عذاب ٹھہرا ہمیں اپنا آئینہ ہونا
کہ لمحہ لمحہ تنفر سے سابقہ ہونا
ملے ہیں ہم کو امر بیل کی طرح احباب
شجر کا ہوکے شجر سے مگر جدا ہونا
اٹھائے پھرنا اجالے میں جھوٹ کا پرچم
اندھیرا ہوتے ہی پھر سچ سے آشنا ہونا
خیال رکھنا ہمیشہ مزاج کا اس کے
اور اپنے آپ سے ہر دم خفا خفا ہونا
نجات دیتا تھا مجھ کو...
جو ان آنکھوں سے نکلا تھا
وہ دریا بے حد گہرا تھا
کب رکتا تھا یہ روکے سے
پیار کا اپنا زور بڑا تھا
پائی ہے تعبیر عدو نے
خواب مگر میں نے دیکھا تھا
مردہ دل سمجھیں گے کیسے
میں تیرے دم سے زندہ تھا
دنیا بھر کے غم کو میں نے
اپنے دل میں پال لیا تھا
اندھیارا میری قسمت میں
پیر جما کر بیٹھ گیا تھا
جوبن...
مجھے محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب کا یہ شعر بہت اچھا لگتا ہے:
آج میرے ایک واقف کار نے مجھ سے کہا
نام تیرا بن نہ جائے جنگ کا اعلان کل
ان کی اسی غزل کا مقطع بھی بہت شاندار ہے:
آس کا دامن نہ چھوڑو یار آسی ، دیکھنا
مشکلیں جو آج ہیں ہوجائیں گی آسان کل
مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی یہ غزل ۱۹۸۵ء کی...
آج فراغت پاتے ہی، ماضی کا دفتر کھولا ہے
تنہائی میں بیٹھ کر، اپنا ایک ایک زخم ٹٹولا ہے
چھان چکا ہوں جسم اور روح پر آئی خراشوں کو
الٹ پلٹ کر دیکھ لیا ہے ارمانوں کی لاشوں کو
کمرے میں اسے کہیں رکھا تھا، یا دل میں کہیں دفنایا تھا
جانے وہ انمول خزانہ میں نے کہاں چھپایا تھا
ساری عمر کا حاصل تھی، یہ...