شکیل بدایونی

  1. پ

    شکیل بدایونی غزل-ہر گوشہء نظر میں سمائے ہوئے ہو تم-شکیل بدایونی

    غزل ہر گوشہء نظر میں سمائے ہوئے ہو تم جیسے کہ میرے سامنے آئے ہوئے ہو تم میری نگاہِ شوق پہ چھائے ہوئے ہو تم جلووں کو خود حجاب بنائے ہوئے ہو تم کیوں اک طرف نگاہ جمائے ہوئے ہو تم کیا راز ہے جو مجھ سے چھپائے ہوئے ہو تم دل نے تمہارے حسن کو بخشی ہیں رفعتیں دل کو مگر نظر سے گرائے ہوئے...
  2. پ

    شکیل بدایونی غزل-دھندلی دھندلی فضا نہ صبح نہ شام -شکیل بدایونی

    ٴغزل دھندلی دھندلی فضا نہ صبح نہ شام ہائے کم بخت زندگی کا نظام دیدہ و دل ہیں خوگرِ آلام تیرے قربان ساقیا اک جام حسن کی چشمِ اولیں کی قسم عشق نے پا لیا خود اپنا مقام قفسِ مرگِ بے اماں کی قسم زندگی ہے فریبِ دانہ و دام آپ نے کس نظر سے دیکھا تھا دل ابھی تک ہے موردِ الزام شکیل...
  3. فرخ منظور

    رفیع ٹکرا گیا تم سے دل ہی تو ہے ۔ محمد رفیع

    ٹکرا گیا تم سے دل ہی تو ہے ۔ محمد رفیع موسیقی: نوشاد نغمہ نگار: شکیل بدایونی فلم: آن
  4. فرخ منظور

    لتا جو میں جانتی بسرت ہیں سیّاں ۔ لتا منگیشکر

    جو میں جانتی بسرت ہیں سیّاں، گھونگٹا میں آگ لگا دیتی (اگر میں جانتی کہ میرا محبوب مجھے بھلا دے گا تو میں اپنے گھونگٹ کو جلا دیتی) گلوکارہ: لتا منگیشکر موسیقی: نوشاد نغمہ نگار: شکیل بدایونی فلم: شباب 1954
  5. فاروقی

    مرے ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

    مرے ہم نفس، مرے ہم نوا، مجھے دوست بن کے دغا نہ دے میں ہوں دردِ عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دُعا نہ دے میں غمِ جہاں سے نڈھال ہوں کہ سراپا حزن و ملال ہوں جو لکھے ہیں میرے نصیب میں وہ الم کسی کو خُدا نہ دے نہ یہ زندگی مری زندگی، نہ یہ داستاں مری داستاں میں خیال و وہم سے دور ہوں، مجھے آج...
  6. فرخ منظور

    شکیل بدایونی رہبر کی نہ فکر ہے نہ فکر منزل کی - شکیل بدایونی

    رہبر کی نہ فکر ہے نہ فکر منزل کی کر رہا ہوں میں پیروی دل کی کھوگیا جستجوئے شوق میں جب مل گئی مجھ کو راہ منزل کی آہ نہ آئے ، نہ ان کو آنا تھا آرزو دل میں رہ گئی دل کی پھر طلاطم میں لے گئیں موجیں مجھ کو صورت دکھا کے ساحل کی ترکِ الفت کی کوششیں ہیں فضول کیا بجھے لگی ہوئی دل...
  7. فرخ منظور

    شکیل بدایونی ہو تو کمالِ ربطِ محبّت کسی کے ساتھ - شکیل بدایونی

    ہو تو کمالِ ربطِ محبّت کسی کے ساتھ دل چیز کیا ہے جان بھی دے دوں خوشی کے ساتھ ہمدردیاں ہیں عمر کو تنہا روی کے ساتھ طے کر رہا ہوں راہِ وفا زندگی کے ساتھ ہے ہر قدم پہ فتنہ در آغوشِ کائنات ممکن نہیں گزر یہاں آشتی کے ساتھ حاصل ہے اختیار جسے مرگ و زیست پر جی چاہتا ہے عمر گزاروں اُسی کے...
Top