غزلِ
شفیق خلش
نہ مثلِ دشت، نہ مُمکن کسی سماں کی طرح
نجانے گھر کی یہ حالت ہُوئی کہاں کی طرح
کریں وہ ذکر ہمارا تو داستاں کی طرح
بتائیں سنگِ در اپنا اِک آستاں کی طرح
کسی کی بات کی پروا، نہ اِلتجا کا اثر
فقیہہ شہر بھی بالکل ہے آسماں کی طرح
وفورِ شوق وہ پہلا، نہ حوصلہ دِل کا !
ورُود غم...
غزل
شفیق خلش
اُن کی ہم لعْن کبھی طَعْن سے ہی پھرتے تھے
ہم کب آواز سُنے بِن بھی، کبھی پھرتے تھے
لے مُصیبت وہ محبّت میں کڑی پھرتے تھے
صبح نِکلے پہ اندھیرے کی گھڑی پھرتے تھے
اب اُسی شہر کے ہرگھر کو میں زِنداں دیکھوں !
جس کے کوچوں میں غم آزاد کبھی پھرتے تھے
دیکھ کر جن پہ غزالوں کو بھی...
غزلِ
شفیق خلش
وہی دِن ، جو گزُرے کمال کے، ہُوئے وجہ ڈھیروں سوال کے
کہ بنے ہیں کیسے وہ سب کے سب مِری پستیوں کے، زوال کے
یُوں اُبھر رہے ہیں نقوش سب، لِئے رنگ تیرے خیال کے
نظرآئیں جس سے کہ دِلکشی، سبھی حُسن، سارے جمال کے
گو یہ دن ہیں فُرق و ملال کے، مگررکھیں خود میں سنبھال کے
وہ بھی یاد جس...
شفیق خلش
راتوں کو صُبْح جاگ کے کرنا کہاں گیا
آہیں وطن کی یاد میں بھرنا کہاں گیا
اُجڑے چمن میں اب بھی تمنّا بہار کی
جو حسرتوں میں تھا کبھی مرنا کہاں گیا
بھیجا ہے میری بُھوک نے مجھ کو وطن سے دُور
مرضی سے اپنی میں کبھی ورنہ کہاں گیا
سب یہ سمجھ رہے ہیں یہاں میں خوشی سے ہُوں
خوشیوں میں غم...
بغداد
دُکھ ہیں کہ موجزن ہیں دلِ داغدار میں
مصرُوف پھر بھی ہیں ہَمہ تن روزگار میں
یہ آگ کی تپش، یہ دُھواں اور سیلِ خُوں
گولے برس رہے دمادم دیار میں
بغداد جل رہا ہے مگر سو رہے ہیں ہم
آتے ہیں نام ذہن میں کیا کیا شُمار میں
ہر پُھول سرخ ہے سرِ شاخِ شجر یہاں
ٹُوٹا ہے ایک حشر ہی اب کے بہار میں...
غزلِ
شفیق خلش
" ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے "
ٹھہرنا پل کو کہاں اختیارِ راہ میں ہے
نہیں ہے لُطف کا جس سے شُمار راہ میں ہے
دِیا ہے خود پہ جسے اختیار راہ میں ہے
کہاں کا وہم! یقیں ہے مجھے اجل کی طرح
وہ میں نے جس پہ کِیا اعتبار راہ میں ہے
زیاں مزِید نہ ہو وقت کا اے چارہ گرو !
جسے ہے دِل...
غزلِ
شفیق خلش
مِری ہی زندگی لے کر بُھلا دِیا مجھ کو
یہ کیسے پیار کا تم نے صِلہ دِیا مجھ کو
لِیا ہے دِل ہی فقط، حافظہ بھی لے لیتے
تمھاری یاد نے پھر سے رُلا دِیا مجھ کو
نہ کوئی شوق، نہ ارمان کوئی سینے میں
یہ غم کی آگ نے، کیسا بُجھا دِیا مجھ کو
بہار نو میں نئے غم کی آمد آمد ہے
تمھارے...
غزلِ
شفیق خلِش
جب گیا شوقِ نظارہ تِری زیبائی کا
کوئی مصرف ہی نہیں اب مِری بینائی کا
دِل سے جب مِٹ ہی گیا تیرا تصوّر جاناں
کچھ گِلہ بھی نہیں باقی رہا تنہائی کا
کی زباں بند، تو رکھّا ہے نظر پر پہرا !
دِل کو احساس ہے ہر دم تِری رُسوائی کا
ساتھ ہے یاس بھی لمحوں میں تِری قُربت کے
کُچھ عجب...
غزلِ
شفیق خلِش
گردشِ وقت میں کُچھ بھی نہ عجب بات ہُوئی
پو پَھٹے پر جو نہیں دُور مِری رات ہُوئی
طبْع پَل کو نہیں مائل بہ خرافات ہُوئی
گو کہ دِلچسپ اِسے کب نہ نئی بات ہُوئی
پاس رہتے ہُوئے یُوں ترکِ مُلاقات ہُوئی
ایک مُدّت سے کہاں ہم سے کوئی بات ہُوئی
سب ہی پُوچھیں کہ، بسرخوش تو تِرے سات...
غزلِ
شفیق خلش
جوشِ طلب میں حد سے گُزر جائیں کیا کریں
آتا نہیں وہ، ہم ہی اُدھر جائیں کیا کریں
مِلنے کی آس میں ہیں سمیٹےہُوئے وجُود
ایسا نہ ہو کہ ہم ہی بکھر جائیں کیا کریں
ہر سمت ہر گھڑی وہی یادوں کے سلسلے
الله! ہم سے سے لوگ کدھر جائیں کیا کریں
اور ایک رات اُس کی گلی میں گُزار دی
اب کون...
غزلِ
شفیق خلش
تِنکوں کا ڈُوبتوں کو سہارا بتائیں کیا
پیشِ نظر وہ روز نظارہ بتائیں کیا
جی کیوں اُٹھا ہے ہم سے کسی کا بتائیں کیا
پُوچھو نہ بار بار خُدارا بتائیں کیا
تڑپا کے رکھ دِیا ہمَیں دِیدار کے لئے
کیوں کر لِیا کسی نے کِنارا بتائیں کیا
روئے بہت ہیں باغ کے جُھولوں کو دیکھ کر
یاد آیا...
غزل
شفیق خلش
جُدا جو یاد سے اپنی مجھے ذرا نہ کرے
ملوُل میری طرح ہو کبھی خُدا نہ کرے
ہم اُن کے حُسن کے کب معترف نہیں، لیکن
غرُور، یُوں بھی کسی کو کبھی خُدا نہ کرے
تب اُن کی یاد سے دِل خُون چاند کر ڈالے
کبھی جو کام یہ مہکی ہُوئی ہَوا نہ کرے
لگایا یُوں غمِ فُرقت نے ہاتھ سینے سے
کوئی خیال...
مُلکِ خُدا داد
کب پَس و پیش ہے کرنے میں ہمیں کام خراب
دِل ہمارا نہ ہو مائل کہ ہو کچھ کارِ صواب
مال و زر ایک طرف، جان بھی لے لیتے ہیں
ڈر کہاں ہم میں، کہ دینا ہے خُدا کو تو جواب
خاک، منزل ہو معیّن بھی وہاں خیرکی جا !
قتل کرنے کی ڈگر ٹھہری جہاں راہِ ثواب
نفرتیں روز جہاں بُغض و عقائد سے...
شفیق خلش
پیار
ہمارا پیار نہ دِل سے کبھی بُھلا دینا
ہمیشہ جینے کا تم اِس سے حوصلہ دینا
بھٹک پڑوں یا کبھی راستہ نظر میں نہ ہو !
ستارہ بن کے مجھے راستہ دِکھا دینا
دیے تمام ہی یادوں کے ضُوفشاں کرکے
ہو تیرگی کبھی راہوں پہ تو مِٹا دینا
تم اپنے پیار کے روشن خوشی کے لمحوں سے
غموں سے بُجھتے...
یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کرجائیں!
شفیق خلش
یا خُدا کچھ آج ایسا رحم مجھ پہ کر جائیں
اپنے اِک تبسّم سے زخْم میرے بھرجائیں
ہو کوئی کرشمہ اب، جس کی مہربانی سے
ساتھ اپنے وہ ہولیں، یا ہم اُن کے گھرجائیں
دُور ہو سیاہی بھی وقت کی یہ لائی سی
اپنی خوش نوائی سے روشنی جو کرجائیں
روشنی مُدام...
غزلِ
شفیق خلش
دِل میں ہجرت کے نہیں آج تو کل ہوں گے خلش
زخم ہوں گے کبھی لمحے، کئی پَل ہوں گے خلش
بے اثر تیرے کِیے سارے عمل، ہوں گے خلش
جو نہیں آج، یہ اندیشہ ہے کل ہوں گے خلش
زندگی بھر کے لئے روگ سا بن جائیں گے!
گرنہ فوراّ ہی خوش اسلوبی سے حل ہوں گے خلش
کارگر اُن پہ عملِ راست بھی ہوگا...
غزلِ
شفیق خلش
مِری حیات پہ حق تجھ کو ہے صنم کِتنا
ہے دسترس میں خوشی کتنی اور الم کِتنا
دُھواں دُھواں سا مِرے جسم میں ہے دَم کِتنا
کروں گا پیرَہن اشکوں سے اپنے نم کِتنا
کبھی تو رحم بھی آئے مچلتے ارماں پر !
خیال و خواب میں رکھّوں تجھے صنم کِتنا
گلو خلاصی مِری ہو بھی پائے گی، کہ نہیں
رہے گا...
غزلِ
شفیق خلش
مجھ سے کیوں بدگُمان ہے پیارے
تجھ پہ صدقے یہ جان ہے پیارے
ہلکی لرزِش سے ٹُوٹ جاتا ہے
دِل وہ کچّا مکان ہے پیارے
میں ہی کیوں موردِ نِشانہ یہاں
مہرباں آسمان ہے پیارے
کب اِشارہ ہو سب اُلٹنے کا
مُنتظر پاسبان ہے پیارے
کیوں نہ جمہوریت یہاں پَھلتی
اِک عجب داستان ہے پیارے
چور...
غزلِ
شفیق خلش
اِس دِل کا خوُب رُوؤں پہ آنا نہیں گیا
یہ شوق اب بھی جی سے پُرانا نہیں گیا
میں دیکھتا ہُوں اب بھی گُلوں کو چمن میں روز
پُھولوں سے اپنے جی کو لُبھانا نہیں گیا
اب بھی طلَب ہے میری نِگاہوں کو حُسن کی
جینے کو زندگی سے بہانہ نہیں گیا
کیا کیا نہ کُچھ گزرتا گیا زندگی کے ساتھ
اِک...
غزل
شفیق خلش
جان ودِل ہجرمیں کُچھ کم نہیں بےجان رہے
لڑ کر اِک دردِ مُسلسل سے پریشان رہے
سوچ کر اور طبیعت میں یہ ہیجان رہے !
کیوں یُوں درپیش طلاطُم رہے، طوُفان رہے
بُت کی چاہت میں اگر ہم نہ مُسلمان رہے
رب سے بخشش کی بھی کیا کُچھ نہیں امکان رہے
مگراب دل میں کہاں میرے وہ ارمان رہے
ضُعف سے...