غزلِ
محسن نقوی
سانسوں کے اِس ہُنر کو نہ آساں خیال کر
زندە ہُوں، ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر
مالی نے آج کتنی دُعائیں وصُول کِیں
کُچھ پُھول اِک فقیر کی جُھولی میں ڈال کر
کل یومِ ہجر، زرد زمانوں کا یوم ہے
شب بھر نہ جاگ، مُفت میں آنکھیں نہ لال کر
اے گرد باد! لوٹ کے آنا ہے پھر مجھے...
پند نامہ
داغ دہلوی
اپنے شاگردوں کی مجھ کو ہے ہدایت منظور
کہ سمجھ لیں وہ تہِ دل سے بجا و بے جا
چست بندش ہو، نہ ہو سُست، یہی خُوبی ہے
وہ فصاحت سے گِرا، شعر میں جو حرف دبا
عربی، فارسی الفاظ جو اردو میں کہیں
حرفِ علت کا بُرا اِن میں ہے گرنا، دبنا
الف وصل اگر آئے تو کچھ عیب نہیں
پھر بھی الفاظ میں...
غزلِ
محسن نقوی
پَل بھر کو مِل کے اجْرِ شِناسائی دے گیا
اِک شخص، ایک عُمر کی تنہائی دے گیا
آیا تھا شوقِ چارہ گری میں کوئی، مگر
کُچھ اور دِل کے زخْم کو گہرائی دے گیا
بِچھڑا، تو دوستی کے اثاثے بھی بَٹ گئے
شُہرت وہ لے گیا، مجھے رُسوائی دے گیا
کِس کی برہنگی تِری پوشاک بن گئی ؟
کِس کا لہُو...
غزلِ
داغ دہلوی
وہ زمانہ نظر نہیں آتا
کچھ ٹِھکانا نظر نہیں آتا
جان جاتی دِکھائی دیتی ہے
اُن کا آنا نظر نہیں آتا
عِشق در پردہ پُھونکتا ہے آگ
یہ جَلانا نظر نہیں آتا
اِک زمانہ مری نظر میں رہا
اِک زمانہ نظر نہیں آتا
دِل نے اُس بزم میں بٹھا تو دِیا
اُٹھ کے جانا نظر نہیں آتا
رہیے مُشتاق...
غزلِ
مُحسن نقوی
کیا خزانے مِری جاں ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تِری آنکھیں، تِرے لب یاد آئے
ایک تُو تھا جسے غُربت میں پُکارا دِل نے
ورنہ، بِچھڑے ہُوئے احباب تو سب یاد آئے
ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پَل بھر سوچا
دُکھ بھی کیا کیا ہمیں یاروں کے سبَب یاد آئے
پُھول کِھلنے کا جو موسم مِرے دل...
جون ایلیا
مر مِٹا ہُوں خیال پر اپنے
وجد آتا ہے حال پر اپنے
ابھی مت دِیجیو جواب، کہ میں
جُھوم تو لوُں سوال پر اپنے
عُمر بھر اپنی آرزُو کی ہے
مر نہ جاؤں وصال پر اپنے
اِک عطا ہے مِری ہوس نِگہی
ناز کر خدّ و خال پر اپنے
اپنا شوق ایک حیلہ ساز، سو اب
شک ہے اُس کو جمال پر اپنے
جانے اُس دَم، وہ...
غزلِ
حکیم مومِن خاں مومِن
سم کھا موئے تو دردِ دلِ زار کم ہُوا
بارے کچھ اِس دَوا سے تو آزار کم ہُوا
کُچھ اپنے ہی نصِیب کی خُوبی تھی، بعد مرگ !
ہنگامۂ محبّتِ اغیار کم ہُوا
معشُوق سے بھی ہم نے نِبھائی برابری
واں لُطف کم ہُوا، تو یہاں پیار کم ہُوا
آئے غزال چشم سدا میرے دام میں !
صیّاد ہی رہا...
فہمیدہ ریاض
چار سُو ہے بڑی وحشت کا سماں
کسی آسیب کا سایہ ہے یہاں
کوئی آواز سی ہے مرثِیہ خواں
شہر کا شہر بنا گورستاں
ایک مخلوُق جو بستی ہے یہاں
جس پہ اِنساں کا گُزرتا ہے گمُاں
خود تو ساکت ہے مثالِ تصوِیر
جنْبش غیر سے ہے رقص کناں
کوئی چہرہ نہیں جُز زیر نقاب
نہ کوئی جسم ہے جُز بے دِل و جاں...
غزلِ
خواجہ حیدرعلی آتش
ہوتا ہے سوزِ عِشق سے جل جل کے دِل تمام
کرتی ہے رُوح، مرحلۂ آب و گِل تمام
حقا کے عِشق رکھتے ہیں تجھ سے حَسینِ دہر
دَم بھرتے ہیں تِرا بُتِ چین و چگِل تمام
ٹپکاتے زخمِ ہجر پر اے ترک ، کیا کریں
خالی ہیں تیل سے تِرے، چہرے کے تِل تمام
دیکھا ہے جب تجھے عرق آ آ گیا ہے...
غزلِ
اعتبارساجد
پُھول تھے رنگ تھے ،لمحوں کی صباحت ہم تھے
ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے
سب خِرَد مند بنے پھرتے تھے ماشاء اللہ !
بس تِرے شہر میں اِک صاحبِ وحشت ہم تھے
نام بخشا ہے تجھے کِس کے وفُورِ غم نے
گر کوئی تھا تو تِرے مُجرمِ شُہرت ہم تھے
رَتجگوں میں تِری یاد آئی تو احساس ہُوا...
غزلِ
مجیب خیرآبادی
زِیست آوارہ سہی زُلفِ پریشاں کی طرح
دِل بھی اب ٹوُٹ چُکا ہے تِرے پیماں کی طرح
تو بہاروں کی طرح مجھ سے گُریزاں ہی سہی
میں نے چاہا ہے تجھے اپنے دِل و جاں کی طرح
زندگی تیری تمنّا کے سِوا کُچھ بھی نہیں
ہم سے دامن نہ بچا ابرِ گُریزاں کی طرح
تیرے عارض کے گُلابوں کی مہک اور...
غزلِ
داغ دہلوی
پھر کہیں چُھپتی ہے ظاہر، جب محبّت ہوچُکی
ہم بھی رُسوا ہوچُکے اُن کی بھی شُہرت ہوچُکی
دیکھ کر آئینہ، آپ ہی آپ وہ کہنے لگے !
شکل یہ پریوں کی، یہ حوُروں کی صُورت ہوچکی
مر گئے ہم مر گئے، اِس ظُلم کی کچھ حد بھی ہے
بے وفائی ہوچُکی، اے بے مروّت! ہوچُکی
کثرتِ ناز و ادا نے صبر...
غزلِ
شفیق خلش
وہی دِن ، جو گزُرے کمال کے، ہُوئے وجہ ڈھیروں سوال کے
کہ بنے ہیں کیسے وہ سب کے سب مِری پستیوں کے، زوال کے
یُوں اُبھر رہے ہیں نقوش سب، لِئے رنگ تیرے خیال کے
نظرآئیں جس سے کہ دِلکشی، سبھی حُسن، سارے جمال کے
گو یہ دن ہیں فُرق و ملال کے، مگررکھیں خود میں سنبھال کے
وہ بھی یاد جس...
غزلِ
جوش ملسیانی
بَلا سے کوئی ہاتھ مَلتا رہے !
تِرا حُسن سانْچے میں ڈھلتا رہے
ہر اِک دِل میں چمکے محبّت کا داغ
یہ سِکّہ زمانے میں چلتا رہے
ہو ہمدرد کیا، جس کی ہر بات میں
شکایت کا پہلوُ نِکلتا رہے
بَدل جائے خُود بھی، تو حیرت ہے کیا
جو ہر روز وعدے بدلتا رہے
مِری بے قراری پہ کہتے ہیں...
داغ دہلوی
ہم تو نالے بھی کِیا کرتے ہیں آہوں کے سِوا
آپ کے پاس ہیں کیا؟ تیز نِگاہوں کے سِوا
معذرت چاہیے کیا جُرمِ وَفا کی اُس سے
کہ گُنہ عُذر بھی ہے، اور گُناہوں کے سِوا
میں نہیں کاتبِ اعمال کا قائل، یا رب !
اور بھی کوئی ہے اِن دونوں گواہوں کے سِوا
حضرتِ خِضر کریں دشت نوَردی بیکار !
ہم...
غزل
اُمید فاضلی
اے دلِ خوُد ناشناس ایسا بھی کیا
آئینہ اور اِس قدر تنہا بھی کیا
اُس کو دیکھا بھی، مگر دیکھا بھی کیا
عرصۂ خواہش میں اِک لمحہ بھی کیا
درد کا رشتہ بھی ہے تجھ سے بہت
اور پھر یہ درد کا رشتہ بھی کیا
کھینچتی ہے عقل جب کوئی حصار
دُھوپ کہتی ہے کہ یہ سایہ بھی کیا
پُوچھتا ہے...
بغداد
دُکھ ہیں کہ موجزن ہیں دلِ داغدار میں
مصرُوف پھر بھی ہیں ہَمہ تن روزگار میں
یہ آگ کی تپش، یہ دُھواں اور سیلِ خُوں
گولے برس رہے دمادم دیار میں
بغداد جل رہا ہے مگر سو رہے ہیں ہم
آتے ہیں نام ذہن میں کیا کیا شُمار میں
ہر پُھول سرخ ہے سرِ شاخِ شجر یہاں
ٹُوٹا ہے ایک حشر ہی اب کے بہار میں...
غزل
احمد فراز
سُنا تو ہے کہ نگارِ بہار راہ میں ہے
سفر بخیر کہ دشمن ہزار راہ میں ہے
گزر بھی جا غمِ جان و غمِ جہاں سے، کہ یہ
وہ منزلیں ہیں کہ جن کا شمار راہ میں ہے
تمیزِ رہبر و رہزن ابھی نہیں مُمکن
ذرا ٹھہر کہ بَلا کا غُبار راہ میں ہے
گروہِ کجکلہاں کو کوئی خبر تو کرے
ابھی ہجوم سرِ رہگزار راہ...
غزلِ
مرزا اسداللہ خاں غالب
رونے سے اور عِشق میں بیباک ہوگئے
دھوئے گئے ہم اِتنے، کہ بس پاک ہوگئے
صرفِ بہائے مے ہُوئے آلاتِ میکشی !
تھے یہ ہی دو حِساب سو یُو ں پاک ہوگئے
رُسوائے دہر گو ہُوئے آوار گی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہوگئے
کہتا ہے کون نالۂ بُلبُل کو بے اثر
پردے میں گُل کے،...
غزل
عزیز لکھنوی
بتاؤں کیا، کہ میرے دِل میں کیا ہے
سِوا تیرے، تِری محفِل میں کیا ہے
یہاں بھی تجھ کو تنہا میں نے پایا
تُو ہی تُو ہے بھری محفِل میں کیا ہے
کسی کے بُجھتے دِل کی ہے نِشانی
چراغِ سرحدِ منزِل میں کیا ہے
بجُز نقشِ پشیمانیِ قاتِل !
نگاہِ حسرتِ بسمِل میں کیا ہے
جفاؤں کی بھی حد ہوتی...