معزز استادِ محترم الف عین ،محترم ظہیراحمدظہیر
محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی
@محمّد احسن سمیع :راحل:بھائ
یاسر شاہ بھائی
آداب
آپ کی خدمت میں ایک غزل حاضر ہے۔ آپ سے اصلاح و راہنمائ کی درخواست ہے ۔ ۔
دوستی دل کو جب دکھاتی ہے
دشمنی مجھ کو خوب بھاتی ہے
یا
دوستی پیٹھ جب دکھاتی ہے
دشمنی خوب خوب...
معزز استادِ محترم الف عین ،محترم ظہیراحمدظہیر
محمد خلیل الرحمٰن ، سید عاطف علی
@محمّد احسن سمیع :راحل:بھائ
یاسر شاہ بھائی
آداب
آپ کی خدمت میں ایک مسلسل غزل حاضر ہے۔ آپ سے اصلاح و راہنمائ کی درخواست ہے ۔ ۔
دشمنی دل میں لائی جاتی ہے
بات کھل کے بڑھائی جاتی ہے
پھر تماشا بنا کے انساں کا
اس...
غزلِ
فِراق گورکھپُوری
دَورِ آغازِ جفا ، دِل کا سہارا نکلا
حوصلہ کچھ نہ ہمارا، نہ تمھارا نکلا
تیرا نام آتے ہی، سکتے کا تھا عالم مجھ پر
جانے کس طرح، یہ مذکور دوبارا نکلا
ہےترے کشف و کرامات کی ، دُنیا قائل
تجھ سے اے دِل! نہ مگر کام ہمارا نکلا
عبرت انگیزہے کیا اُس کی جواں مرگی بھی ...
غزل
عزیز حامد مدنی
ثباتِ غم ہے محبّت کی بے رُخی آخر
کسی کے کام تو آئی، یہ زندگی آخر
کوئی بتاؤ کہ، ہے بھی ، تو اس قدر کیوں ہے؟
ہوا کو میرے گریباں سے دشمنی آخر
تری قبا، تری چادر کا ذکر کس نے کیا
مگرفسانہ ہوئی، بات ان کہی آخر
ترے خیال نے سو رُخ دیے تصوّر کو
ہزار شیوہ تھی تیری سپردگی آخر...
غزل
شیخ آخر یہ صُراحی ہے، کوئی خُم تو نہیں
اور بھی، بیٹھے ہیں محِفل میں تمہی تم تو نہیں
ناخُدا ہوش میں آ، ہوش تِرے گُم تو نہیں
یہ تو ساحِل کے ہیں آثار ، تلاطُم تو نہیں
ناز و انداز و ادا ، ہونٹوں پہ ہلکی سی ہنسی !
تیری تصویر میں سب کُچھ ہے تکلّم تو نہیں
دیکھ، انجام محبّت کا بُرا ہوتا ہے...
غزل
پیشِ نظر ہوں حُسن کی رعنائیاں وہی
دِل کی طلب ہے حشر کی سامانیاں وہی
اِک عمر ہوگئی ہے اگرچہ وصال کو
نظروں میں ہیں رَچی تِری رعانائیاں وہی
میں کب کا بجھ چُکا ہوں مجھے یاد بھی نہیں
دِل میں ہے کیوں رہیں تِری تابانیاں وہی
بیٹھا تِرے خیال سے ہُوں انجمن کئے
اے کاش پھر...
غزل
گوشہ آنکھوں کے درِیچوں میں جو نم سا ہوگا
دِل کی گہرائی میں رِستا ہوا غم سا ہوگا
یاد آئیں جو کبھی ڈُھونڈنا وِیرانوں میں
ہم نہ مِل پائیں گے شاید کوئی ہم سا ہوگا
روئے گی صُبح ہمَیں شام بھی مُضطر ہوگی
کچھ بھٹکتی ہُوئی راتوں کو بھی غم سا ہوگا
وقت کی دُھوپ تو جُھلسانے پہ آمادہ رہے
جاں...
غزل
عزیز حامد مدنی
سنبھل نہ پائے تو تقصیرِ واقعی بھی نہیں
ہر اِک پہ سہل کچھ آدابِ مے کشی بھی نہیں
اِدھر اُدھر سے حدیثِ غمِ جہاں کہہ کر
تِری ہی بات کی اور تیری بات کی بھی نہیں
وفائے وعدہ پہ دِل نکتہ چیں ہے وہ خاموش
حدیثِ مہر و وفاآج گفتنی بھی نہیں
بِکھر کے حُسنِ جہاں کا نظام کیا ہوگا
یہ...
غزل
ایک اور تازیانۂ منظر لگا ہمَیں
آ، اے ہَوائے تازہ! نئے پَر لگا ہمَیں
ندّی چڑھی ہُوئی تھی تو، ہم بھی تھے موج میں
پانی اُتر گیا تو بہت ڈر لگا ہمَیں
گُڑیوں سے کھیلتی ہُوئی بچّی کی آنکھ میں
آنسو بھی آگیا، تو سمندر لگا ہمَیں
بیٹا گِرا جو چھت سے پتنگوں کے پَھیر میں
کُل آسماں پتنگ برابر لگا...
غزل
نہ ہوں آنکھیں تو پیکر کچھ نہیں ہے
جو ہے باہر، تو اندر کچھ نہیں ہے
محبّت اور نفرت کے عِلاوہ
جہاں میں خیر یا شر کچھ نہیں ہے
مجھے چھوٹی بڑی لگتی ہیں چیزیں
یہاں شاید برابر کچھ نہیں ہے
حقِیقت تھی، سو میں نے عرض کردی
شِکایت بندہ پَروَر کچھ نہیں ہے
نہ ہو کوئی شریکِ حال اُس میں
تو...
غزلِ
شفیق خلش
منظر مِرے خیال میں کیا دِید کے رہے
جب وہ رہے قریب تو دِن عید کے رہے
مِلنے کی، تھے وہاں تو نِکلتی تھی کچھ سبِیل
پردیس میں سہارے اب اُمّید کے رہے
بارآور اُن سے وصل کی کوشِش بَھلا ہو کیوں
لمحے نہ جب نصِیب میں تائید کے رہے
اب کاٹنے کو دوڑے ہیں تنہایاں مِری
کچھ روز و شب...
غزلِ
دل و نظر پہ نئے رنگ سے جو پھیلے ہیں
یہ سارے ماہِ دسمبر نے کھیل کھیلے ہیں
کہِیں جو برف سے ڈھک کر ہیں کانْچ کی شاخیں
کہِیں اِنھیں سے بنے ڈھیر سارے ڈھیلے ہیں
بِچھی ہے چادرِ برف ایسی اِس زمِیں پہ، لگے
پڑی برس کی سفیدی میں ہم اکیلے ہیں
کچھ آئیں دِن بھی اُجالوں میں یُوں اندھیرے لئے
کہ...
غزل
کل جو دِیوار گِراتا ہُوا طوُفاں نِکلا
پائے وحشت کے لئے گھر میں بَیاباں نِکلا
جانے کِس غم سے منوّر ہے ہر اِک لَوحِ جَبِیں
درد ہی رشتۂ اوراقِ پریشاں نِکلا
سر جُھکایا تو کبھی پاؤں تراشے اپنے !
پھر بھی مقتل میں مِرا قد ہی نُمایاں نِکلا
جال ہر سمت رِوایَت نے بِچھا رکھّے تھے
بابِ اِنکار...
غزل
حفیظ جالندھری
عاشِق سا بدنصیب کوئی دُوسرا نہ ہو
معشُوق خود بھی چاہے تو اِس کا بَھلا نہ ہو
ہے مُدّعائے عِشق ہی دُنیائے مُدّعا
یہ مُدّعا نہ ہو تو کوئی مُدّعا نہ ہو
عِبرت کا درس ہے مجھے ہر صورتِ فقِیر
ہوتا ہے یہ خیال کوئی بادشاہ نہ ہو
پایانِ کارموت ہی آئی بروئے کار
ہم کو تو وصل چاہیے...
غزلِ
روکوں مجال، لے گیا
خود کو غزال لے گیا
دام و سِحر سے عِشق کی
جاں کو نِکال لے گیا
کرکے فقیرِ ہجر سب
جاہ و جلال لے گیا
راحتِ وصل کب مِلی
میرا سوال لے گیا
اُس سے کہا نہ حالِ دِل
در پہ ملال لے گیا
کھائی قسم ہے جب نئی
پھر سے خیال لے گیا
وہ جو نہیں غزل نہیں
کشْف و کمال لے...
غزلِ
سو دُوریوں پہ بھی مِرے دِل سے جُدا نہ تھی
تُو میری زندگی تھی، مگر بے وفا نہ تھی
دِل نے ذرا سے غم کو قیامت بنا دِیا
ورنہ وہ آنکھ اِتنی زیادہ خفا نہ تھی
یُوں دِل لرز اُٹھا ہے کسی کو پُکار کر
میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی
برگِ خِزاں جو شاخ سے ٹوُٹا وہ خاک تھا
اِس جاں سُپردگی کے تو...
غزلِ
حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ وہ آئے
دینے دلِ مُضطر کو آرام نہ وہ آئے
جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ وہ آئے
کم کرنے کو بے بس کے آلام نہ وہ آئے
لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ وہ آئے
بِھجوائے کئی اُن کو پیغام نہ وہ آئے
افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو...
غزلِ
ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس
روزِ رحلت پہ کہَیں سب مِرے غمخوار کہ بس
خُوگرِ غم ہُوا اِتنا، کہ بُلانے پر بھی !
خود کہَیں مجھ سے اب اِس دہر کے آزار کہ بس
حالِ دِل کِس کو سُناؤں، کہ شُروعات ہی میں
کہہ اُٹھیں جو بھی بظاہر ہیں مِرے یار کہ بس
کیا زمانہ تھا دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ...
غزلِ
حالت سے ہُوئے اِس کی بدنام نہ تم آئے
دینے دلِ مضطر کو آرام نہ تم آئے
جب وقت پڑا دِل پر کُچھ کام نہ تم آئے
تھی چارہ گری خاطر اِک شام نہ تم آئے
لاحق رہے اِس دِل کو اوہام نہ تم آئے
بِھجوائے کئی تم کو پیغام نہ تم آئے
افسوس تو کم ہوتا، گر ساتھ ذرا چلتے
تا عُمْر کے وعدے پر دو گام نہ تم...