یہاں فصل اگی ہے کیا
اب چاہیئے ترانہ کوئی اور ہی مجھے
شامل نہیں میں جس میں، وہ نغمہ...
یہاں نہیں ہے اگر روشنی ، یہاں سے نکل
اور اس سے پہلے کہ گر جائے ، اس مکاں سے نکل
عجب ترنگ ہے تنہا بھٹکتے رہنے میں
نہیں ہے کوئی بھی منزل تو کارواں سے نکل
سبھی خموش ہیں اور منتظر بہار کے ہیں
خزاں سے کون کہے ،صحنِ گل ستاں سے نکل
مخل ہے میرے سخن میں، اک ایسے عجز کی پھانس
جسے میں کہہ نہیں...
ترے لوگوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں
مگر سجدہ تجھی کو کر رہے ہیں
مبارک ہو تجھے تیری سخاوت
کہ ہم جھولی میں پتھر بھر رہے ہیں
ترے آگے انھیں پھیلاتے کیسے
جو دامن آنسوؤں سے تر رہے ہیں
انھیں بینائی دے جن کی نظر میں
ترے ہو کر بھی ہم کافر رہے ہیں
نہیں فرصت ادھر آنے کی تجھ کو...
عشق وابستہ ہوا شاخِ نمو داری سے
سارا جنگل مہک اٹھا اسی چنگاری سے
دھیان آتا تھا تمہارا تو چہک اٹھتے تھے
زندگی ورنہ گزاری بڑی بیزاری سے
خود بخود تو نہیں کھلتا ہے کوئی بندِ قبا
کی ہے آسانی یہ پیدا بڑی دشواری سے
نہ ہی نسبت کوئی اپنی کسی دربار سے ہے
نہ علاقہ ہی کوئی ہے کسی درباری سے
سن رہا...
Strings
سٹرنگ(String) حروف کے تسلسل سے مل کر بنتی ہے عموما یہ پڑھی جانے والی تحریر کی نمائندگی کرتی ہے۔ حروف کے سلسلوں اور مجموعہ کو سٹرنگ کہتے ہیں ۔ اس میں ایک یا ایک سے زائد حروف ہو سکتے ہیں جن میں علامات بھی شامل ہیں۔
سٹرنگ پائتھون میں موجود مختلف ڈیٹا ٹائپ میں سے ایک ہے اور جیسا کہ نام سے...
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے
میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ھوں
جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے
رکوں تو منزلیں ہی منزلیں ہیں
چلوں تو راستہ کوئی نہیں ہے
کھلی ہیں کھڑکیاں ہر گھر کی لیکن
گلی میں جھانکتا کوئی نہیں ہے
کسی سے آشنا ایسا ہوا ہوں
مجھے پہچانتا کوئی نہیں ہے...
غزل
صابر ظفر
اِسی لیے کبھی خُوش ہیں کبھی ہیں مُضطر ہم
کسی کو یاد نہیں اور کسی کو ازبر ہم
ہمارے حال کو پُہنچے اگر، تو جانے کوئی
غُبارِ غم سے نہاں ہیں درُونِ منظر ہم
خُدا ہو چاہے صنم، سب کچھ اپنے آپ میں ہے
اور اپنے آپ میں رہتے نہیں ہیں اکثر ہم
یہ نم گرفتہ و لُکنت زدہ ، ہمارا سُخن
قبُول کر...
وہ دل ہی کیا، دھڑک کے، قیامت نہ جس نے کی
زَندہ بھی ہے وہ شخص، محبت نہ جس نے کی
ایسا اگر ہے کوئی تو اُس کو کروں سلام
ظاہر کِسی سے اپنی ضرُورت نہ جس نے کی
سمجھو کہ اُس کو مِل گئے سب سُکھ جہان کے
دُنیا سے اپنے دُکھ کی شِکایت نہ جس نے کی
تُو اور مہربان ہوا ایسے شخص پر؟
تیرے وصال کی کبھی حسرت نہ...
تم اپنے گرد حصاروں کا سلسلہ رکھنا
مگر ہمارے لیئے کوئی راستہ رکھنا
ہزار سانحے پردیس میں گزرتے ہیں
جو ہو سکے تو ذرا ہم سے رابطہ رکھنا
خزاں رکھے گی درختوں کو بے ثمر کب تک
گذر ہی جائے گی یہ رُت بھی، حوصلہ رکھنا
تمہارے ساتھ سدا رہ سکیں ، ضروری نہیں
اکیلے پن میں کوئی دوست دوسرا رکھنا...
غزل
وجود کیا ہے عدم کیا ہے کچھ نہ تھا معلوم
میں رُوبرو تھا کسی کے ‘ تھا کون‘ کیا معلوم
یہ کائنات ہے اُس کی تو پھر ہے اپنا کیا
وہ ساتھ رہ کے بھی کیوں ہو علاحدہ معلوم
کسی سے کچھ نہ کہوں اپنے آپ ہی میں رہوں
یہ عشق ہی کا ہو سارا کیا دھرا معلوم
اگر خیال میں تشکیک اور تضاد نہ ہو
خدا...
وہ کیوں نہ روٹھتا ، میں نے بھی تو خطا کی تھی
بہت خیال رکھا تھا بہت وفا کی تھی
سنا ہے ان دنوں ہم رنگ ہیں بہار اور آگ
یہ آگ پھول ہو میں نے بہت دعا کی تھی
نہیں تھا قرب میں بھی کچھ مگر یہ دل ، مرا دل
مجھے نہ چھوڑ ، بہت التجا کی تھی
سفر میں کشمکش مرگ و زیست کے دوران
نجانے کس نے مجھے زندگی عطا...
بکھرتا پھول جیسے شاخ پر اچھا نہیں لگتا
محبت میں کوئی بھی عمر بھر اچھا نہیں لگتا
بکھرنے اور بھٹکنے کیلیے تنہائی کافی ہے
کوئی منزل نہ ہو تو ہمسفر اچھا نہیں لگتا
میں اس کو سوچتا کیوں ہوں اگر ندرت نہیں اس میں
میں اس کو دیکھتا کیوں ہوں اگر اچھا نہیں لگتا
اسی باعث میں تیری یادوں میں مصروف...
نہ ترا خدا کوئی اور ہے نہ مرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو قسمتیں ہیں جدا جدا یہ معاملہ کوئی اور ہے
ترا جبر ہے مرا صبر ہے تری موت ہے مری زندگی
مرے درجہ وار شہید ہیں ، مری کربلا کوئی اور ہے
کئ لوگ تھے جو بچھڑ گئے کئ نقش تھے جو بگڑ گئے
کئ شہر تھے جو اجڑ گئے ابھی ظلم کیا کوئی اور ہے
نہ تھا جس...
جب وہ صورت عجب بنائی گئ
زندگی بے سبب بنائی گئ
دی گئ تاب دید آنکھوں کو
دل میں شکل طلب بنائی گئ
دیکھ کر دن کی بے لباسی کو
مثل ملبوس شب بنائی گئ
بعد میں بحر غم بنایا گیا
پہلے موج طرب بنائی گئ
تھی نہ اس ہاتھ میں لکیر کوئی
میری تقدیر جب بنائی گئ
تیرگی تھی ابد کی صورت میں
روشنی...
رات کو خواب ہو گئ ، دن کو خیال ہو گئ
اپنے لیے تو زندگی ، ایک سوال ہو گئ
ڈال کے خاک چاک پر ، چل دیا ایسے کوزہ گر
جیسے نمود خشک و تر ، رو بہ زوال ہو گئ
پھول نے پھول کو چھوا ، جشن وصال تو ہوا
یعنی کوئی نباہ کی رسم بحال ہو گئ
تجھ کو کہاں سے کھوجتا ، جسم زمین پہ بوجھ تھا
آخر اس تکان سے ،...
اس پہ ظاہر مرا احوال نہیں ہو سکتا
وہ کنارا کبھی پاتال نہیں ہو سکتا
فکر کرنے سے ہی ملتی ہے سخن کی دولت
جو نہیں سوچتا خوشحال نہیں ہو سکتا
لکھنے والا جو اسے اپنے لہو سے لکھے
کوئی مضمون بھی پامال نہیں ہو سکتا
آب و ماہی کا تعلق ہے فقط آزادی
ان کا ہمدرد کوئی جال نہیں ہو سکتا
شہر اپنا...
یہ پہلی پہل لگن کا معاملہ ہے عجیب
کہ بیل اس سے لپٹتی ہے جو شجر ہو قریب
یہ دل بھی طاق پہ رکھ دو بجھے دیے کی طرح
کسی بھی چیز کی گھر میں اگر نہیں ترتیب
ظفر جو لوگ تھے شفاف آئینوں کی طرح
انہی کے بارے میں باتیں ہوئیں عجیب و غریب
صابر ظفر
گُریز پا ہے جو مجھ سے ، اُسی کے پاس بہت ہوں
میں اپنے وعدے پہ قائم ہوں ، اور اُداس بہت ہوں
یہ قید وہ ہے، کہ زنجیر بھی نظر نہیں آتی
یہ پیرہن ہے کچھ ایسا کہ بے لباس بہت ہوں
نہیں شریک ِسفر وہ ، مگر ملال بہت ہے
کہ جس مقام پہ بھی ہوں ، میں اُس کی آس بہت ہوں
خموش اس لیئے رہتا ہوں ، میرے...