کوئی تو ترکِ مراسم پہ واسطہ رہ جائے
وہ ہم نوا نہ رہے صورت آشنا رہ جائے
عجب نہیں کہ مِرا بوجھ بھی نہ مُجھ سے اُٹھے
جہاں پڑا ہے زرِ جاں وہیں پڑا رہ جائے
میں سوچتا ہوں مجھے انتظار کس کا ہے
کواڑ رات کو گھر کا اگر کُھلا رہ جائے
کسے خبر کہ اسی فرش ِ سنگ پر سو جاؤں
مِرے مکاں میں بستر مرا...
[align=justify:4090e94c56]کھدائی کو کھنڈر کوئی نہیں ہے
اب اِس مٹی میں زر کوئی نہیں ہے
خیالوں میں یہ کس کی دستکیں ہیں
اگر بیرون ِ در کوئی نہیں کوئی نہیں ہے
وہاں لوگوں کے کیا دُکھ درد ہونگے
جہاں اب نوحہ گر کوئی نہیں ہے
کسے ہے بات کہنے کا سلیقہ
اگر چہ بے ہنر کوئی نہیں ہے
جِدھر چاہو نکل جاؤ...