آج - 20؍مارچ 1922
پاکستانی شاعر اور معروف نغمہ نگار”#سیف_الدین_سیفؔ صاحب“ کا یومِ ولادت...
#سیف_الدین نام اور #سیفؔ تخلص تھا۔
20؍مارچ 1922ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ بعض سیاسی ومذہبی مسائل پر ارباب کالج سے الجھ پڑنے کی وجہ سے امتحان سے روک دیا گیا۔مجبوراً سیف نے تعلیم سے منہ موڑلیا اور تلاش معاش...
کلام: سیف الدین سیفؔ
گرچہ سو بار غمِ ہجر سے جاں گُزری ہے
پھر بھی جو دل پہ گزرتی تھی کہاں گزری ہے
آپ ٹھہرے ہیں تو ٹھہرا ہے نظامِ عالم
آپ گزرے ہیں تو اک موجِ رواں گُزری ہے
ہوش میں آئے تو بتلائے ترا دیوانہ
دن گزارا ہے کہاں رات کہاں...
رُخ پہ یوں جھوم کر وہ لَٹ جائے
خضر دیکھے تو عمر کٹ جائے
اس نظارے سے کیا بچے کوئی
جو نگاہوں سے خود لپٹ جائے
یہ بھی اندھیر ہم نے دیکھا ہے
رات اک زلف میں سمٹ جائے
جانے تجھ سے ادھر بھی کیا کچھ ہے
کاش تو سامنے سے ہٹ جائے
موت نے کھیل ہم کو جانا ہے
کبھی آئے کبھی پلٹ جائے
ڈوبنے تک میں...
چاندنی رات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
لب پہ اک بات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
جھوم کر آج یہ شب رنگ لٹیں بکھرا دے
دیکھ برسات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
دل مجروح کی اجڑی ہوئی خاموشی سے
بوئے نغمات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
آج کی رات وہ آئے ہیں بڑی دیر کے بعد
آج کی رات بڑی دیر کے بعد آئی ہے
آہ تسکین بھی اب سیفؔ شب...
وعدہ
اِس سے پہلے کہ تیری چشمِ کرم
معذرت کی نِگاہ بن جائے
اِس سے پہلے کہ تیرے بام کا حُسن
رفعت ِ مہر و ماہ بن جائے
پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں
آرزو ایک آہ بن جائے
مجھ پہ آ جائے عشق کا الزام
اور تو بے گناہ بن جائے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
اِس سے پہلے کے سادگی تیری
لبِ خاموش کو گِلہ کہہ دے
میں...
مسجد و منبر کہاں،میخوار و میخانے کہاں
کیسے کیسے لوگ آ جاتے ہیں سمجھانے کہاں
یہ کہاں تک پھیلتی جاتی ہیں دل کی وسعتیں
حسرتو! دیکھو سمٹ آئے ہیں ویرانے کہاں
میں بہت بچ بچ کے گزرا ہوں غمِ ایام سے
لُٹ گئے تیرے تصور سے پری خانے کہاں
یہ بھی تیرے غم کا اِک بدلا ہوا انداز ہے
میں کہاں ورنہ غم ِ دوراں...
باقی رہی نہ خاک بھی میری زمانے میں
اور برق ڈھونڈتی ہے مجھے آشیانے میں
اب کِس سے دوستی کی تمنا کریں گے ہم
اِک تم جو مل گئے ہو سارے زمانے میں
اے حسن! میرے شوق کو الزام تو نہ دے
تیرا تو نام تک نہیں میرے فسانے میں
روئے لپٹ لپٹ کے غمِ دو جہاں سے ہم
وہ لذتیں ملیں ہمیں آنسو بہانے میں
ہر سانس کھنچ...
کوئی نہیں آتا سمجھانے
اب آرام سے ہیں دیوانے
طے نہ ہوئے دل کے ویرانے
تھک کر بیٹھ گئے دیوانے
مجبُوری سب کو ہوتی ہے
ملنا ہو تو لاکھ بہانے
بن نہ سکی احباب سے اپنی
وہ دانا تھے، ہم دیوانے
نئی نئی اُمیدیں آ کر
چھیڑ رہی ہیں زخم پرانے
جلوہء جاناں کی تفسیریں
ایک حقیقت، لاکھ فسانے
دنیا بھر کا درد سہا...
تمہاری یاد کہیں رکھ کر بھول گیا ہوں
سوچا تھا پہلے کر لوں وہ کام جو مجھ کو کرنے ہیں
پھر تو سارے ماہ و سال اُسی کے ساتھ گزرنے ہیں
جب یہ فرض ادا کر لوں گا، جب یہ قرض اُتاروں گا
عمر کا باقی حصہ تیری یاد کے ساتھ گزاروں گا
آج فراغت پاتے ہی ماضی کا دفتر کھولا ہے
تنہائی میں بیٹھ کے اپنا اِک اِک زخم...
جب تصور میں نہ پائیں گے تمہیں
پھر کہاں ڈھونڈنے جائیں گے تمہیں
تم نے دیوانہ بنایا مجھ کو
لوگ افسانہ بنائیں گے تمہیں
حسرتو ! دیکھو یہ ویرانہ دل
اِس نئے گھر میں بسائیں گے تمہیں
میری وحشت، مرے غم کے قصے
لوگ کیا کیا نہ سنائیں گے تمہیں
آہ میں کتنا اثر ہوتا ہے
یہ تماشا بھی دکھائیں گے تمہیں
آج کیا...
آپ اپنی آرزو سے بیگانے ہو گئے ہیں
ہم شوق ِ جستجو میں دیوانے ہو گئے ہیں
فرقت میں جن کو اپنا کہہ کہہ کر دن گزارے
وہ جب سے مل گئے ہیں بیگانے ہو گئے ہیں
کہتے ہیں قصہ غم ہر انجمن میں جا کر
ہم اہل دل بھی کیسے دیوانے ہو گئے ہیں
آنکھوں سے جو نہاں تھے ار دل میں کارفرما
وہ راز ہوتے ہوتے...
جب ترے شہر سے گزرتا ھوں
کس طرح روکتا ھوں اشک اپنے
کس قدر دل پہ جبر کرتا ھوں
آج بھی کارزار ھستی میں!
جب ترے شہر سے گزرتا ھوں
اس قدر بھی نہیں مجھے معلوم
کس محلے میں ھے مکاں تیرا
کون بتلائے گا نشاں تیرا
تیری رسوائیوں سے ڈرتا ھوں
جب ترے شہر سے گزرتا ھوں
حال دل بھی نہ کہہ سکا گرچہ
تو رھی...
کسی ایک منزل پہ رکنا گراں ھے
نہ لطف بہاراں نہ خوف خزاں ھے
یہ کیا بیکلی اپنے دل میں نہاں ھے
سفینہ رواں ھے
ھوا آتش دل کو بھڑکا رہی ھے
کوئی بے قراری لیے جا رھی ھے
نہ جانے تمنا کا ساحل کہاں ھے
سفینہ رواں ھے
بلاتا ھے پیہم اشاروں سے کوئی
صدا دے رھا ھے کناروں سے کوئی
مگر...
مری داستان حسرت وہ سنا سنا کر روئے
مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
کوئی ایسا اہل دل ھو کہ فسانہ محبت
میں اسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے
مری آرزو کی دنیا دل ناتواں کیحسرت
جسے کھو کے شادماں تھے اسے آج پا کے روئے
تری بے وفائیوں پر تری کج ادائیوں پر
کبھی سر جھکا کے روئے...
ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
کیسے جیتے ہیں یہ کس طرح جیے جاتے ہیں
اہلِ دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا
جی نہیں آپ سے کیا مجھ کو شکایت ہوگی
ہاں مجھے تلخیِ حالات پہ رونا آیا
حسنِ مغرور کا یہ رنگ بھی دیکھا آخر
آخر ان کو بھی کسی بات پہ رونا آیا
کیسے مر مر کے...
غم دل کسی سے چھپاناپڑے گا
گھڑی دو گھڑی مسکرانا پرے گا
یہ آلالم ھستی یہ دور زمانہ
تو کیا اب تمہیں بھول جانا پڑے گا
بہت بچ کے نکلے مگر کیا خبر تھی
ادھر بھی ترا آستانہ پڑے گا
نہیں بھولتا سیف عہد تمنا
مگر رفتہ رفتہ بھلانا پڑے گا
در پردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم
تم یہ نہ سمجھنا کہ برا مان گئے ہم
پلکوں پہ لرزتے ھوئے تارے سے یہ آنسو
اے حسن پشیماں ترے قربان گئے ہم
ہم اور ترے حسن تغافل سے بگڑتے
جب تو نے کہا مان گئے مان گئے ہم
بدلا ھے مگربھیس غم عشق کا تو نے
بس اے غم دوراں تجھے پہچان گئے ہم
ھے سیف بس...
بڑے خطرے میں ھے حسن گلستاں ہم نہ کہتے تھے
چمن تک آگئی دیوار زنداں ، ہم نہ کہتے تھے
بھرے بازار میں جنس وفا بے آبرو ھو گی
اٹھے گا اعتبار کوئے جاناں، ہم نہ کہتے تھے
اسی محفل اسی بزم وفا کے گوش گوشے میں
لٹے گی مستی چشم غزالاں ، ہم نہ کہتے تھے
اسی رستے میں آخر وہ کڑی منزل بھی آئے...
آپ سے عرض ملاقات نئی بات نہیں
ھے مرے لب پہ وہی بات نئی بات نہیں
دل بے تاب یہ ہلچل یہ قیامت کیسی
آج کچھ ان سے ملاقات نئی بات نہیں
آپ آ جائیں تو رم جھم کی صدا ناچ اٹھے
ورنہ یہ رات یہ برسات نئی بات نہیں
ھے یہی فرقہ ارباب وفا کا مقسوم
یہ پریشانی حالات نئی بات نہیں
سیف انداز...