غزل
شفیق خلش
کیا تم سے کہیں چُپ رہنے دو
جو چاہیں کہیں وہ ، کہنے دو
دیوانہ سمجھ کر رہنے دو
اے چارہ گرو دُکھ سہنے دو
دن بھر تو رہے آنسو روکے
خلوت میں لڑی تو بہنے دو
سُونی سی لگے دُنیا دل کی
کچھ اور غموں کے گہنے دو
ہاں درد کے سارے زیور وہ
اب تک جو نہیں ہیں پہنے دو
دیوانگی اُن کی...
غزل
شفیق خلش
ہو دل میں اگر پیار نہ کرنے کا تہیّہ
بہتر نہیں اِس سے کہ ہو مرنے کا تہیّہ
ہوتا ہے ترے وصل کے وعدے پہ مؤخر
وابستہ تِرے فُرق سے مرنے کا تہیّہ
دل خود میں کسی طَور پنپنے نہیں دیتا
کچھ ہٹ کے کبھی عشق سے کرنے کا تہیّہ
گُزری ہے بڑی عمر اِسی حال میں ناصح
کامل نہ مِرا ہوگا سُدھرنے کا...
غزل
شفیق خلش
کہتے تھے ہراِک بات پہ مُجھ سے جو، وہی تو
چپ سادھ کے بیٹھے رہے جب دل کی کہی تو
ڈر یوں بھی رہے اُن کی، نہیں آج نہیں سے
دل میں ہی مِرے دل کی اگر بات رہی تو
مِلتی نہ محبت وہ الگ بات ہے، لیکن
پھیلاتے، تم اپنا کبھی دامانِ تہی تو
جائیں گے ضروراُن سے مُلاقات کو، پہلے
ہو دُور...
شفیق خلش
غزل
آنکھوں کی طرح میری چمکتے رہو تارو
تم دل کی طرح دِید کی اُمید نہ ہارو
ہے ہجر کا موسم یہ مِرے دل کے سہارو
قائم رہے کچھ وصل کی اُمّید تو پیارو
غالب رہے ضو باری بچھی تِیرہ شبی پر
چہرے نہ لگیں یاس کی تصویر سی تارو
اے چاند ، اُسے میری تسلّی ہی کی خاطر
آجائے وہ تم میں نظر ایسا...
شفیق خلش
غزل
وہ خوابِ دل نشیں مِرے ، جو مُنتشر ہُوئے
حسرت میں ڈھل کے پھر سے تِرے مُنتظر ہُوئے
راہِ خیال و فکر میں جو ساتھ ساتھ تھے
کب راہِ زندگی میں مِرے ہم سفر ہُوئے
دل کے مُعاملے وہ دِلوں تک ہی کب رہے
برکت سے رازداں کی سبھی مُشتہر ہوئے
بڑھ کر بلآخر ایک سے غم قافلہ بنا
رنج...
شفیق خلش
غزل
آئے جو وہ ، تو دل کے سب ارماں مچل گئے
بُجھتے ہُوئے چراغِ وفا پھر سے جل گئے
مِلتے توسب سے آ کے ہیں اِک ہم ہی کو مگر
مِلتی نہیں خبر وہ کب آکر نکل گئے
پیمان وعہد کیا ہُوئے، سوچوں کبھی کبھی
کیوں قربتوں کے ہوتے وہ اِتنے بدل گئے
ویراں تھی زندگی، مِری اِک دِید کے بغیر
اب ایسی...
شفیق خلش
غزل
نظرسے جواُس کی نظر مِل گئی ہے
محبت کو جیسے اثر مِل گئی ہے
سرِشام ، وہ بام پر آئے ، شاید
ہم آئے گلی میں خبر مِل گئی ہے
مزید اب خوشی زندگی میں نہیں ہے
تھی قسمت میں جومختصرمِل گئی ہے
گِلہ کیوں کریں ہم مِلی بے کلی کا
توسّط سے اُس کے اگرمِل گئی ہے
ہمہ وقت طاری جو رہتی تھی...
شفیق خلش
غزل
دوست یا دشمنِ جاں کُچھ بھی تم اب بن جاؤ
جینے مرنے کا مِرے ، اِک تو سبب بن جاؤ
ہو مثالوں میں نہ جو حُسنِ عجب بن جاؤ
کِس نے تم سے یہ کہا تھا کہ غضب بن جاؤ
آ بسو دل کی طرح گھر میں بھی اے خوش اِلحان
زندگی بھر کو مِری سازِ طرب بن جاؤ
رشک قسمت پہ مِری سارے زمانے کو رہے
ہمسفرتم جو...
شفیق خلش
غزل
صد شُکر ریزہ ریزہ کا خدشہ نہیں رہا
دل ضبط و اعتبار میں خستہ نہیں رہا
کیا خُوب ، رہ سکوںگا نہ تیرے بغیر پل
افسوس جس پہ سچ کا بھی خدشہ نہیں رہا
باتوں سے تیری ذہن ہمارا بنائے پھر
ایسا اب ایک بھی کوئی نقشہ نہیں رہا
افسوس یوں نہیں ہمیں مال ومتاع کا
سوچیں ہماری جان کا صدقہ نہیں...
شفیق خلش
لچھّی نہیں پہ !
ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں میرے دئے ہوئے
کرتی تھی یاد سات وہ پھیرے لئے ہوئے
کیوں چوڑیاں نہیں پہ ہمیشہ یہی کہا !
پہنوں گی اپنی ہاتھوں میں تیرے دئے ہوئے
دل روز روز ملنے پہ ڈرتا بہت تھا تب
کیا کیا نہ خوف رہتے تھے گھیرے لئے ہوئے
شاخیں فسردہ یوں کہ پرندے تھے جو یہاں...
غزلِ
شفیق خلش
آئیں اگر وہ یاد تو مرتے نہیں ہیں ہم
حالت خراب دل کی، گو کرتے کہیں ہیں کم
دل خُون ہے اگرچہ شب و روز ہجر میں
آنکھوں کو اپنی، شرم سے کرتے نہیں ہیں نم
ایسا جلادیا ہمیں فُرقت کی دُھوپ نے
کوشش رہے ہزار نِکھرتے کہیں ہیں ہم
اک پل نہ ہوں گوارہ کسی طور یوں ہمیں
دل پر سوار ہو کے...
غزلِ
شفیق خلش
پھر خیالِ دلِ بیتاب ہی لایا ہوگا
کون آتا ہے یہاں کوئی نہ آیا ہوگا
خوش خیالی ہی مِری کھینچ کے لائی ہوگی
در حقیقت تو مِرے در وہ نہ آیا ہوگا
کیا کہیں ہجرکے ایّامِ عقوبت کا تمہیں
کیا ستم دیکھ کے تنہا نہیں ڈھایا ہوگا
ممکنہ راہوں پہ ہم حسرتِ دید اُن کی لئے
عمر بھر بیٹھے، بس اک روز...
غزلِ
شفق خلش
نظر سے میری جو پردے ہٹا دِئے رب نے
تماشے سب کے ہوں جیسے لگا دِئے رب نے
دِکھا کے آج سرِ راہ اُن کو پھر سے ہمیں
تمام لوگ نظر سے ہٹا دِئے رب نے
خیالِ یار سے راحت ہے زندگی میں مُدام
نشاط و کیف سب اِس میں بسا دِئے رب نے
حَسِین ایک نظارہ نہیں جُدا اُن سے
سب اُن کی دِید میں جلوے...
غزلِ
شفیق خلش
راہوں میں تِری بیٹھنے والا نہ مِلے گا
ہم جیسا تجھے سوچنے والا نہ مِلے گا
گو دیکھنے والوں کی کمی تو نہیں ہوگی
پر میری طرح دیکھنے والا نہ مِلے گا
شاید کئی بن جائیں تِرے چاہنے والے
مجھ جیسا مگر پُوجنے والا نہ مِلے گا
مِل جائیں گے دُنیا میں حَسِیں یوں تو ہزاروں
دل ایسا کوئی...
غزلِ
شفیق خلش
نہیں ہو پاس بھی ہو پاس تم مگر میرے
وہ اور بات تھی ہوتے جو تم اگر میرے
جو چھوڑ آئے تھے جاناں تمھارے جانے پر
وہ یاد آتے ہیں اب بھی تو بام و در میرے
نہیں ہوں جن کی مسافت میں کچُھ مِلن کے گمُاں
سُکون دیتے ہیں مجھ کو وہی سفر میرے
وہاں رہا نہ کوئی، اور یہاں کُھلا نہ کوئی
نہیں...
غزلِ
شفیق خلش
خُلوصِ دِل سے جو الُفت کِسی سے کرتے ہیں
کہاں وفا کی وہ دُشوارِیوں سے ڈرتے ہیں
ہر اِک سے، سر نہیں ہوتی ہے منزلِ مقصُود
بہت سے، راہِ طلب میں تڑپ کے مرتے ہیں
ڈریں ہم آگ کے دریا کے کیوں تلاطُم سے
نہیں وہ ہم ، جو نہیں ڈوب کر اُبھرتے ہیں
جنہیں نہ عشق میں حاصل ہو وصل کی راحت
وہ...
غزلِ
شفیق خلش
زیست مُشکل ہے بہت غم کی مِلاوٹ کے بغیر
آ ہی جاتے ہیں کسی طور یہ آ ہٹ کے بغیر
شب رہیں جن سے شبِ وصل، لگاوٹ کے بغیر
چہرے دیکھیں ہیں کبھی اُن کے سجاوٹ کے بغیر
بے بسی رات کی چہروں سے جھلکتی ہے صبح
دن کے آلام اٹھاتے ہیں تراوٹ کے بغیر
رُوح تک جسم کے دردوں کی کسک جاتی ہے
کام...
غزل
شفیق خلش
موسمِ گُل مِرا، خوشیوں کا زمانہ وہ تھا
ہنس کے جینے کا اگر تھا تو بہانہ وہ تھا
اک عجب دَورجوانی کا کبھی یوں بھی رہا !
میں کہانی جو زبانوں پہ فسانہ وہ تھا
اپنا کر لایا، ہراِک غم میں کہ جس پر تھوڑا
یہ گُماں تک بھی ہُوا، اُس کا نشانہ وہ تھا
دل، عقیدت سے رہا اُس کی گلی میں، کہ...
غزلِ
شفیق خلش
نہ پُوچھو ہم سے کہ وہ خُرد سال کیا شے ہے
کمر کے سامنے جس کی ہِلال کیا شے ہے
حَسِین چیزکوئی کیا، جمال کیا شے ہے
خدا نے اُس کو بنایا کمال، کیا شے ہے
بنایا وہ یَدِ قُدرت نے خاک سے پُتلا
خجِل ہوں حُورمقابل غزال کیا شے ہے
تمہارے حُسن سے، شاید مِرے تصور کو
کبھی خبر ہی نہیں ہو...
غزلِ
شفیق خلش
جب جب کِئے سِتم، تو رعایت کبھی نہ کی
کیسے کہیں کہ اُس نے نہایت کبھی نہ کی
کیا ہو گِلہ سِتم میں رعایت کبھی نہ کی
سچ پُوچھیےتو ہم نے شکایت کبھی نہ کی
چاہت ہمارے خُوں میں سدا موجْزن رہی
صد شُکر نفرتوں نے سرایت کبھی نہ کی
شاید ہمارے صبْر سے وہ ہار مان لیں
یہ سوچ کر ہی...