shafiq khalish

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش بنیں شریکِ سفر وہ مکاں سے گھر کے لیے -Shafiq Khalish

    غزل بنیں شریکِ سفر وہ مکاں سے گھر کے لیے تو وجہ کیا کوئی باقی ہو دِل میں ڈر کے لیے طَلَب ذرا نہ ہو تکیہ کی عُمر بھر کے لیے! مُیَسّر اُن کا ہو زانُو جو میرے سر کے لیے تمنّا دِل میں کہاں اب کسی بھی گھر کے لیے نہیں ہے چاند مُیسّر جو بام و دَر کے لیے کوئی بھی پیار ہو، اِظہار سے عِبارت ہے! کریں...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش ۔۔ حُصُولِ قُرب گو اُن کے یُوں پیش و پس میں نہیں!۔۔

    غزل شفیق خلشؔ حُصُولِ قُرب گو اُن کے یُوں پیش و پس میں نہیں! انا کا پاس کرُوں کیا، کہ دِل ہی بس میں نہیں جُدا ہُوا نہیں مجھ سے ، جو ایک پَل کوکبھی ! غضب یہ کم، کہ وہی میری دسترس میں نہیں خیال و خواب مُقدّم لیے ہے ذات اُس کی کہوں یہ کیسے کہ پَیوستہ ہر نفس میں نہیں محبّتوں میں عِنایت کا...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::ہر مُصیبت جو کھڑی کی اُنھی کے خُو نے کی:::::Shafiq- Khalish

    غزل شفیق خلِشؔ ہر مُصیبت جو کھڑی کی اُنھی کے خُو نے کی اُس پہ ہَٹ دھرمی ہر اِک بار یہ، کہ تُو نے کی شرم دُورآنکھوں سے اپنوں کی ہائے ہُو نے کی اور کچھ، اَوچھوں سے تکرار و دُو بَدُو نے کی اِک جہاں کی رہی خواہش سی مجھ سے مِلنے کی یُوں مِرے عِشق کی تشہیر ماہ رُو نے کی کچھ تو پُر برگ و...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: میری ناگفتہ بہ حالت کہاں عَدُو نے کی:::::Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلشؔ میری ناگفتہ بہ حالت کہاں عَدُو نے کی اُس سے ہر وقت رہی اُن کی گفتگو نے کی کس سَہارے ہو بَسر اپنی زِندگی، کہ ہَمَیں اِک بَدی تک، نہیں تفوِیض نیک خُو نے کی باغ میں یاد لِیے آئی تو فریب دِیئے! دِیدَنی تھی مِری حالت جو رنگ و بُو نے کی ترکِ اُلفت کی تھی تحریک، شرمسار ہُوئی! کُو بہ...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::قربان حسرتوں پہ کبھی دِل کی چاہ پر:::::Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلشؔ قربان حسرتوں پہ کبھی دِل کی چاہ پر لا پائے خود کو ہم نہ کبھی راست راہ پر اِک معتبر خوشی نہیں یادوں کی آہ پر نادم نہیں ہیں پھر بھی ذرا تیری چاہ پر ٹہلے نہ یُوں گلی سے عقُوبت کے باوجُود آنکھیں ہی جَم گئی تھیں رُخِ رشکِ ماہ پر حاصِل پہ اِطمینان کب اِک تِیرِ غم کو تھا ! برسے سب بار...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::لگائے وصل کی اُمید اور آس ، اور بھی ہیں:::::Shafiq Khalish

    غزل لگائے وصل کی اُمید اور آس، اور بھی ہیں ہم ایسے اُن کے کئی آس پاس اور بھی ہیں پلٹ کے جانے کو یکتائے آشتی نہ رہے اب اُن کے عِشق میں کُچھ دیوداس اور بھی ہیں جو انحصار سا ، پہلے تھا گفتگو پہ کہاں! حُصُولِ دِید پہ اب اِلتماس اور بھی ہیں مُتاثر اِس سے کہاں ہم کہ خوش نَوا وہ نہیں...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: کب تمنّا رہی، گمنام اُنھیں رہنے کی:::::Shafiq Khalish

    غزل کب تمنّا رہی، گمنام اُنھیں رہنے کی پائی فِطرت تھی نہ اپنوں کو ذرا سہنے کی دی جو تجوِیز اُنھیں ساتھ کبھی رہنے کی بولے! ہّمت ہُوئی کیسے یہ ہَمَیں کہنے کی بات ویسے بھی تھی سِینے میں نہیں رہنے کی گرچہ سوچا تھا کئی بار نہیں کہنے کی ذہن چاہے کہ اُڑان اپنی ہو آفاق سے دُور دِل میں خواہش کبھی...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::مُسابَقَت میں مزہ کوئی دَم نہیں ہوتا:::::shafiq khalish

    غزل مُسابَقَت میں مزہ کوئی دَم نہیں ہوتا ذرا جو فِطرَتِ آہُو میں رَم نہیں ہوتا یہ لُطف، عِشق و محبّت میں کم نہیں ہوتا! بہت دِنوں تک کوئی اور غم نہیں ہوتا دِلوں کے کھیل میں سب حُکم دِل سے صادِر ہوں زماں کا فیصلہ یکسر اَہَم نہیں ہوتا تمھارے ساتھ گُزارے وہ چند لمحوں کا ذرا سا کم کبھی لُطفِ...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے::::shafiq khalish

    غزل چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے غمِ جہاں بھی، نہ اِس غم سے کُچھ رہائی دے کبھی خیال، یُوں لائے مِرے قریب تُجھے ! ہرایک لحظہ، ہراِک لب سے تُو سُنائی دے کبھی گُماں سے ہو قالب میں ڈھل کے اِتنے قریب تمھارے ہونٹوں کی لرزِش مجھے دِکھائی دے ہے خوش خیالیِ دل سے کبھی تُو پہلُو میں کُچھ اِس طرح...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش :::: دیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلا دِیا::: Shafiq Khalis

    غزل دِیدہ دلیری سب سے، کہ اُس کو بُھلادِیا اَوروں نے جب کہا کبھی، مجھ کو رُلا دِیا جو روز بڑھ رہا تھا بہر طَور پانے کا! جذبہ وہ دِل کا ہم نے بالآخر سُلادیا تردِید و خوش گمانی کو باقی رہا نہ کُچھ ہر بات کا جواب کُچھ ایسا تُلا دِیا تشہیر میں کسر کوئی قاصِد نے چھوڑی کب! خط میرے نام لکھ کے جب...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش ::: دل مبتلا ہے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے::: Shafiq Khalish

    دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش ::: دل مبتلا ہے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے::: Shafiq Khalish

    دِل مُبتلائے حسرتِ دِیدار ہی تو ہے فُرصت وَبا کے دَم سے یہ بیکار ہی تو ہے کب دِل کو اِنحرافِ روابِط تھا یُوں قبُول ہر وقت ذکرِ مرگ سے بیزار ہی تو ہے بندہ وَبا سے، گھر رہا محفوظ ہے ضرور لیکن، تمھارے ہجر میں بیمار ہی تو ہے منزل کی دسترس میں کوئی سد نہیں، مگر ہر پیش و پس، بہ مُمکنہ رفتار ہی تو...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے:::::Shafiq-Khalish

    غزل نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے ذرا سا دُور رہے، سب سے بات کی جائے کنارا کرتے تھے اکثر شُنِید و گُفت سے جو ترس رہے ہیں کہ اب کِس بات کی جائے وَبا میں ملِنے کی اتنی نہ آرزو ہو اُنھیں جو گفتگوئے ہمہ ممکنات کی جائے نہ جینا اچھا تھا اُن کا جو مر رہے ہیں یہاں اگر تمیزِ حیات و ممات کی...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::کوئی دستور، یا رواج تو ہو:::::Shafiq-Khalish

    غزل کوئی دستور، یا رواج تو ہو عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو مُنتظر روز و شب رہیں کب تک! ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو بس اُمید اور آس کب تک یُوں! حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو ہم نہ...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا:::::Shafiq-Khalish

    سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا جو سُکوں حاصل اِدھر ہے وہ اُدھر بالکل نہ تھا تھا غضب کا دَور جس میں گھر بھی گھر بالکل نہ تھا کون تھا مُثبت عمل جو در بَدر بالکل نہ تھا حاکمِ وقت ایک ایسا تھا مُسلّط قوم پر جس پہ، باتوں کا کسی کی، کُچھ اثر بالکل نہ تھا حق شناسی، نوجوانی سے ودِیعت تھی...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی:::::Shafiq-Khalish

    غزل شفیق خلشؔ پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی خوشبو رَچی تھی یاد، بہت دُور تک گئی نِسبت سے کیا ہی خُوب نظارے تھے پَیش رُو اِک یاد لے کے شاد بہت دُور تک گئی ہم ڈر رہے تھے کوس قیادت پہ زِیست کی ! لے کر پُر اعتماد بہت دُور تک گئی منزِل کی رَہنُمائی پَزِ یرائی سے مِلی! پہلی غَزل کی داد بہت دُور...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے:::::Shafiq-Khalish

    غزل جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے! اُسی نے لرزہ براندام ہم کو چھوڑا ہے نہ خوف و خاطرِ انجام ہم کو چھوڑا ہے بنا کے خوگرِ آلام ہم کو چھوڑا ہے گو شَوقِ وصل نے، ناکام ہم کو چھوڑا ہے! گلی سے دُور نہ اِک شام ہم کو چھوڑا ہے قدم قدم نہ ہو دِل غم سے کیسے آزردہ ! مُصیبتوں نےکوئی گام ہم کو چھوڑا...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے:::::Shafiq-Khalish

    غزل غرض تھی اپنی تو بانہوں میں بھر لیا تھا مجھے کسی کی دشمنی میں دوست کرلیا تھا مجھے مُسلسَل ایسے تھے حالات مَیں سنبھل نہ سکا کُچھ اُس نے عِشق میں بھی سہل تر لیا تھا مجھے کسی بھی بات کا کیونکر یقیں نہیں تھا اُنھیں خُدا ہی جانے جو آشفتہ سر لیا تھا مجھے کسی کا مشوَرہ درخورِ اِعتنا کب تھا تھی...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::روزو شب دِل کو تخیّل سےلُبھائے رکھنا :::::: Shafiq-Khalish

    غزل روزو شب دِل کو تخیّل سےلُبھائے رکھنا ایک صُورت دِلِ وِیراں میں بَسائے رکھنا خوش تصوّر سے ہر اِک غم کو دبائے رکھنا کوئی اُمّید، ہمہ وقت لگائے رکھنا بات سیدھی بھی ، معمّا سا بنائے رکھنا! دِل کے جذبات کو عادت تھی چھپائے رکھنا ڈر سے، ظاہر نہ مِرا اِضطراب اُن پر ہو کہیں! ایک...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::ہمقدم پھر جو یار ہو جائے:::::: Shafiq-Khalish

    غزل ہمقدم پھر جو یار ہو جائے ہر فِضا سازگار ہو جائے گُل کے دیکھے پہ یاد سے اُس کی! جی عجب بےقرار ہو جائے اب بھی خواہش، کہ وہ کسی قیمت ہم خیال ایک بار ہو جائے حاصلِ دِید سے حصُول کا ایک بُھوت سر پر سوار ہو جائے ایسے چہرے نقاب میں ہی بَھلے جِن کو دیکھو تو پیار ہوجائے خامشی خُوب یُوں...
Top