صوفی تبسّم

  1. فرخ منظور

    تبسم مجھ کو کبھی کبھی سوئے اغیار دیکھنا ۔ صوفی تبسم

    مجھ کو کبھی کبھی سوئے اغیار دیکھنا اس شوخ کی نگاہِ طلب گار دیکھنا چشمِ نظارہ بیں میں ہے یہ کیا رہِ کشود جب دیکھنا وہی در و دیوار دیکھنا دہرائے گا وہ اپنی کوئی داستانِ غم وہ آ رہا ہے پھر مرا غم خوار دیکھنا ہر اِک قدم پہ شوق کی منزل ہے ساتھ ساتھ اس راہرو کی گرمیِ رفتار دیکھنا دیدارِ بزمِ یار،...
  2. فرخ منظور

    تبسم ورڈز ورتھ کی ایک سانیٹ کا ترجمہ ۔ صوفی تبسم

    ورڈز ورتھ کی ایک سانیٹ کا ترجمہ از صوفی تبسم حسن میں ڈوبی ہوئی یہ شامِ آزاد و خموش اور یہ درماندہ سورج، یہ غروبِ بے صدا یوں فضاوں میں مقدّس وقت ہے ٹھٹکا ہوا جیسے کوئی رہبرِ محوِ دعائے بے خروش لے رہا ہے چرخ، سطحِ آب پر انگڑائیاں جاگتا ہے چرخ پر یزدانِ توانا و غنی سرمدی حرکت میں ہے اس طرح محوِ سر...
  3. فرخ منظور

    قطعات ۔ صوفی تبسم

    پوچھتا کیا ہے ہم نشیں مجھ سے کس لیے ضبطِ آہ کرتا ہوں کہہ تو دوں تجھ سے حالِ دل اپنا تیری غم خواریوں سے ڈرتا ہوں
  4. فرخ منظور

    تبسم ایک نظر ۔ صوفی تبسم

    ایک نظر ایک بار اور ذرا دیکھ اِدھر اپنے جلووں کو بکھر جانے دے روح میں میری اتر جانے دے مسکراتی ہوئی نظروں کا فسوں یہ حسیں لب، یہ درخشندہ جبیں ابھی بے باک نہیں اور آنے دے انہیں میری نگاہوں کے قریں ڈال پھر میری جواں خیز تمنّاؤں پر بے محابا سی نظر ایک بار اور ذرا دیکھ اِدھر ہاں وہی ایک نظر غیر...
  5. فرخ منظور

    تبسم رات ابھری تری زلفوں کی درازی کیا کیا ۔ لاہوتی کی غزل کا ترجمہ از صوفی تبسم

    رات ابھری تری زلفوں کی درازی کیا کیا خواجۂ حسن نے کی بندہ نوازی کیا کیا کبھی زنجیر، کبھی مار، کبھی پھول بنی زلفِ خم دار میں تھی شعبدہ بازی کیا کیا خالِ رخسار سے میں زلفِ رسا تک پہنچا دلِ بدمست نے کی دست درازی کیا کیا ہنس دیا میں رہِ الفت کی بلا خیزی پر عقلِ عیّار نے کی فلسفہ سازی کیا کیا...
  6. فرخ منظور

    تبسم ایک زرتشتی لڑکی سے ۔ صوفی تبسم

    ایک زرتشتی لڑکی سے کیا عجب باہمی رقابت ہے کیا عجب شانِ دوست داری ہے میں بھی اِک آگ کا پجاری ہوں تُو بھی اِک آگ کی پجاری ہے ہے مگر تیری آگ چند شرر اور مری آگ آتشیں پیکر تُو تو ہے روشنی کی شیدائی اور پروانہ حُسن کا ہوں میں تُو فقط دیکھتی ہے شعلوں کو اور شعلوں میں جل رہا ہوں میں (صوفی تبسم)
  7. فرخ منظور

    تبسم خدا جانے دلوں کے درمیاں یہ کیسا پردا ہے ۔ صوفی تبسم

    خدا جانے دلوں کے درمیاں یہ کیسا پردا ہے کہ جو بھی آشنا ہے ایک بیگانہ سا لگتا ہے یہ میرے شوق کی ہے ابتدا یا انتہا کیا ہے کہ جو بھی بات لب پر آ گئی حرفِ تمنّا ہے نظر کی بات ہے ورنہ حجابوں میں رکھا کیا ہے تمھارے منہ چھپانے پر بھی کیا کیا ہم نے دیکھا ہے وفورِ ذوقِ نغمہ سے ملی منقار بلبل کو مرا...
  8. فرخ منظور

    تبسم طلسمِ جلوہ! نہ سحرِ نظر! نہ لطفِ خرام! ۔ صوفی تبسم

    طلسمِ جلوہ! نہ سحرِ نظر! نہ لطفِ خرام! فسونِ حُسن سے آگے ہے دلبری کا مقام ازل سے ڈھونڈ رہی ہے نگاہ انساں کی وہ ایک دن کہ نہیں جس میں کوئی صبح و شام نگاہِ شوق جہاں پڑ گئی وہی آغاز نگاہِ حسن جہاں مل گئی وہی انجام تری نظر سے ہے ساقی حلال بادۂ ناب ہے بے رخی سے تری آبِ زندگی بھی حرام کبھی وہ شام...
  9. فرخ منظور

    تبسم کاروان حُسن کے کیا کیا نہ نظر سے گزرے ۔ صوفی تبسمن

    کارواں، حُسن کے کیا کیا نہ نظر سے گزرے کاش وہ بھی کبھی اس راہ گزر سے گزرے کوئی صورت نظر آئی نہیں آبادی کی ہم تو ان اجڑے ہوئے شام و سحر سے گزرے سفرِ عشق میں کھلتی ہیں ہزاروں راہیں دل مسافر ہے خدا جانے کدھر سے گزرے پھر بھی کیوں خشک ہیں دامن میرے غم خواروں کے کتنے طوفان مرے دیدۂ تر سے گزرے یوں...
  10. فرخ منظور

    تبسم تُو نہیں حسنِ چارہ ساز تو ہے ۔ صوفی تبسم

    تُو نہیں حسنِ چارہ ساز تو ہے تیری صورت نظر نواز تو ہے تو اگر باوفا نہیں، نہ سہی مجھ کو اپنی وفا پہ ناز تو ہے خود فریبی سہی، وفاداری دل بہلنے کا ایک راز تو ہے سایہ افگن نہیں وہ زلف تو کیا زندگی کی شبِ دراز تو ہے کچھ نہیں داستانِ مہر و وفا گرمیِ حرفِ دل گداز تو ہے کچھ نہ ہو اختلافِ دیر و حرم...
  11. فرخ منظور

    تبسم بجھ گئے سب اِدھر اُدھر کے چراغ ۔ صوفی تبسم

    بجھ گئے سب اِدھر اُدھر کے چراغ پھر بھی روشن ہیں چشمِ تر کے چراغ کیوں لگاتے ہو حسرتوں کا سراغ کیوں جلاتے ہو تم سحر کے چراغ کون اٹھ کر گیا ہے محفل سے بجھ گئے میرے بام و در کے چراغ دل کی تاریکیاں نہ دور ہوئیں جگمگائے بہت نظر کے چراغ شبِ ہجراں کا ساتھ کیا دیتے سو گئے شامِ مختصر کے چراغ نقش تھے...
  12. فرخ منظور

    تبسم اس ضبطِ محبت نے آخر یہ حال کیا دیوانے کا ۔ صوفی تبسم

    اس ضبطِ محبت نے آخر یہ حال کیا دیوانے کا ہر آہ میں صورت شیون کی، ہر اشک میں رنگ افسانے کا وہ سحر تھا چشمِ ساقی میں یا مے خواروں کا جذبِ دروں ہر چند بھرے ہیں جام و سبو، وہ رنگ نہیں مے خانے کا کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں، یہ جانتے ہیں سب اہلِ نظر تھا شمع کا آغاز وہی، انجام ہے جو پروانے کا ہوں...
  13. فرخ منظور

    تبسم کتنی جدائیوں کے کھائے ہیں زخم دل پر ۔ صوفی تبسم

    کتنی جدائیوں کے کھائے ہیں زخم دل پر کتنی محبتوں کے ماتم کیے ہیں ہم نے فرقت کے آنسوؤں سے آنکھوں کو سی لیا ہے کیا کیا حسیں نظارے برہم کیے ہیں ہم نے ہر داغ تازہ شعلہ بن کر بھڑک اٹھا ہے کتنے چراغ غم کے مدھم کیے ہیں ہم نے دن اپنی زندگی کے پہلے ہی مختصر تھے کچھ خود بھی کم ہوئے ہیں کچھ کم کیے ہیں ہم...
  14. فرخ منظور

    تبسم ستم دیکھتے ہیں، کرم دیکھتے ہیں ، صوفی تبسم

    ستم دیکھتے ہیں، کرم دیکھتے ہیں محبت کے ہم زیر و بم دیکھتے ہیں بہت سن چکے نعرۂ لن ترانی اٹھا دو یہ پردہ کہ ہم دیکھتے ہیں جبیں کو میّسر کہاں سجدہ ریزی ابھی تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں ان الجھی ہوئی رہگزاروں میں بھی ہم تری زلف کے پیچ و خم دیکھتے ہیں مقاماتِ دیر و حرم سے گزر کر تماشائے دیر و حرم...
  15. فرخ منظور

    تبسم عشق بے تاب آرزو ہے ابھی ۔ صوفی تبسّم

    عشق بے تاب آرزو ہے ابھی جانے کس شے کی جستجو ہے ابھی سی لیا چاکِ جیبِ داماں کو چاکِ دل تشنۂ رفو ہے ابھی ہر نفس ایک داستان کہہ دی ہر نفس حرفِ آرزو ہے ابھی یوں نہ ٹھکراؤ درد مندوں کو دہر میں غم کی آبرو ہے ابھی تجھ سے مل کر بھی میری جانِ وفا تجھ سے ملنے کی آرزو ہے ابھی نقش تھے جتنے ہو گئے اوجھل...
  16. فرخ منظور

    تبسم تیری نظروں کا فسوں، دشمنِ دیں ہے ساقی ۔ صوفی تبّم

    تیری نظروں کا فسوں، دشمنِ دیں ہے ساقی ورنہ پینے میں کوئی بات نہیں ہے ساقی جو ترے جام سے سرشار نہیں ہے ساقی وہ بشر کون سی بستی کا مکیں ہے ساقی اس مئے ناب سے کیا فائدہ، جب ساغر میں جلوہ افروز تری چینِ جبیں ہے ساقی ابھی باقی ہے الَم ہائے فراواں کا خمار ابھی ہلکی سی کسک دل کے قریں ہے ساقی...
  17. فرخ منظور

    تبسم حسن مجبورِ جفا ہے شاید ۔ صوفی تبسّم

    حسن مجبورِ جفا ہے شاید یہ بھی اِک طرزِ ادا ہے شاید ایک غم ناک سی آتی ہے صدا کوئی دل ٹوٹ رہا ہے شاید خود فراموش ہوا جاتا ہوں تو مجھے بھول گیا ہے شاید ان حسیں چاند ستاروں میں کہیں تیرا نقشِ کفِ پا ہے شاید ایک دنیا سے ہوئے بیگانے تجھ سے ملنے کا صلا ہے شاید ہر گھڑی اشک فشاں ہیں آنکھیں یہی...
  18. فرخ منظور

    تبسم نالۂ صبا تنہا ، پھول کی ہنسی تنہا ۔ صوفی تبسّم

    نالۂ صبا تنہا ، پھول کی ہنسی تنہا اس چمن کی دنیا میں ، ہے کلی کلی تنہا رات دن کے ہنگامے ، ایک مہیب تنہائی صبحِ زیست بھی تنہا ، شامِ زیست بھی تنہا کون کس کا غم کھائے ، کون کس کو بہلائے تیری بے کسی تنہا ، میری بے بسی تنہا دیکھیے تو ہوتے ہیں سارے ہم قدم رہرو کاٹیے تو کٹتی ہے راہِ زندگی تنہا...
  19. فرخ منظور

    تبسم وفا کی آخری منزل بھی آ رہی ہے قریب ۔ صوفی تبسّم

    وفا کی آخری منزل بھی آ رہی ہے قریب جو اس جگہ بھی نہ تُو مل سکے تو میرے نصیب فغانِ حق و صداقت کا مرحلہ ہے عجیب دبے تو بند و سلاسل اُٹھے تو دار و صلیب ترے خیال کا مسکن چمن چمن کا سفر مری وفا کا نشیمن فقط دیارِ حبیب نظر سے بچ کے ملے ہیں وہ بارہا مجھ سے ہزار بار ہوا ہے یہ دل نظر کا رقیب الجھ...
  20. فرخ منظور

    تبسم صبحِ وطن ہے شامِ غریباں ترے بغیر ۔ صوفی تبسّم

    صبحِ وطن ہے شامِ غریباں ترے بغیر دنیا ہے کس قدر مری ویراں ترے بغیر وہ درد جس سے دہر میں آسودگی ملی وہ درد بن گیا غمِ دوراں ترے بغیر رونا پڑا ہے حوصلۂ دید پر مجھے دیکھی ہے میں نے صبحِ بہاراں ترے بغیر پہلے ہر ایک خوابِ پریشاں تھا زندگی اب زندگی ہے خوابِ پریشاں ترے بغیر...
Top