اس ایپ کے ذریعے آپ ریختہ پر موجود کسی بھی شاعر/مصنف کی تمام کاوشیں فقط کچھ سیکنڈز کے اندر ایک ٹیکسٹ فائل میں ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔
اسکریپنگ کا سارا کام نوڈ میں ہوتا ہے، چنانچہ رفتار دیدنی ہے۔
کرنا آپ کو یہ ہے کہ تمام لنکس کو اوپر کے خانے میں ڈالیں، نیچے فائل کا نام لکھیں،بتائیں کہ یہ لنکس نثر کی...
لسٹ LIST
لسٹ (List) ایک ایسی ڈیٹا ساخت (Data Structure) ہے جس میں اشیا یا اراکین کے مجموعہ کو ترتیب سے رکھا جاتا ہے یعنی یہ ایک مرتب مجموعہ ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے آپ نے شاپنگ کی ایک لسٹ بنائی ہو اور اس میں ترتیب سے اشیا کے نام لکھے ہوں۔ پائتھون میں لسٹ کے اراکین (elements)کو کومہ کی مدد سے...
نام کتاب : غزلیات اقبال - الف بائی ترتیب سے
شاعر: علامہ محمد اقبال
مرتب : شکیب احمد
کل صفحات : ١٨٢
فارمیٹ : پی ڈی ایف
بطور تعارف "عرضِ مرتب" سے کچھ حصہ
اقبالؔ نے غزل کو زلف و رخسار کی قید سے نکال کر ایک نئی جہت بخشی اور دینِ محمدیﷺ کے پیغام کو پہنچانے کا واسطہ بنایا۔ بقول مولانا عبد الماجد...
ghazals of iqbal
iqbal ghazal collection
iqbal ghazals
iqbal ghazals arranged in alphabetical order
shakeeb ahmad
اقبال کی غزلیں
شکیبشکیب احمد
غزلیات اقبال
غزلیاتِ اقبال
دھوپ کہیں ہے، چھاؤں کہیں ہے
کوئی بھی لذت عام نہیں ہے
یوں بیٹھے ہیں تھکے مسافر
جیسے منزل یہیں کہیں ہے
گردشِ دوراں ، توبہ! توبہ!
ہم کو خدا بھی یاد نہیں ہے
جس کو چاہا ، حسن میں ڈھالا
تجھ سے میری آنکھ حسیں ہے
اُن کی کوئی بات سناؤ
جن کا مجھ سے میل نہیں ہے
دوست ہیں دل میں، ذہن میں دشمن
کوئی بھی...
زباں کاٹ دے اور ہونٹوں کو سی لے
بغیرِ شکایت مصائب میں جی لے
حوادث کی زد میں بڑے جا رہے ہیں
مری آرزوؤں کے نازک قبیلے
وہ ساتھی جسے غم سے نسبت نہیں ہے
الم کو کریدے نہ زخموں کو چھیلے
غرور و محبت میں تفریق دیکھو
یہ سونے کی وادی یہ مٹی کے ٹیلے
ہمیں دل کی ہر بات سچ سچ بتا دو
بناؤ نہ باتیں ،...
رازِ دل پابندیوں میں بھی بیاں ہو جائے گا
میرا ہر فقرہ مکمّل داستاں ہو جائے گا
دھیرے دھیرے اجنبیت ختم ہو ہی جائے گی
رہتے رہتے یہ قفس بھی آشیاں ہو جائے گا
ہم نے حاصل کرنے چاہا تھا خلوصِ جاوداں
کیا خبر تھی کوئی ہم سے بدگماں ہو جائے گا
فطرتِ انساں میں ہونا چاہئے ذوقِ عمل
خاک کے ذرّے سے پیدا...
میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں
سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
صحرا کی بود و باش ہے اچھی نہ کیوں لگے
سوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں
چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے
مصروف ہوں ابھی عمل انعکاس میں
دھوکے...
خوابِ گل رنگ کے انجام پہ رونا آیا
آمدِ صبح شب اندام پہ رونا آیا
دل کا مفہوم اشاروں سے اجاگر نہ ہوا
بے کسئِ گلۂ خام پہ رونا آیا
کبھی الفت سی جھلکتی ہے کبھی نفرت سی
اے تعلق ترے ابہام پہ رونا آیا
مری خوشیاں کبھی جس نام سے وابستہ تھیں
جانے کیوں آج اسی نام پہ رونا آیا...
دلوں میں درد سا اٹھا، لیا جو نامِ حسینؓ
مثالِ برق ترپنے لگے غلامِ حسینؓ
لبِ فرات جو پیاسے رہے امامِ حسینؓ
خدا نے بھر دیا آبِ بقا سے جامِ حسینؓ
رضا و صبر میں ان کا جواب کیا ہوگا
کہ جب بھی تیر لگا، ہنس دیے امامِ حسینؓ
غرور تیرگیِ شب کو توڑنے کے لیے
تمام رات دہکتے رہے خیامِ حسینؓ
فنا کا...
اُن کی سنجیدہ ملاقات سے دُکھ پہنچا ہے
اجنبی طرز کے حالات سے دُکھ پہنچا ہے
اُس کو مذکور کہیں شکوہ محسن میں نہیں
میری خودار روایات سے دُکھ پہنچا ہے
دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص
ایک انساں کو تری ذات سے دُکھ پہنچا ہے
احتراماً مرے ہونٹوں پہ مسلط تھا سکوت
اُن کے بڑھتے ہوئے شبہات سے دُکھ...
عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں
پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں
سر پٹک کر درِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا
ہے دریچہ، نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں
عہدو پیمانِ وفا، پیار کے نازک بندھن
توڑ دیتی ہے زرو سیم کی جھنکار یہاں
ننگ و ناموس کے بکتے ہُوئے انمول رتن
لب و رُخسار کے سجتے ہُوئے بازار یہاں
سر خئی...
یہ جو دِیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
اِن میں کچُھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
دُور تک کوئی سِتارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگِ اُمّید کے آثار نظر آتے ہیں
میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پُھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کل...
شکیب کی ایک غزل ساغر صدیقی کی زمین میں
ساغرِ چشم سے سرشار نظر آتے ہیں
بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں
کُلفتیں آج بھی قائم ہیں قَفَس کی شاید
گُلستاں حاملِ افکار نظر آتے ہیں
جن پہ بےلوث محبت بھی بجا ناز کرے
ایسے نایاب ہی کردار نظر آتے ہیں
خود ہی آتی ہے مسرّت انہیں مژدہ دینے
جو ہو اک غم کے...
بے خودی سی ہے بے خودی توبہ
سر بہ سجدہ ہے آگہی توبہ
ذہن و دل پہ ہے بارشِ انوار
پی ہے مے یا کہ چاندنی توبہ
دکھ کا احساس ہے نہ فکرِ نشاط
پینے والوں کی آگہی توبہ
ان کا غم ہے بہت عزیز مجھے
چھوڑی تھی میں نے مے کشی توبہ
اک جہاں بن گیا مرا دشمن
آپ کا لطفِ ظاہری توبہ
ہے تمہی سے شکستِ...
غم کی تصویر بن گیا ہوں میں
ان کی توقیر بن گیا ہوں میں
خوابِ پنہاں تھے آپ کے جلوے
جن کی تعبیر بن گیا ہوں میں
آج ہستی ہے کیوں تبسم ریز
کس کی تقدیر بن گیا ہوں میں
آپ چُھپ چُھپ کے مسکراتے ہیں
وجہِ تشہیر بن گیا ہوں میں
جو بھی ہے ہم خیال ہے میرا
حسنِ تحریر بن گیا ہوں میں
اب دعاؤں کو ہے مری حاجت...
زعمِ وفا بھی ہے ہمیں عشقِ بُتاں کے ساتھ
اُبھریں گے کیا ڈوبے ہیں سنگِ گراں کے ساتھ
تنہائیوں کے کیف سے نا آشنا نہیں
وابستگی ضرور ہے بزمِ جہاں کے ساتھ
اے چشم تر سفینہِ دل کی تھی کیا بساط
ساحل نشیں بھی بہہ گئےسیلِ رواں کے ساتھ
ان ساعتوں کی یاد سے مہکا ہوا ہے دل
گزری تھیں جو کسی نگہِ گُل فشاں کے...
وہ دیکھ لیں تو نظاروں میں آگ لگ جائے
خدا گواہ بہاروں میں آگ لگ جائے
جو لُطفِ شواشِ طوفاں تمہیں اٹھانا ہے
دعا کرو کہ کناروں میں آگ لگ جائے
نگاہِ لطف و کرم دل پہ اس طرح ڈالو
بُجھے بُجھے سے شراروں میں آگ لگ جائے
نظر اٹھا کے جُنوں دیکھ لے اگر اک بار
تجلیات کی دھاروں میں آگ لگ جائے
بہار ساز ہے...
السلام علیکم۔
صاحبو! کچھ عرصے سے ہند و پاک کی گرما گرمی کی وجہ سے ہم سوچ رہے تھے کہ تعلقات استوار کرنے میں کچھ اپنا حصہ بھی ڈالا جائے۔ ہمارے یہاں حالت تو کچھ یوں ہے کہ پاکستان کا نام بھی لیجیے تو لوگ پلٹ پلٹ کر دیکھنے لگتے ہیں۔
ان سیاسی خیالات کے ساتھ ایک بات اور یاد آئی۔ کچھ مہینوں پہلے کسی...
شکیب جلالی
غزل
کیا کہیے کہ اب اُس کی صدا تک نہیں آتی
اُونچی ہوں فصِیلیں، تو ہَوا تک نہیں آتی
شاید ہی کوئی آسکے اِس موڑ سے آگے !
اِس موڑ سے آگے تو قضا تک نہیں آتی
وہ گُل نہ رہے نِکہتِ گُل خاک مِلے گی !
یہ سوچ کے، گلشن میں صبا تک نہیں آتی
اِس شورِ تلاطُم میں کوئی کِس کو پُکارے ؟
کانوں میں یہاں،...