غزل
شفیق خلش
میں نے فرطِ شوق میں دی تھی زباں جاتا رہا
ورنہ مِلنے کو کسی سے کب کہاں جاتا رہا
میں لبِ دم تھا غمِ فُرقت میں لاحق وہم سے
جی اُٹھا آنے پہ اُس کے، ہر گُماں جاتا رہا
وہ جو آئے جیسے آئیں زندگی کی رونقیں
'میری تنہا زندگی کا سب نشاں جاتا رہا'
شوق اب بھی جی کو ہیں لاحق وہی پہلے جو...
خزانہ
بارشیں یاد دِلائیں وہ زمانہ میرا
شِیٹ کی دھار کے پانی میں نہانا میرا
سُوکھے پتوں کی طرح تھی نہ کہانی میری
آئی مجھ پرکہ ابھی تھی نہ جوانی میری
دل، کہ محرومئ ثروت پہ بھی نا شاد نہ تھا
لب پہ خوشیوں کے تھے نغمے، کبھی فریاد نہ تھا
پُھول ہی پُھول نظر آتے تھے ویرانے میں
موجزن رنگِ بہاراں...
غزل
شفیق خلش
نہ دوست بن کے مِلے وہ ، نہ دشمنوں کی طرح
جُدا یہ ُدکھ بھی، مِلے اور سب دُکھوں کی طرح
یُوں اجنبی سی مُصیبت کبھی پڑی تو نہ تھی
سحر کی آس نہ جس میں وہ ظلمتوں کی طرح
نہ دل میں کام کی ہمّت، نہ اوج کی خواہش !
کٹے وہ حوصلے سارے مِرے پروں کی طرح
ستارے توڑ کے لانے کا کیا کہوں میں...
غزل
شفیق خلش
نہیں جو عِشق میں رُتبہ امین رکھتا تھا
میں اپنا دِل تک اُسی کا رہین رکھتا تھا
رہی جو فکر تو نادان دوست ہی سے مجھے
وگرنہ دشمنِ جاں تک ذہین رکھتا تھا
خیال جتنا بھی اُونچا لیے پھرا ، لیکن
میں اپنے پاؤں کے نیچے زمین رکھتا تھا
خُدا کا شُکر کہ عاجز کِیا نہ دل نے کبھی
میں اِس کو...
شفیق خلش
کچھ سفیدی نے سحرکی رنگ بھی پکڑا نہ تھا
رات کی اُس تِیرَگی کو بھی ابھی جکڑا نہ تھا
خواب میں تھے سب مکینِ وادئ جنّت نظیر
رات کے سب خواب تھے دن کا کوئی دُکھڑا نہ تھا
سحری کرکے پانی پی کے سو گئے تھے روزہ دار
وہ بھی حاصل جن کو روٹی کا کوئی ٹکڑا نہ تھا
حُسن فِطرت میں کہ تھے پالے...
شفیق خلش
کیسی یہ روشنی ہے بکھرتی نہیں کبھی
تاریک راستوں پہ تو پڑتی نہیں کبھی
کیسا یہ چھا گیا ہے مِری زندگی پہ زنگ
کوشش ہزار پہ بھی اُترتی نہیں کبھی
یکسانیت کا ہوگئی عنوان زندگی !
بگڑی ہے ایسی بات سنْورتی نہیں کبھی
رہتا ہے زندگی کو بہاروں کا اِنتظار
حرکاتِ کج رَواں سے تو ڈرتی نہیں کبھی
ہے...
دو غزلہ
چاردہ سالی میں رُخ زیرِ نقاب اچھّا نہ تھا
اک نظر میری نظر کو اِنقلاب اچھا نہ تھا
اِس تغیّر سے دلِ خانہ خراب اچھا نہ تھا
تیرا غیروں کی طرح مجھ سے حجاب اچھا نہ تھا
اِس سے گو مائل تھا دل تجھ پر خراب اچھا نہ تھا
کب نشہ آنکھوں کا تیری اے شراب اچھا نہ تھا
بیقراری اور بھی بڑھ کر ہُوئی...