غزلِ
لب منزلِ فُغاں ہے، نہ پہلوُ مکانِ داغ
دِل ره گیا ہے نام کو باقی نشانِ داغ
اے عِشق! خاکِ دِل پہ ذرا مشقِ فِتنہ کر
پیدا کر اِس زمِیں سے کوئی آسمانِ داغ
دِل کُچھ نہ تها تمھاری نظر نے بنا دِیا
دُنیائے درد، عالَمِ حسرت، جہانِ داغ
پہلے اجَل کو رُخصتِ تلقینِ صبْر دے
پهر آخری نِگاہ سے...
غزلِ
دوستی اُن سے میری کب ٹھہری
اِک شناسائی تھی غضب ٹھہری
ساری دُنیا کے غم مِٹا ڈالے
یاد اُن کی بھی کیا عجب ٹھہری
حالِ دل خاک جانتے میرا
گفتگو بھی تو زیرِ لب ٹھہری
تِیرَگی وضْع کرگئی بدلے
اِک ملاقاتِ نِیم شب ٹھہری
دِل کے ہاتھوں رہے ہم آزردہ
اِک مُصیبت نہ بے سبب ٹھہری
کیا عِلاج...
غزلِ
دردِ غمِ فِراق سے روتے نہیں ہیں ہم
لیکن سُکوں سے پل کو بھی سوتے نہیں ہیں ہم
لمحہ کوئی وصال کا کھوتے نہیں ہیں ہم
تنہا تِرے خیال سے ہوتے نہیں ہیں ہم
دامن تو آنسوؤں سے بھگوتے نہیں ہیں ہم
یوں کاش کہہ سکیں بھی کہ، روتے نہیں ہم
بدلِیں نہ عادتیں ذرا پردیس آ کے بھی !
دُکھ کب تِرے خیال سے...
شامِ رنگیں
حفیظ جالندھری
پچّھم کے در پہ سُورج بِستر جما رہا ہے
رنگین بادلے میں چہرہ چُھپا رہا ہے
کِرنوں نے رنگ ڈالا بادل کی دھارِیوں کو
پھیلا دِیا فلک پر گوٹے کِناریوں کو
عکسِ شَفَق نے کی ہے اِس طرح زرفشانی
گُھل مِل کے بہ رہے ہیں ندی میں آگ پانی
اوڑھے سِیہ دوپٹّے سرسبز وادِیوں نے...
غزلِ
ناصر کاظمی
وہ اِس ادا سے جو آئے تو یُوں بَھلا نہ لگے
ہزار بار مِلو پھر بھی آشنا نہ لگے
کبھی وہ خاص عِنایت کہ سَو گُماں گُزریں
کبھی وہ طرزِ تغافل، کہ محرمانہ لگے
وہ سیدھی سادی ادائیں کہ بِجلیاں برسیں
وہ دلبرانہ مرُوّت کہ عاشقانہ لگے
دکھاؤں داغِ محبّت جو ناگوار نہ ہو
سُناؤں قصّۂ...
غزلِ
جو شخص بھی باتوں میں دلائل نہیں رکھتا
تقرِیر میں اپنی وہ فضائل نہیں رکھتا
قِسمت میں نہیں میری، پہ مائل نہیں رکھتا
دل ایسے میں مفرُوضہ کا قائل نہیں رکھتا
سادہ ہُوں، طبیعت میں قناعت بھی ہے میری
چاہُوں تو میں کیا کیا کے وسائل نہیں رکھتا
چاہا جسے، صد شُکر کہ حاصل ہے مجھے وہ
عاشِق ہُوں مگر...
غزلِ
ناصر کاظمی
وا ہُوا پھر درِ میخانۂ گُل
پھرصبا لائی ہے پیمانۂ گُل
زمزمہ ریز ہُوئے اہلِ چمن
پھر چراغاں ہُوا کاشانۂ گُل
رقص کرتی ہُوئی شبنم کی پَری
لے کے پھر آئی ہے نذرانۂ گُل
پُھول برسائے یہ کہہ کر اُس نے
میرا دِیوانہ ہے دِیوانۂ گُل
پھرکسی گُل کا اِشارہ پا کر
چاند نِکلا سرِ مےخانۂ...
غزلِ
یوں بھی کچھ لوگ تھے محفل میں جو لائے نہ گئے
جب سُنا بھی کبھی آئے ہیں تو پائے نہ گئے
دوست احباب مُصیبت میں تو پائے نہ گئے
ہم اذیّت میں اکیلے گئے، سائے نہ گئے
راہ پر ہم سے کسی طور وہ لائے نہ گئے
کرکے وعدے جو مُلاقات کو پائے نہ گئے
اپنے معیار پہ ہم سے تو وہ لائے نہ گئے
گھر جو مرضی...
غزلِ
گُزر رہے ہیں عجَب موسمِ کمال سے ہم
جُدا ہُوئے ہی نہیں ہیں تِرے خیال سے ہم
بنی وہ ایک جَھلک زندگی کا حاصِل یُوں
لگے کہ محوِ نظارہ رہے ہیں سال سے ہم
نصیب سایۂ زُلفِ دراز ہو گا ضرُور
توقع خوب کی رکھتے ہیں خوش جمال سے ہم
اب اُن سے ہجر کی کیا داستاں کہیں، کہ یہاں
نبرد آرا سا رہتے ہیں...
غزلِ
عقل کی سطْح سے کُچھ اور اُبھر جانا تھا
عِشق کو منزلِ پَستی سے گُزر جانا تھا
جلوے تھے حلقۂ سر دامِ نظر سے باہر
میں نے ہر جلوے کو پابندِ نظر جانا تھا
حُسن کا غم بھی حَسِیں، فکر حَسِیں، درد حَسِیں
اس کو ہر رنگ میں، ہر طور سنْور جانا تھا
حُسن نے شوق کے ہنگامے تو دیکھے تھے بہت
عِشق کے...
غزل
حَسن اختر جلیل
آرزُو کی ہَما ہَمی اور میں
دردِ دِل، دردِ زندگی اور میں
موجۂ قلزمِ ابَد، اور توُ
چند بُوندوں کی تِشنگی اور میں
رات بھر تیری راہ تکتے رہے
تیرے کُوچے کی روشنی اور میں
چُھپ کے مِلتے ہیں تیری یادوں سے
شب کی تنہائی، چاندنی اور میں
ایک ہی راہ کے مُسافِر ہیں...
غزلِ
حُسن پھر فِتنہ گر ہے کیا کہیے
دِل کی جانِب نظر ہے کیا کہیے
پھر وہی رہگُزر ہے کیا کہیے
زندگی راہ پر ہے کیا کہیے
حُسن خود پردہ وَر ہے کیا کہیے
یہ ہماری نظر ہے کیا کہیے
آہ تو بے اثر تھی برسوں سے !
نغمہ بھی بے اثر ہے کیا کہیے
حُسن ہے اب نہ حُسن کے جلوے
اب نظر ہی نظر ہے کیا کہیے...
غزلِ
پیار اچھّا نہ محبّت کا وبال اچّھا ہے
جس سے پُوری ہو تمنّا وہ کمال اچّھا ہے
ضُعف سے جوشِ محبّت کو زوال اچّھا ہے
مر مِٹے جانے کو ورنہ وہ جمال اچّھا ہے
گھر بَسائے ہُوئے مُدّت ہُوئی جن کو، اُن سے
اب بھی کیوں ویسی محبّت کا سوال اچّھا ہے
کچھ سنبھلنے پہ گلی پھر وہی لے جائے گا
دِل کا غم سے...
غزلِ
وہ کبھی مِل جائیں تو کیا کیجیے
رات دِن صُورت کو دیکھا کیجیے
چاندنی راتوں میں اِک اِک پُھول کو
بے خودی کہتی ہے سجدہ کیجیے
جو تمنّا، بر نہ آئے عُمر بھر
عُمر بھر اُس کی تمنّا کیجیے
عِشق کی رنگینیوں میں ڈُوب کر
چاندنی راتوں میں رویا کیجیے
پُوچھ بیٹھے ہیں ہمارا حال وہ
بے خوُدی توُ ہی...
غزلِ
شُعاعِ مہْر سے خِیرہ ہُوئی نظر دیکھا
نہ راس آیا ہمیں جَلوۂ سَحر دیکھا
خوشی سے غم کو کُچھ اِتنا قرِیب تر دیکھا
جہاں تھی دُھوپ وہیں سایۂ شجر دیکھا
جَلا کے سوئے تھے اہلِ وفا چراغِ وفا
کُھلی جو آنکھ اندھیرا شباب پر دیکھا
خِزاں میں گائے تھے جس نے بہار کے نغمے
اُسے بہار میں محرومِ بال و...
غزلِ
زمانہ آج نہیں ڈگمگا کے چلنے کا
سنبھل بھی جا، کہ ابھی وقت ہے سنبھلنے کا
بہار آئے، چلی جائے، پھر چلی آئے
مگر یہ درد کا موسم نہیں بَدلنے کا
یہ ٹِھیک ہے، کہ سِتاروں پہ گُھوم آئے ہم
مگر کِسے ہے سلِیقہ زمِیں پہ چلنے کا
پِھرے ہیں راتوں کو آوارہ ہم نے دیکھا ہے !
گلی گلی میں سماں چاند کے...
غزلِ
فروغِ شہرِ صدا پرتوِ خیال سے تھا
کہ یہ طلِسم تو بس خواہشِ وِصال سے تھا
جو کھو گیا کسی شب کے سِیہ سمندر میں
بندھا ہُوا میں اُسی لمحۂ زوال سے تھا
میں قید ہوگیا گُنبد میں گوُنج کی مانند
کہ میرا ربط ہی اِک ناروا سوال سے تھا
جو خاک ہو کے ہَواؤں میں بہہ گیا ہے کہیں
مِرا وجُود اُسی...
دھوکہ کریں، فریب کریں یا دغا کریں
ہم کاش دُوسروں پہ نہ تُہمت دھرا کریں
رکھّا کریں ہر ایک خطا اپنے دوش پر
ہر جُرم اپنے فردِ عمَل میں لِکھا کریں
احباب سب کے سب نہ سہی لائقِ وفا
ایک آدھ با وفا سے تو وعدہ وفا کریں
رُوٹھا کریں ضرُور، مگر اِس طرح نہیں
اپنی کہا کریں نہ کسی کی سُنا کریں...
غزلِ
کبھی اپنے عشق پہ تبصرے، کبھی تذکرے رُخِ یار کے
یونہی بِیت جائیں گے یہ بھی دن، جو خِزاں کے ہیں نہ بہار کے
یہ طلِسمِ حُسنِ خیال ہے، کہ فریب فصلِ بہار کے
کوئی جیسے پُھولوں کی آڑ میں ابھی چُھپ گیا ہے پُکار کے
سِیو چاکِ دامن و آستیں، کہ وہ سرگراں نہ ہوں پھر کہِیں
یہی رُت ہے عِشرتِ دِید کی،...
غزلِ
ہنسی لبوں پہ سجائے اُداس رہتا ہے
یہ کون ہےجو مِرے گھر کے پاس رہتاہے
یہ اور بات کہ مِلتا نہیں کوئی اُس سے
مگر، وہ شخص سراپا سپاس رہتا ہے
جہاں پہ ڈوب گیا میری آس کا سُورج
اُسی جگہ وہ سِتارہ شناس رہتا ہے
گُزر رہا ہُوں میں سوداگروں کی بستی سے
بدن پر دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے
لکھی ہے کس نے...