عرضِ ہنر بھی وجہِ شکایات ہو گئی
چھوٹا سا منہ تھا مجھ سے بڑی بات ہو گئی
دشنام کا جواب نہ سوجھا بجُز سلام
ظاہر مرے کلام کی اوقات ہو گئی
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
یا ضربتِ خلیل سے بت خانہ چیخ اٹھا
یا پتھروں کو معرفتِ ذات ہو گئی
یارانِ بے بساط کہ ہر...
غزل
چند افسانے سے لَوحِ دِل پہ کندہ کرگیا
مصلحت اندیش تھا، رُسوائیوں سے ڈر گیا
کتنی یخ بستہ فِضا ہے، کتنے پتّھر دِل ہیں لوگ
ایک اِک شُعلہ تمنّا کا ، ٹھٹھر کر مر گیا
ذہن میں میرے رَچا ہے اب نئے موسم کا زہر !
سوچ کے پردے سے، رنگوں کا ہر اِک منظر گیا
ایک مُدّت سے کھڑا ہُوں آنکھ کی دہلیز پر...
غزل
کبھی کسی سے، کبھی خود سے برسر ِپیکار
مِرا وجُود ہےتفہیمِ جُستجُو کا شِکار
مَیں جِس کی کھَوج میں اِک عُمر سے ہُوں سرگرداں
وہ میرا چاند رہا دُھند میں پَسِ دِیوار
غرُورِ شوق کی مشعل اُٹھا کے نِکلا تھا
ہُوا ہُوں رات کی سنگِنیوں میں تِیرہ فِشار
نجانے کِتنے زمانوں سے ہُوں یہاں محصُور
ہے...
شہر _ بُتاں میں دیکھ لے خاکہ نگار چپ
طرز _ نگارشات میں تھے کوہسار چپ
اندر کے شور سے بنے چہرے پہ سو نقوش
خطّاط لکھ رہے تھے اُسے بےشمار چپ
خوشے کی چاہتوں میں ہی چیخے تمام عمر
ہم کو مگر نصیب ہوئی کردگار چپ
نخل _ عزا کو دیکھ کے کہنے...
بہت کٹھن تھا میرے انتظار کا لمحہ
چلی ہوا تو اڑ گیا بہار کا لمحہ
یہ میرا دل کہ اسے چاہتا تھا دل سے مگر
اسی نے توڑا تو بدلا معیار کا لمحہ
وہ آئے مرگ پہ میرے تو زیب تن تھا زریں
یہی تو اس کے لیے تھا سنگھار کا لمحہ
جو ہم نزع میں ملے تو عاجزی تھی حفیظ
یہ اور بات کہ وہ تھا وقار کا لمحہ
محمد حفیظ
نظم
سخت گیر آقا
آج بستر ہی میں ہُوں
کردِیا ہے آج
میرے مضمحل اعضا نے اِظہارِ بغاوت برملا
واقعی معلوم ہوتا ہے تھکا ہارا ہُوا
اور میں
ایک سخت گیر آقا ۔۔۔۔(زمانے کا غلام)
کِس قدر مجبُور ہُوں
پیٹ پُوجا کے لیے
دو قدم بھی ، اُٹھ کے جا سکتا نہیں
میرے چاکر پاؤں شل ہیں
جُھک گیا ہُوں اِن کمینوں کی رضا کے...
غزل
حفیظ جالندھری
عاشِق سا بدنصیب کوئی دُوسرا نہ ہو
معشُوق خود بھی چاہے تو اِس کا بَھلا نہ ہو
ہے مُدّعائے عِشق ہی دُنیائے مُدّعا
یہ مُدّعا نہ ہو تو کوئی مُدّعا نہ ہو
عِبرت کا درس ہے مجھے ہر صورتِ فقِیر
ہوتا ہے یہ خیال کوئی بادشاہ نہ ہو
پایانِ کارموت ہی آئی بروئے کار
ہم کو تو وصل چاہیے...
شامِ رنگیں
حفیظ جالندھری
پچّھم کے در پہ سُورج بِستر جما رہا ہے
رنگین بادلے میں چہرہ چُھپا رہا ہے
کِرنوں نے رنگ ڈالا بادل کی دھارِیوں کو
پھیلا دِیا فلک پر گوٹے کِناریوں کو
عکسِ شَفَق نے کی ہے اِس طرح زرفشانی
گُھل مِل کے بہ رہے ہیں ندی میں آگ پانی
اوڑھے سِیہ دوپٹّے سرسبز وادِیوں نے...
غزلِ
حفیظ جالندھری
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہُوں
وہیں ڈوبا ہُوا پایا گیا ہُوں
بہ حالِ گُمرہی پایا گیا ہُوں
حرَم سے دیر میں لایا گیا ہُوں
بَلا کافی نہ تھی اِک زندگی کی
دوبارہ یاد فرمایا گیا ہُوں
بَرنگِ لالۂ وِیرانہ بیکار
کِھلایا اور مُرجھایا گیا ہُوں
اگرچہ ابرِ گوہر بار ہُوں میں
مگر آنکھوں...
غزلِ
حفیظ جالندھری
مِل جائے مے، تو سجدۂ شُکرانہ چاہیے
پیتے ہی ایک لغزشِ مستانہ چاہیے
ہاں احترامِ کعبہ و بُتخانہ چاہیے
مذہب کی پُوچھیے تو جُداگانہ چاہیے
رِندانِ مے پَرست سِیہ مَست ہی سہی
اے شیخ گفتگوُ تو شریفانہ چاہیے
دِیوانگی ہے، عقل نہیں ہے کہ خام ہو
دِیوانہ ہر لحاظ سے، دِیوانہ...
غزلِ
حفیظ جالندھری
عِشق نے حُسن کی بیداد پہ رونا چاہا
تُخمِ احساسِ وفا سنگ میں بونا چاہا
آنے والے کسی طوُفان کا رونا رو کر
نا خُدا نے مجھے ساحِل پہ ڈبونا چاہا
سنگ دِل کیوں نہ کہیں بُتکدے والے مجھ کو
میں نے پتّھر کا پرِستار نہ ہونا چاہا
حضرتِ شیخ نہ سمجھے مِرے دِل کی قیمت
لے کے تسبِیح...
السلام علیکم!
حفیظ تائبؒ کی نعتیں
ٹائپنگ کا دوسرا زینہ
"کلیاتِ حفیظ تائبؒ" سے انتخاب۔۔۔ برائے تبصرہ جات
استادِ محترم الف عین صاحب
استادِ محترم محمد یعقوب آسی صاحب
عائشہ عزیز آپی
محمد اسامہ سَرسَری بھائی
سیدہ شگفتہ آپی
قیصرانی انکل
جھگڑا دانے پانی کا ہے، دام و قفس کی بات نہیں
اپنے بس کی بات نہیں، صیّاد کے بس کی بات نہیں
جان سے پیارے یار ہمارے قیدِ وفا سے چھوٹ گئے
سارے رشتے ٹوٹ گئے، اک تارِ نفس کی بات نہیں
تیرا پھولوں کا بستر بھی راہ گزارِ سیل میں ہے
آقا، اب یہ بندے ہی کے خار و خس کی بات نہیں
دونوں ہجر میں رو دیتے ہیں،...
غزل
محمد حفیظ الرحمٰن
جو تِرے آستاں سے اُٹھتا ہے
رنگ و بُو کے جہاں سے اُٹھتا ہے
منزلیں اُس غبار میں گمُ ہیں
جو تِرے کارواں سے اُٹھتا ہے
غور سے سُن اِسے ، کہ یہ نالہ
میرے قلبِ تپاں سے اُٹھتا ہے
یہ کسی اور آگ کا ہے دُھواں
یا مِرے آشیاں سے اُٹھتا ہے
ہے مُنافق وہی ، کہ جس کا خمِیر
فکرِ سُود و...
حفیظ جالندھری
غزل
مِرے مذاقِ سُخن کو سُخن کی تاب نہیں
سُخن ہے نالۂ دل ، نالۂ رباب نہیں
اگر وہ فتنہ ، کوئی فتنۂ شباب نہیں
تو حشر میرے لئے وجہِ اضطراب نہیں
نہیں ثواب کی پابند بندگی میری
یہ اِک نشہ ہے جو آلودۂ شراب نہیں
مجھے ذلیل نہ کر عُذرِ لن ترانی سے
یہ اہلِ ذوق کی توہین ہے، جواب نہیں...
غزلِ
حفیظ ہوشیار پوری
محبّت کرنے والے کم نہ ہوں گے !
تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں پُھول کب تک
شریک گریۂ شبنم نہ ہوں گے
ذرا دیر آشنا چشم کرم ہے !
سِتم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے
دِلوں کی اُلجھنیں بڑھتی رہیں گی !
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
زمانے بھر کے غم یا اِک تیرا غم...
غزلِ
حفیظ ہوشیار پوری
پھر سے آرائشِ ہستی کے جو ساماں ہوں گے
تیرے جلووں ہی سے آباد شبستاں ہوں گے
عشق کی منزلِ اوّل پہ ٹھہرنے والو !
اِس سے آگے بھی کئی دشت و بیاباں ہوں گے
تو جہاں جائے گی غارت گرِ ہستی بن کر !
ہم بھی اب ساتھ تِرے گردشِ دوراں ہوں گے
کِس قدر سخت ہے، یہ ترک و طلب کی منزل...
غزلِ
حفیظ ہوشیار پوری
راز سربستہ محبّت کے، زباں تک پہنچے
بات بڑھ کر یہ خُدا جانے کہاں تک پہنچے
کیا تصرّف ہے تِرے حُسن کا، اللہ الله
جلوے آنکھوں سے، اُترکردِل وجاں تک پہنچے
تیری منزل پہ پہنچنا کوئی آسان نہ تھا
سرحدِ عقل سے گزُرے تو یہاں تک پنچے
حیرتِ عشق مِری، حُسن کا آئینہ ہے
دیکھنے...
سو بسو تذکرے اے میرِؐ امم تیرے ہیں
اوجِ قوسین پہ ضَو ریز عَلَم تیرے ہیں
وقت اور فاصلے کو بھی تری رحمت ہے محیط
سب زمانے ترے، موجود و عدم تیرے ہیں
جیسے تارے ہوں سرِ کاہکشاں جلوہ فشاں
عرصۂ زیست میں یوں نقشِ قدم تیرے ہیں
اہلِ فتنہ کا تعلّق نہیں تجھ سے کوئی
قافلے خیر کے اے خیر شیم تیرے ہیں...
متاعِ شیشہ کا پروردگار سنگ ہی سہی
متاعِ شیشہ پہ کب تک مدار کارگہی
بہار میں بھی وہی رنگ ہے وہی انداز
ہنوز اہلِ چمن ہیں شکار کم نگہی
فسردہ شبنم و بےنور دیدہء نرگس
دریدہ پیرہنِ گل، ایاغِ لالہ تہی
بلند بانگ بھی ہوتے گناہ کرتے اگر
نوائے زیرِ لبی ہے ثبوتِ بے گہنی
اُس ایک بات کے افسانے...