تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
مایوسیء ماآلِ محبت نہ پوچھئے
اپنوں سے پیش آئے ہیںبیگانگی سے ہم
لو آج ہم نے توڑ دیا رشتہء امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم
ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گودب گئے ہیں بارِ غمِ زندگی سے ہم
گر...
خودداریوں کے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے
ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے
ٹوٹا طلسمِ عہد محبت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے
ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کرسکے
کس درجہ دل...
صبحِ نو روز
پھوٹ پڑیں مشرق سے کرنیں
حال بنا ماضی کا فسانہ
گونجا مستقبل کا ترانہ
بھیجے ہیں احباب نے تحفے
اٹے پڑے ہیں میز کے کونے
دلہن بنی ہوئی ہیں راہیں
جشن مناو سالِ نو کے
نکلی ہے بنگلے کے در سے
اک مفلس دہقان کی بیٹی
افسردہ مرجھائی ہوئی سی
جسم کے دکھتے جوڑ دباتی
آنچل سے سینے...
اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بیکار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں میں
اپنی بےسود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے
میرا ماضی کو اندھیرے میں دبا رہنے دو
میراماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں
معری امیدوں کا حاصل میری خواہش کا صلہ
اک بےنام اذیت کے سوا کچھ بھی...
تاج تیرے لیے اک مظہرِ الفت ہی سہی
تجھ کو اس وادیء رنگیں سے عقیدت ہی سہی
میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ میں ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟
میری محبوب پس پردہ تشہیرِ وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا...
پیارے دوستو، ساحر لدھیانوی کی شاعری کا سب سے مشہور حصہ ان کے فلمی گیت ہیں۔ ذیل میں ان کی شاعری سے کچھ مختصر انتخاب پیش کیا جا رہا ہے۔ اس میں ان کی تین مشہور نظمیں بھی شامل ہیں جن کے نام “چکلہ“، “عورت نے جنم دیا مردوں کو“ اور “کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے“ ہیں
سوچتا ہوں
سوچتا ہوں محبّت سے کنارا کر لوں
دل کو بیگانہ ترغیب و تمنّا کر لوں
سوچتا ہوں کے محبّت ہے جنونِ رسوا
چند بیکار سے بیہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کے اپنانے کی سی موہوم
سوچتا ہوں کے محبّت ہے سرور و مستی !
اس کی تنویر سے روشن ہے فضائے ہستی...