خلش

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش خوش باش زندگی کے کسی باب کی طرح۔شفیق خلشؔ

    غزل خوش باش زندگی کے کسی باب کی طرح ہم دن گُزار آئے حَسِیں خواب کی طرح پل بھر نہ اِنحِرافِ نظارہ، نہ اِحتِمال! تھے کم نہ لُطفِ دید میں مہتاب کی طرح بارآورایک بھی دِلی خواہش نہیں ہوئی گُزری ہر ایک شب شَبِ سُرخاب کی طرح ہم دِل کی بے بَسی کا ازالہ نہ کر سکے! گھیرا تھا اُن کےعشق نے گرداب کی...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش ا گر نہ لُطف دِل و جاں پہ بے بہا ہوگا

    غزل شفیق خلؔش ا گر نہ لُطف دِل و جاں پہ بے بہا ہوگا تو اِضطِراب ہی بے حد و اِنتہا ہوگا خُدا ہی جانے، کہ درپیش کیا رہا ہوگا ہمارے بارے اگر اُس نے یہ کہا ہوگا ہُوا نہ مجھ سے جُدائی کے ہر عذاب کا ذکر ! اِس اِک خیال سے، اُس نے بھی یہ سہا ہوگا خیال آئے بندھی ہچکیوں پہ اس کا ضرور کسی بہانے ہمیں...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش لاحق اگرچہ پہلی سی وہ بیکلی نہیں

    غزل لاحق اگرچہ پہلی سی وہ بیکلی نہیں ! لیکن ملال و حُزن کی صُورت بَھلی نہیں ہیش اُن کے، سچ یہی ہے کہ اپنی گلی نہیں کوشش ہزار کی، مگر اِک بھی چلی نہیں درپے ہے جاں کی اب بھی خیالوں میں وہ پری جس کے شباب کی ذرا رنگت ڈھلی نہیں کب دِل میں میرے عزمِ مُصمّم کے زور پر نِسبت سے اُن کی اِک نئی...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::شاعِر کے ہر لِکھے کا مَزہ خُوب تر نہ ہو !:::: Shafiq.Khalish

    غزل شاید کہِیں بھی ایسا اِک آئینہ گر نہ ہو اپنے ہُنر سے خود جو ذرا بَہرہ وَر نہ ہو شاعِر کے ہر لِکھے کا مَزہ خُوب تر نہ ہو اپنی سُخن وَرِی میں اگر دِیدَہ وَر نہ ہو جانے کہاں گئی مِری ترغِیبِ زندگی جس کے بِنا حَیات یہ جیسے بَسر نہ ہو سَیر و صَبا کے جَھونکوں کی اُمّید اب نہیں طاری اِک ایسی...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::عِلم کب مُفت میں ہاتھ آئے خلشؔ::::Shafiq.Khalish

    غزل وَسوَسوں کا اُنھیں غلبہ دینا! چاہیں سوچوں پہ بھی پہرہ دینا وہ سلاسل ہیں، نہ پہرہ دینا چاہے دِل ضُعف کو تمغہ دینا ٹھہری شُہرت سے حَسِینوں کی رَوِش! حُسن کے سِحْر سے دھوکہ دینا خود کو دینے سا تو دُشوار نہیں اُن کا ہر بات پہ طعنہ دینا بُھولے کب ہیں رُخِ مہتاب کا ہم ! اوّل اوّل کا وہ...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: کہنے کا زور و شور سے اُن پر اثر نہ ہو :::::shafiq khalish

    غزل شفیق خلشؔ کہنے کا زور و شور سے اُن پر اثر نہ ہو سُن کر بھی یُوں رہیں وہ کہ جیسے خبر نہ ہو شرمِندۂ عَمل ہُوں کہ صرفِ نظر نہ ہو دِل سے وہ بے بسی ہے کہ صُورت دِگر نہ ہو کوشش رہے اگرچہ، کوئی لمحۂ حیات! خود میں خیال اُن کا لیے جلوہ گر نہ ہو اِک اِلتماس تجھ سے بھی ایّامِ خُوب رفت! صُحبت...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::ہُنر میں اُن سے کوئی اور کیا مَہا ہوگا:::::shafiq khalish

    غزل عذاب ترکِ تعلّق پہ کم سہا ہوگا وہاں بھی سَیل سا اشکوں کا یُوں بہا ہوگا یہ دِل شکنجئہ وحشت سے کب رہا ہوگا کب اِختتامِ غَمِ ہجرِ مُنتَہا ہوگا جہاں کہیں بھی وہ عُنوانِ گفتگو ٹھہرا! وہاں پہ ذکر ہمارا بھی بارہا ہوگا ہَوائے شب عِطرآگِیں تھی، اس پہ کیا تکرار وُرُودِ صُبح پہ دِل نے تو کُچھ کہا...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش بنیں شریکِ سفر وہ مکاں سے گھر کے لیے -Shafiq Khalish

    غزل بنیں شریکِ سفر وہ مکاں سے گھر کے لیے تو وجہ کیا کوئی باقی ہو دِل میں ڈر کے لیے طَلَب ذرا نہ ہو تکیہ کی عُمر بھر کے لیے! مُیَسّر اُن کا ہو زانُو جو میرے سر کے لیے تمنّا دِل میں کہاں اب کسی بھی گھر کے لیے نہیں ہے چاند مُیسّر جو بام و دَر کے لیے کوئی بھی پیار ہو، اِظہار سے عِبارت ہے! کریں...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::ہر مُصیبت جو کھڑی کی اُنھی کے خُو نے کی:::::Shafiq- Khalish

    غزل شفیق خلِشؔ ہر مُصیبت جو کھڑی کی اُنھی کے خُو نے کی اُس پہ ہَٹ دھرمی ہر اِک بار یہ، کہ تُو نے کی شرم دُورآنکھوں سے اپنوں کی ہائے ہُو نے کی اور کچھ، اَوچھوں سے تکرار و دُو بَدُو نے کی اِک جہاں کی رہی خواہش سی مجھ سے مِلنے کی یُوں مِرے عِشق کی تشہیر ماہ رُو نے کی کچھ تو پُر برگ و...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::قربان حسرتوں پہ کبھی دِل کی چاہ پر:::::Shafiq Khalish

    غزل شفیق خلشؔ قربان حسرتوں پہ کبھی دِل کی چاہ پر لا پائے خود کو ہم نہ کبھی راست راہ پر اِک معتبر خوشی نہیں یادوں کی آہ پر نادم نہیں ہیں پھر بھی ذرا تیری چاہ پر ٹہلے نہ یُوں گلی سے عقُوبت کے باوجُود آنکھیں ہی جَم گئی تھیں رُخِ رشکِ ماہ پر حاصِل پہ اِطمینان کب اِک تِیرِ غم کو تھا ! برسے سب بار...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::مُسابَقَت میں مزہ کوئی دَم نہیں ہوتا:::::shafiq khalish

    غزل مُسابَقَت میں مزہ کوئی دَم نہیں ہوتا ذرا جو فِطرَتِ آہُو میں رَم نہیں ہوتا یہ لُطف، عِشق و محبّت میں کم نہیں ہوتا! بہت دِنوں تک کوئی اور غم نہیں ہوتا دِلوں کے کھیل میں سب حُکم دِل سے صادِر ہوں زماں کا فیصلہ یکسر اَہَم نہیں ہوتا تمھارے ساتھ گُزارے وہ چند لمحوں کا ذرا سا کم کبھی لُطفِ...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے::::shafiq khalish

    غزل چلے بھی آؤ کہ فُرقت سے دِل دُہائی دے غمِ جہاں بھی، نہ اِس غم سے کُچھ رہائی دے کبھی خیال، یُوں لائے مِرے قریب تُجھے ! ہرایک لحظہ، ہراِک لب سے تُو سُنائی دے کبھی گُماں سے ہو قالب میں ڈھل کے اِتنے قریب تمھارے ہونٹوں کی لرزِش مجھے دِکھائی دے ہے خوش خیالیِ دل سے کبھی تُو پہلُو میں کُچھ اِس طرح...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش :::کرب چہرے کا چھپاتے کیسے::::Shafiq-Khalish

    غزل کرب چہرے کا چھپاتے کیسے پُر مُسرّت ہیں جتاتے کیسے ہونٹ بھینچے تھے غَم و رِقَّت نے مسکراہٹ سی سجاتے کیسے بعد مُدّت کی خبرگیری پر اشک آنکھوں کے بچاتے کیسے دوستی میں رہے برباد نہ کم دشمنی کرتے نبھاتے کیسے خوش ہیں، وابستہ ہے اِک یاد سے زیست وہ نہ مِلتے، تو بِتاتے کیسے ظاہر اُن پر ہُوئیں...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں:::::Shafiq-Khalish

    غزل اِک ندامت عِوَض کا عیب نہیں پارسا کہنا پھر بھی زیب نہیں ظاہر و باطن ایک رکھتا ہُوں مَیں ریاکار و پُر فریب نہیں ہُوں مَیں کچھ کچھ یہاں بھی شورِیدہ راست کہنا کہاں پہ عیب نہیں ہے تسلسل سے راہِ زیست گراں کُچھ تنزل نہیں، نشیب نہیں اُلجھنیں معرضِ وُجُود ہوں خود کارفرما کُچھ اِس میں غیب نہیں...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے:::::Shafiq-Khalish

    غزل نہ مبتلائے تردُّد حیات کی جائے ذرا سا دُور رہے، سب سے بات کی جائے کنارا کرتے تھے اکثر شُنِید و گُفت سے جو ترس رہے ہیں کہ اب کِس بات کی جائے وَبا میں ملِنے کی اتنی نہ آرزو ہو اُنھیں جو گفتگوئے ہمہ ممکنات کی جائے نہ جینا اچھا تھا اُن کا جو مر رہے ہیں یہاں اگر تمیزِ حیات و ممات کی...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں:::::Shafiq-Khalish

    غزل طَلَب تھی جِس کی، وہ صُورت مِلی یہاں بھی نہیں مُدافعت کوغموں کی مَیں وہ جَواں بھی نہیں بَدیسی زِیست کو حاصِل مِزاج داں بھی نہیں دروغ گوئی ہو، کہہ دُوں جو رائیگاں بھی نہیں ثباتِ دِل کو ہی پُہنچے تھے ہم وطن سے یہاں کہیں جو راست، تو حاصِل ہُوا یہاں بھی نہیں غموں کی دُھوپ سے بچ لیں کِس ایک...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::کوئی دستور، یا رواج تو ہو:::::Shafiq-Khalish

    غزل کوئی دستور، یا رواج تو ہو عشقِ افزوں کا کوئی باج تو ہو کچھ طبیعت میں امتزاج تو ہو روزِ فردا کا اُن کی، آج تو ہو مُنتظر روز و شب رہیں کب تک! ماسوا، ہم کو کام کاج تو ہو بس اُمید اور آس کب تک یُوں! حاصِل اِس عِشق سے خراج تو ہو دِل تسلّی سے خوش رہے کب تک محض وعدوں کا کُچھ علاج تو ہو ہم نہ...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا:::::Shafiq-Khalish

    سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا جو سُکوں حاصل اِدھر ہے وہ اُدھر بالکل نہ تھا تھا غضب کا دَور جس میں گھر بھی گھر بالکل نہ تھا کون تھا مُثبت عمل جو در بَدر بالکل نہ تھا حاکمِ وقت ایک ایسا تھا مُسلّط قوم پر جس پہ، باتوں کا کسی کی، کُچھ اثر بالکل نہ تھا حق شناسی، نوجوانی سے ودِیعت تھی...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی:::::Shafiq-Khalish

    غزل شفیق خلشؔ پھر آج دوشِ باد بہت دُور تک گئی خوشبو رَچی تھی یاد، بہت دُور تک گئی نِسبت سے کیا ہی خُوب نظارے تھے پَیش رُو اِک یاد لے کے شاد بہت دُور تک گئی ہم ڈر رہے تھے کوس قیادت پہ زِیست کی ! لے کر پُر اعتماد بہت دُور تک گئی منزِل کی رَہنُمائی پَزِ یرائی سے مِلی! پہلی غَزل کی داد بہت دُور...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے:::::Shafiq-Khalish

    غزل جو، رُو شناس نے پیغام ہم کو چھوڑا ہے! اُسی نے لرزہ براندام ہم کو چھوڑا ہے نہ خوف و خاطرِ انجام ہم کو چھوڑا ہے بنا کے خوگرِ آلام ہم کو چھوڑا ہے گو شَوقِ وصل نے، ناکام ہم کو چھوڑا ہے! گلی سے دُور نہ اِک شام ہم کو چھوڑا ہے قدم قدم نہ ہو دِل غم سے کیسے آزردہ ! مُصیبتوں نےکوئی گام ہم کو چھوڑا...
Top