جدھر دیکھو ہجومِ رہبراں ہے
کدھر ڈھونڈوں مرا رہزن کہاں ہے
جرس کی ہر صدا اب رائگاں ہے
تباہی کارواں در کارواں ہے
لہو کی بُو ہے، آتش ہے دھواں ہے
بہرسُو گلستاں جنت نشاں ہے
معاذ اللہ پستی کی بلندی
زمیں اُوپر ہے، نیچے آسماں ہے
وہ ایماں کا صفایا کر چکے ہیں
اب ان کا شغل، استحصالِ جاں ہے...
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
نہیں مرتے ہیں تو ایذا نہیں جھیلی جاتی
اور مرتے ہیں تو پیماں شکنی ہوتی ہے
دن کو اک نور برستا ہے مری تربت پہ
رات کو چادرِ مہتاب تنی ہوتی ہے
لٹ گیا وہ ترے کوچے میں رکھا جس نے قدم
اس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے...
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
یہ بانکپن تھا ہمارا کہ ظلم پر ہم نے
بجائے نالہ و فریاد شاعری کی ہے
ذرا سے پاؤں بھگوئے تھے جا کے دریا میں
غرور یہ ہے کہ ہم نے شناوری کی ہے
اسی لہو میں تمھارا سفینہ ڈوبے گا
یہ قتل عام نہیں، تم نے خودکشی کی ہے...
سلام بحضور سیّد الشہداء امام حسین
لباس ہے پھٹا ہوا ،غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے
یہ جسکی ایک ضرب سے ، کمالِ فنِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب...