غزل
خواجہ حیدر علی آتشؔ
چمن میں رہنے دے کون آشیاں، نہیں معلُوم
نہال کِس کو کرے باغباں، نہیں معلوم
مِرے صنم کا کسی کو مکاں نہیں معلُوم
خُدا کا نام سُنا ہے، نشاں نہیں معلُوم
اخیر ہوگئے غفلت میں دِن جوانی کے!
بہار عمر ہُوئی کب خزاں نہیں معلُوم
سُنا جو ذکرِ الٰہی، تو اُس صنم نے کہا
عیاں کو جانتے...
غزل
خواجہ حیدر علی آتشؔ
عِشق کے سَودے سے پہلے دردِ سر کوئی نہ تھا
داغِ دِل خندہ زن، زخمِ جِگر کوئی نہ تھا
جوہری کی آنکھ سے دیکھے جواہر بیشتر
لعلِ لب سالعل، دنداں سا گُہر کوئی نہ تھا
خوب صُورت یُوں تو بہتیرے تھے، لیکن یار سا!
نازنیں، نازک بدن، نازک کمر کوئی نہ تھا
رہ گئی دِل ہی میں اپنے حسرتِ...
غزل
خواجہ حیدر علی آتشؔ
خُدا کرے نہ تمھیں میرے حال سے واقف
نہ ہو مزاجِ مبارک ملال سے واقف
نہیں جو روز شب وماہ وسال سے واقف
وہی ہے خُوب زمانےکے حال سے واقف
زباں سے کِس کی مہِ چاردہ نہیں سُنتے!
زمانہ ہے تِرے فضل و کمال سے واقف
دُعائے خیر ، یہی ہے مری حَسِینوں کو
نہ ہو کمال تمھارا زوال سے واقف...
شبِ وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا
مبارک شبِ قدر سے بھی وہ شب تھی
سحر تک مہ و مشتری کا قراں تھا
وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمیں پر سے اک نور تا آسماں تھا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبحِ جنت کا جس پر گماں تھا
عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل...
وہ نازنیں یہ نزاکت میں کچھ یگانہ ہوا
جو پہنی پھولوں کی بَدّھی تو دردِ شانہ ہوا
شہید و ناز و ادا کا ترے زمانہ ہوا
اڑایا مہندی نے دل، چور کا بہانہ ہوا
شب اس کے افعیِ گیسو کا جو فسانہ ہوا
ہوا کچھ ایسی بندھی گُل چراغِ خانہ ہوا
نہ زلفِ یار کا خاکہ بھی کر سکا مانی
ہر ایک بال میں کیا کیا نہ شاخسانہ...
پامال کیجیے انھیں رفتارِ ناز کا
طاؤس وکبک رکھتے ہیں دعویٰ نیاز کا
لکھتا ہوں وصف ان مژہ ہائے دراز کا
لیتا قلم سے کام ہوں میں نیزہ باز کا
ساقی سمائے اس میں ہزاروں خُمِ شراب
کشتیِ مے کو ظرف، خدا دے جہاز کا
اللہ رے صفائے بیانِ حدیثِ دوست
دم بند ہے فصاحتِ اہلِ حجاز کا
ہوتا ہے شعبدوں سے ترے آسماں...
غزل
خواجہ حیدر علی آتؔش
آئنہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
چہرۂ شاہدِ مقصُود عیاں ہے کہ جو تھا
عِشقِ گُل میں وہی بُلبُل کا فُغاں ہے کہ جو تھا
پرتَوِ مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا
عالَمِ حُسن ِخُداداد ِبُتاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز بَلائے دِل و جاں ہے کہ جو تھا
راہ میں تیری شب و روز بَسر...
غزلِ
خواجہ حیدرعلی آتش
ہوتا ہے سوزِ عِشق سے جل جل کے دِل تمام
کرتی ہے رُوح، مرحلۂ آب و گِل تمام
حقا کے عِشق رکھتے ہیں تجھ سے حَسینِ دہر
دَم بھرتے ہیں تِرا بُتِ چین و چگِل تمام
ٹپکاتے زخمِ ہجر پر اے ترک ، کیا کریں
خالی ہیں تیل سے تِرے، چہرے کے تِل تمام
دیکھا ہے جب تجھے عرق آ آ گیا ہے...
غزلِ
شفیق خلش
" ہزارہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے "
ٹھہرنا پل کو کہاں اختیارِ راہ میں ہے
نہیں ہے لُطف کا جس سے شُمار راہ میں ہے
دِیا ہے خود پہ جسے اختیار راہ میں ہے
کہاں کا وہم! یقیں ہے مجھے اجل کی طرح
وہ میں نے جس پہ کِیا اعتبار راہ میں ہے
زیاں مزِید نہ ہو وقت کا اے چارہ گرو !
جسے ہے دِل...
آئینہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
چہرۂ شاہدِ مقصود عیاں ہے کہ جو تھا
عشقِ گل میں وہی بلبل کا فغاں ہے کہ جو تھا
پرتَوِ مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا
عالمِ حسن خداداد بتاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز بلائے دل و جاں ہے کہ جو تھا
راہ میں تیری شب و روز بسر کرتا ہوں
وہی میل اور وہی سنگ نشاں ہے کہ...
کام کرتی رہی وہ چشمِ فسوں ساز اپنا
لبِ جاں بخش دکھایا کیے اعجاز اپنا
سرو گڑ جائیں گے گُل خاک میں مل جاویں گے
پاؤں رکھے تو چمن میں وہ سرافراز اپنا
خندہ زن ہیں، کبھی گریاں ہیں، کبھی نالاں ہیں
نازِ خوباں سے ہوا ہے عجب انداز اپنا
یہی اللہ سے خواہش ہے ہماری اے بُت
کورِ بد بیں ہو ترا، گُنگ ہو...
زاہد فریفتہ ہیں مرے نونہال کے
عاشق بزرگ لوگ ہیں اس خورد سال کے
ہر شب شبِ برات ہے، ہر روز عید ہے
سوتا ہوں ہاتھ گردنِ مینا میں ڈال کے
مضمونِ رفتگاں ہے طبیعت کو اپنی ننگ
گاہک نہ ہوویں ہم کبھی مردے کے مال کے
شان و شکوہ نے ہمیں برباد کر دیا
مثلِ حباب اُڑ گئے خیمہ نکال کے
رنجِ خمار اٹھانے کی...
غزل
غلام حیدرعلی آتش
بھاگو نہ مجھ کو دیکھ کے بے اختیار دُور
اے کودکاں ! ابھی تو ہے فصلِ بہار دُور
مانندِ مرغِ قبلہ نُما پیشِ چشم ہے
وہ کعبۂ مُراد ہو ہم سے ہزار دُور
عیسیٰ نے نسخے میں تِرے بیمار کے لکھا
دردِ فراق کو، کرے پروردگار دُور
اے خضرِ راہِ منزلِ مقصود، الغیاث
چُھوٹا ہے...
غزل
(حیدر علی آتش)
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا
مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی
سحر تک مہ و مشتری کا قراں تھا
وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمیں پر سے اک نور تا آسماں تھا
نکالے تھے دو چاند اُس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پر گماں تھا...
غزل
(آتش)
تاصبح نیند آئی نہ دم بھر تمام رات
نوچکیّاں چلیں مرے سر پر تمام رات
اللہ رے صبح عید کی اُس حور کی خوشی
شانہ تھا اور زلفِ معنبر تمام رات
کھولے بغل کہیں لحدِ تیرہ روزگار
سویا نہیں کبھی میں لپٹ کر تمام رات
کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سورہا
پٹکا کیا میں سر...
مرے دل کو شوقِ فغاں نہیں، مرے لب تک آتی دعا نہیں
وہ دہن ہوں جس میں زباں نہیں، وہ جرس ہوں جس میں صدا نہیں
نہ تجھے دماغِ نگاہ ہے، نہ کسی کو تابِ جمال ہے
انہیں کس طرح سے دکھاؤں میں، وہ جو کہتے ہیں کہ خدا نہیں
کسے نیند آتی ہے اے صنم، ترے طاقِ ابرو کی یاد میں
کبھی آشنائے تہِ بغل، سرِ مرغِ قبلہ نما...
غزل
ہوائے دورِ مئے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے
بلند آج نہایت غبار راہ میں ہے
شباب تک نہیں پہونچا ہے عالمِ طفلی
ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے
عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے
طریقِ عشق میں اے...
غزل
(حیدر علی آتش)
آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست
بیمار سال بھر کے نظر آئیں تندرست
حالِ شکستہ کا جو کبھی کچھ بیان کیا
نکلا نہ ایک اپنی زباں سے سخن درست
رکھتے ہیں آپ پاؤں کہیں پڑتے ہیں کہیں
رفتار کا تمہاری نہیں ہے چلن درست
جو پہنے اُس کو جامہء عریانی ٹھیک ہو
اندام پر ہر اک...
غزل
(حیدر علی آتش)
طریقِ عشق میں مارا پڑا ، جو دل بھٹکا
یہی وہ راہ ہے جس میں ہے جان کا کھٹکا
نہ بوریا بھی میسّر ہوا بچھانے کو
ہمیشہ خواب ہی دیکھا کیے چھپر کھٹ کا
شبِ فراق میں اُس غیرتِ مسیح بغیر
اُٹھا اُٹھا کے مجھے، دردِ دل نے دے پٹکا
پری سے چہرہ کو اپنے وہ نازنیں...
غزل
(حیدر علی آتش)
فریبِ حُسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا
خدا کی یاد بھولا شیخ، بُت سے برہمن بگڑا
امانت کی طرح رکھا زمیں نے روز محشر تک
نہ اک مُو کم ہوا اپنا ، نہ اک تارِ کفن بگڑا
لگے مُنہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجئے دہن بگڑا
بناوٹ...