غزل
(حیدر علی آتش)
حشر کو بھی دیکھنے کا اُسکے ارماں رہ گیا
دن ہوا پر آفتاب آنکھوں سے پنہاں رہ گیا
دوستی نبھتی نہیں ہرگز فرو مایہ کے ساتھ
روح جنت کو گئی جسمِ گِلی یاں رہ گیا
چال ہے مجھ ناتواں کی مرغِ بسمل کی تڑپ
ہر قدم پر ہے یقین ، یاں رہ گیا، واں رہ گیا
کر کے آرایش، جو...
غزل
ہے جب سے دستِ یار میں ساغر شراب کا
کوڑی کا ہو گیا ہے کٹورا گلاب کا
صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے
کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا
دریائے خوں کیا ہے تری تیغ نے رواں
حاصل ہوا ہے رتبہ سروں کو، حباب کا
جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے
خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا
نور آسماں ہیں صفحۂ اوّل...
غزل
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا
خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادئ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا
ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا...
معاشرے کی زوال پذیری کا عکس ادب میں نظر آنا فطری ہے اور دبستان لکھنؤ کے شعرا کے یہاں خارجی مضامین کی فراوانی اسی بات پر دال ہے۔ لیکن اس زمانے میں بھی خواجہ حیدر علی آتش دبستان لکھنؤ کے دوسرے شعرا سے مختلف نظر آتے ہیں ان کا انداز بھی الگ ہے۔ اس لیے کلام میں بھی انفرادیت ہے۔ان کا کلام ایسا منجھا...
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
جھکاتی ہے ہماری عاجزی سرکش کی گردن کو
نقاب اس آفتاب حسن کا اندھیر رکھتا ہے
رخ روشن چھپاکر سب کیا ہے روز روشن کو
اڑاتے دولتِ دنیا کو ہیں ہم عشق بازی میں
طلائی رنگ پر صدقے کیا کرتے ہیں کندن کو
قبائے سرخ وہ اندامِ نازک دوست رکھتا ہے
ملانا خاک میں...
خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری
پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری
دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری
مری طرف...
کوئی عشق میں مجُھ سے افزوں نہ نکلا
کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرہء خوں نہ نکلا
بجا کہتے آئے ہیں ہیچ اس کو شاعر
کمر کا کوئی ہم سے مضموں نہ نکلا
ہُوا کون سا روزِ روشن نہ کالا
کب افسانہء زلفِ شب گوں نہ نکلا
پہنچتا اسے مصرعِ تازہ و...
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینہء صد چاک شانہ کیا؟
زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟
چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ...
یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے
پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے
لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے...
[marq=right:ebe9514feb]ویسے آتش کے کلام کا اپنا ہی ایک لطف ہے۔۔۔۔اگر آپ محسوس کریں تو[/marq:ebe9514feb]
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
یقیں ہو گیا شبنم کو، آفتا ب آیا
ان انکھڑیوں میں اگر نشئہ شرکاب آیا
سلام جھک کر کروں گا جو پھر حجاب آیا
اسیر ہونے کا اللہ رے شوق بلبل کو
جگایا نالوں سے...
خواجہ حیدر علی آتش کی آتش بیانی ۔
[marq=right:c7ef26ab8a]خواجہ حیدر علی آتش[/marq:c7ef26ab8a]
خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایہءِ دیوار نے سونے نہ دیا
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادئِ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا