خلش

  1. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::جی کو کُچھ شہر میں بَھلا نہ لگا :::::Shafiq -Khalish

    غزل جی کو کُچھ شہر میں بَھلا نہ لگا جا کے احباب میں ذرا نہ لگا درگُزر اِس سے، دِل ذرا نہ لگا کم نہیں، اب کی کُچھ ڈرانہ لگا کچھ اُمیدیں تھیں جس سے وابستہ ! قد سے وہ بھی ذرا بڑا نہ لگا تھے ہم مجبوریوں سے پا بستہ بولیے دِل کی کیا لگا نہ لگا دِل کے رِشتوں سے جورَہا منسُوب! میرا ہوکر وہ بارہا...
  2. طارق شاہ

    شفیق خلش شفیق خلش ::::::ماہِ رمضاں میں عبادت کا مزہ کُچھ اور ہے::::::Shafiq -Khalish

    غزل شفیق خلشؔ ماہِ رمضاں میں عِبادت کا مزہ کُچھ اور ہے روزہ سے بڑھ کر نہ رُوحانی غذا کُچھ اور ہے لوگ سمجھیں ہیں کہ روزوں سےہُوئے ہیں ہم نڈھال سچ اگر کہدیں جو پُوچھے پر، بِنا کُچھ اور ہے یُوں تو وقفہ کرکے کھالینے کی بھی کیا بات ہے بعد اِفطاری کے، روٹی کا نشہ کُچھ اور ہے اگلی مانگی کا ہمیں...
  3. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تُم ہو::::::Shafiq -Khalish

    غزل کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تم ہو مرے خُوب و بَد کے حوالوں میں تم ہو سبب، غیض وغم کے زوالوں میں تم ہو ہُوں کچھ خوش، کہ آسُودہ حالوں میں تم ہو مُقدّر پہ میرے تُمہی کو ہے سبقت خوشی غم کے دائم دلالوں میں تم ہو یُوں چاہت سے حیرت ہے حِصّہ لیے کُچھ فلک کے مُقدّس کمالوں میں تم ہو کہاں...
  4. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم::::::Shafiq Khalish

    غزل تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم مر کھپ چُکو بھی، ذات میں درد ِنہاں سے تم وابستہ اورہوگے غمِ بے کراں سے تم خود میں دبائے درد اور آہ وفُغاں سے تم آیا خیال جب بھی، مُسلسل ہی آیا ہے! کب کم رہے ہو یاد میں اِک کارواں سے تم جب ہٹ سکے نہ راہ سے، رستہ بدل چَلو کیونکر...
  5. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی :::::Shafiq Khalish

    غزل دِل میں میرے نہ جھانکتی تھی کوئی تھا سبب کچھ، کہ جھانپتی تھی کوئی خواہشِ دِل جو بھانپتی تھی کوئی ڈر سے لغزِش کے کانپتی تھی کوئی دِل کی ہر بات پر مجھے اکثر تیز لہجے میں ڈانٹتی تھی کوئی لمبی چُٹیا کا شوق تھا اِتنا بال ہر روز ناپتی تھی کوئی یاد اُن آنکھوں سے میکشی بھی رہی جن کو ہاتھوں سے...
  6. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::: دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں:::::Shafiq Khalish

    غزل دِل کی کہہ د ُوں مجال بھی تو نہیں اس پہ حاصل کمال بھی تو نہیں جس سے دِل اُس کا رام ہوجائے ہم میں ایسا کمال بھی تو نہیں خاطرِ ماہ و سال ہو کیونکر کوئی پُرسانِ حال بھی تو نہیں جس سے سجتے تھے خواب آنکھوں میں اب وہ دِل کا کمال بھی تو نہیں کیسے مایوسیاں نہ گھر کرلیں دِل کا وہ اِستِعمال بھی...
  7. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے::::: Shafiq Khalish

    غزل حیات و ذات پر فُرقت کے غم برباد بھی ہونگے کبھی حاصل رہی قُربت سے ہم پِھر شاد بھی ہونگے ذرا بھی اِحتِمال اِس کا نہ تھا پردیس آنے تک! کہ دُوری سے تِری، ہم اِس قدر ناشاد بھی ہونگے بظاہر جو، نظر آئیں نہ ہم سے آشنا بالکل ضرُور اُن کو کئی قصّے پُرانے یاد بھی ہونگے شُبہ تک تھا نہیں ترکِ...
  8. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے:::::Shafiq Khalish

    غزل نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے شبِ قیامت نہ آزمائے تو نیند آئے چّھٹیں جو سر سے دُکھوں کے سائے تو نیند آئے خبر کہِیں سے جو اُن کی آئے تو نیند آئے دماغ و دِل کو کبھی میسّر سکون ہو جب ! جُدائی اُس کی نہ کُچھ ستائے تو نیند آئے خیال اُس کا، ہو کروَٹوں کا سبب اگرچہ اُمید ملنے کی جب بھی...
  9. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::عاصمہ، اب نہیں :::::Shafiq Khalish

    عاصمہ! میری من موہنی، پاسدارِ حقوق ! عاصمہ، اب نہیں ہاں نہیں وہ نہیں، اب کہِیں بھی نہیں دیکھ آؤ اُسے، ڈھونڈ لاؤ اُسے جو دِلوں میں رہی تو زباں پر کہِیں شاخِ سایہ تھی وہ! بس تَنی ہی رہی، جو جُھکی ہی نہیں ظُلمتوں کے مقابل ڈٹی ہی رہی ڈر سے طُوفاں کے ہرگز رُکی ہی نہیں کہہ رہے ہیں سبھی! اب رہی...
  10. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے:::::Shafiq Khalish

    غزل کب زیست منحرف تھی یوُں اپنے مدار سے وابستہ اِک اُمید نہ جانِ بہار سے بھاگ آئے دُور دیس ہم اپنے دِیار سے باقی نہ کچھ کسی پہ رہے اعتبار سے مطلق ہماری ذات پہ راغب ہی جو نہ ہوں! کیوں مانگتے ہیں ہم اُنھیں پروردگار سے خواہش ہماری کوئی بھی پُوری نہیں ہُوئی یہ تک کہ کاش مر بھی چُکیں ایک بار سے...
  11. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: خاموش و درگزر کی مری عادتوں کے بعد:::::Shafiq Khalish

    غزل خاموش و درگزر کی مری عادتوں کے بعد نادم تو وہ ر ہے تھے دِیے تہمتوں کے بعد پہچان کچھ نِکھر سی گئی شدّتوں کے بعد کندن ہُوئے ہیں غم سے جُڑی حدّتوں کے بعد دستک ہُوئی یہ کیسی درِ در گزر پہ آج شعلہ سا ایک لپکا بڑی مُدّتوں کے بعد حیراں ہمارے صبر پہ احباب تک ہُوئے راس آئے درد وغم ہمیں جب شدّتوں...
  12. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::کہو تو ہم سے کہ آخر ہمارے کون ہو تم ::::::Shafiq Khalish

    غزل کہو تو ہم سے کہ آخر ہمارے کون ہو تم دل و دماغ ہیں تابع تمھارے، کون ہو تم جو آکے بیٹھ گئے ہو مکین و مالک سا دل و جگر میں محبت اُتارے کون ہو تم خیال و خواب میں خوش کن جمالِ خُوب لیے بسے ہو زیست کے بن کر سہارے کون ہو تم تمھاری ذات سے منسُوب و منسلک سے رہیں اُمید و بِیم کے سارے اِشارے کون ہو...
  13. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::اِک بھی الزام بدگماں پہ نہیں::::::Shafiq Khalish

    غزل اِک بھی الزام بدگماں پہ نہیں بس کرم رب کا بے اماں پہ نہیں ذکر لانا ہی اب زباں پہ نہیں فیصلہ سُود اور زیاں پہ نہیں دسترس یوُں بھی داستاں پہ نہیں اِختیار اُن کے رازداں پہ نہیں کیا جوانی تھی شہر بھر سے لئے اِک ہجوم اب جو آستاں پہ نہیں کچھ تو دِل اپنا فیصلوں کا مجاز ! کچھ بھروسہ بھی آسماں...
  14. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے::::::Shafiq Khalish

    غزل تقابل کسی کا ہو کیا نازبُو سے نہیں اِک مشابہ مری خُوبرُو سے کہاں باز آئے ہم اِک آرزو سے ! نکھرتے مہکتے ترے رنگ و بُو سے ہُوا کچھ نہ حاصل تری جستجو سے رہے پیرہن تر ہم اپنے لہو سے اِطاعت، بغاوت میں ڈھل جائے اکثر نتیجہ نہ حاصل ہو جب گفتگو سے پیامِ بہم روشنی کی کرن ہے! ہٹے نا اُمیدی بھی...
  15. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: پیدا ہوں حُسن ہی سے سب اجزائے زندگی ::::::Shafiq Khalish

    پیدا ہوں حُسن ہی سے سب اجزائے زندگی دھڑکیں دِلوں میں شوق و تمنائے زندگی مشکل ہی میں پڑی رہے ہر جائے زندگی جدوجہد میں ڈر ہے نہ کٹ جائے زندگی پیری میں حل ہو خاک کہ طاقت نہیں رہی! ٹھہرا نہ سہل مجھ پہ مُعمّائے زندگی فرطِ خوشی کا جن سے کہ احساس دِل کو ہو ایسے تمام چہرے ہیں گُلہائے زندگی وہ حُسن...
  16. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::فیصلہ کرلے اگر وہ پیش و پس ہوتا نہیں ::::::Shafiq Khalish

    غزل فیصلہ کرلے اگر وہ پیش و پس ہوتا نہیں اِلتجاؤں پر بھی میری ٹس سے مس ہوتا نہیں ہے گِلہ سب سےحضُور اُن کے کئے ہر عرض پر! کیوں مَیں دوزانوں مُقابل اِس برس ہوتا نہیں یا الٰہی اپنی رحمت سے دِل اُس کا پھیر دے لاکھ کوشش پر جو زیرِ دسترس ہوتا نہیں کوئی تو، اُن کے تکبّر پر کہے اُن سے ذرا ایسی...
  17. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: کم سِتم اُن پہ جب شباب آیا ::::::Shafiq Khalish

    غزل کم سِتم اُن پہ جب شباب آیا ذوق و شوق اپنے پر عتاب آیا کیا کہیں کم نہ کچھ عذاب آیا درمیاں جب سے ہے حجاب آیا تب سِتم اُن کے کب شمُار میں تھے پیار جب اُن پہ بے حساب آیا منتظر ہم تھے گفتگو کے ، مگر ساتھ لے کر وہ اجتناب آیا خُونِ دل سے لکھا جو مَیں نے اُسے! مثبت اُس کا کہاں...
  18. طارق شاہ

    شفیق خلش ::::::تا حشر ہوگئی وہ عبادت حُسیؑن کی ::::::Shafiq Khalish

    سلام تا حشر ہوگئی وہ عبادت حُسیؑن کی بے مثل راہ ِ حق میں شہادت حُسیؑن کی برکت غمِ حُسیؑن میں روزافزوں یوُں نہیں مقصد سے کی خُدا نے وِلادت حُسیؑن کی تقلِید پروَرِش میں تھی ماؤں کی کُچھ نہ کم آئی کہاں کسی میں سعادت حُسیؑن کی عباسؑ جاں نِثار، نہ آئے َپلٹ کے جب! ناناؐ نے غم میں کی تھی عیادت...
  19. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: شیوۂ یار ہے اب دِل کو ستائے رکھنا ::::::Shafiq Khalish

    غزل شیوۂ یار ہے اب دِل کو ستائے رکھنا چاند چہرہ مِری نظروں سے چھپائے رکھنا اُس کی تصوِیر کو سینے سے لگائے رکھنا غمزدہ دِل کو کسی طور لُبھائے رکھنا چاندنی راتوں میں یاد آئے ضرُور اب اُن کا اِک قیامت سی، سرِ بام اُٹھائے رکھنا ولوَلے ہیں، نہ کِرن ہی کوئی اُمّید کی ہے ! اِس بُجھے دِل میں...
  20. طارق شاہ

    شفیق خلش :::::: عِشق کی دُھول میں جو اَٹ جائے ::::::Shafiq Khalish

    عِشق کی دُھول میں جو اَٹ جائے دو جہاں میں وہ جیسے بٹ جائے ہو زباں کو بس ایک نام کا وِرد یوں کسی کو نہ کوئی رٹ جا ئے رات کب عافیت سے ٹلتی ہے مُضطرب دِن جو ہم سے کٹ جائے خوش خیالی کہَیں وہ ساتھ اپنا ابرِ اُمِّید اب تو چَھٹ جائے پائی مُدّت سے ہےنہ خیر و خبر ذہنِ مرکوُز کُچھ تو بٹ جائے تب...
Top