عباد اللہ

  1. عباد اللہ

    بحرِ طویل

    عشق عجب سنگِ گراں اب نہ رہے تاب و تواں شیخ پئے راحتِ جاں حسن پہ ہر دم نگراں خوار ہیں سب حیلہ گراں کاملِ فن پیرِ مغاں سارا جہاں ریگِ تپاں فخرِ زمیں کوئے بتاں عشوہ گری تیغ و سناں توبہ شکن ہے یہ سماں آبلہ پا رقص کناں آئے گئے کتنے یہاں ہم کو نہیں خوفِ زیاں نشۂ مے جائے اماں ہوش ہے اب ہم پہ گراں...
  2. عباد اللہ

    کوئی گرہ کشا نہیں

    نغمۂ حزن کے سوا تارِ نفس پہ کچھ نہیں گوشۂ فکر میں ہمیں جائے اماں نہیں ملی سجدہ ء روزِ اولیں ہیچ ہے اس کی داستاں ہیچ ہیں تیرے خال و خد گلشنِ ہست ہے عبث موجۂ بادِ صبح سے سرو و سمن سبک ہوئے اب کے بہار میں یہاں خود نگری کے نام پر کھیل غضب کا ہے بپا کیسی مہیب ہے گھٹا خلقِ عظیم کا چلن ہوش و خرد...
  3. عباد اللہ

    خدا کہاں ہے

    یہ کیسی افتاد آ پڑی ہے کہ میں نے جس سمت بھی نظر کی تو کوئی مقہور کوئی معتوب سب بھکاری ہیں جن کے مابین اہلِ ثروت بہ وسعتِ ظرف طعن و دشنام ہی کی خیرات بانٹتے ہیں مگر یہ دریوزہ ان کی میراث بن چکا ہے جو آفرینش کی ابتدا سے سبک خرامی سے چلتے چلتے نہ جانے کتنی عظیم نسلوں، کئی زمانوں کے فرق کو...
  4. عباد اللہ

    راحتِ جاں کی تمنا کیجئے

    شوق کو ہر رنگ رسوا کیجئے (شوق کو اس طرح رسوا کیجئے) راحتِ جاں کی تمنا کیجئے ضبط اپنا آزمایا جائے گا کوئی دن ہم سے کنارہ کیجئے آرزو!! اے جذبۂ بے اختیار ہم کو اتنا مت ستایا کیجئے طور جانا کوئی لازم تو نہیں جھانک کر خود میں نظارہ کیجئے رکھئے کچھ تو شرمساری ہی کی لاج عذر اچھا ہو تو مانا کیجئے
  5. عباد اللہ

    نہ ہوئی ہم سے محبت نہ ہوئی

    کون دن اس پہ ملامت نہ ہوئی زندگی کب کوئی آفت نہ ہوئی عاشقی میں نہ لگا دل کسی طور نہ ہوئی ہم سے محبت نہ ہوئی کیا عجب ہے کہ بہ پیشِ داور چاہ کر تیری شکایت نہ ہوئی ہم نے اربابِ نظر پر رکھا رنجِ فرقت کی وضاحت نہ ہوئی روزِ محشر کا تو بس وعدہ ہے ورنہ کس روز قیامت نہ ہوئی حیف ہے اس پہ وہ محروم رہا جس...
  6. عباد اللہ

    تپاکِ جاں سے وہ طرزِ ستم گری نہ رہا

    تپاکِ جاں سے وہ طرزِ ستم گری نہ رہا اسی لئے ترے کوچے میں کوئی بھی نہ رہا نشاط بخش کوئی رمزِ دلبری نہ رہا نگار یار بھی اب وجہ بے خودی نہ رہا بجز کہ خارِ مغیلاں ہے ہو جراحتِ دل کریں بھی کیا کہ یہاں اور چارہ ہی نہ رہا مگر تلاشِ مسلسل بھی اک فریضہ ہے سو یوں ہی کھوج میں ہیں ورنہ آدمی نہ رہا سمیٹتے...
  7. عباد اللہ

    کیا تھا میں اور کیا ہوا مرے دوست

    مجھ کو کہتے ہو بے وفا مرے دوست خوب ہے خوب سے سوا مرے دوست مژدہ ہووے کہ نخلِ خواہش پر اک نیا خواب کھل گیا مرے دوست ہیچ ہے ہیچ عالمِ ناسوت آخرش مجھ پہ یہ کھلا مرے دوست منفعل خود سے ہوں کہ ہائے دریغ! کیا تھا میں اور کیا ہوا مرے دوست یار کے در سے جو ملا خوش ہوں بیش و کم میں نہیں پڑا مرے دوست اب...
  8. عباد اللہ

    شبِ فراق ہی کو حرزِ جاں لکھا ہوا ہے

    عجیب طور سے جشنِ طرب بپا ہوا ہے جو ناروا تھا کبھی اب وہی روا ہو ا ہے نہیں ہے جبہ و دستار کی کوئی خواہش کہ اپنے سر پہ تو بالِ ہما رکھا ہوا ہے جو کل تلک اسی بستی میں بھیک مانگتا تھا ہمارے بخت کا لکھا وہی خدا ہوا ہے ازل سے عشق کی تقویمِ بے مروت میں شبِ فراق ہی کو حرزِ جاں لکھا ہوا ہے ہمارا دستِ...
  9. عباد اللہ

    برائے اصلاح

    تکرار کا حظ اٹھا رہے ہیں ہم بات یونہی بڑھا رہے ہیں پیمانِ گزشتۂ محبت یاد آ کے بہت ستا رہے ہیں خود اپنے قرار و قول ہیں جو آئینہ ہمیں دکھا رہے ہیں اب ہوش نہیں رہا ہے ساقی سنبھل کے ذرا !! بتا رہے ہیں ( فعو تسلیم کرنے کو دل نہیں چاہتا) لمحات کی قدر ہم سے پوچھو ہم عمر یونہی گنوا رہے ہیں یہ جن کی ہے...
  10. عباد اللہ

    برائے اصلاح

    محبتوں کی تمازتوں میں جو جل بجھے ہیں انہیں خبر ہے فراق کیا ہے وصال کیا ہے فراق قبل از وصال کیا ہے وصال بعد از فراق کیا ہے وہ دشتِ سفاک میں ازل سے جو پیڑ تشنہ دہن کھڑا ہے اسے خبر ہے کہ آب کی چند بوندیوں کے جھلستے صحرا میں دام کیا ہیں وہ سننے والے کی راہ تکتا ہوا سخنور وہ ابرِ باراں کی منتظر خشک...
  11. عباد اللہ

    برائے اصلاح

    تم میں سننے کا حوصلہ ہی نہیں اس لئے میں نے سچ کہا ہی نہیں گر یہ خوفِ فسادِ خلق نہ ہو وہ کہوں جو کہا گیا ہی نہیں بارے خلقت کے کچھ میں دیوانہ کہہ رہا تھا سنا گیا ہی نہیں کون آئے مرے جنازے میں مجھ کو تو کوئی جانتا ہی نہیں دیکھ غالب سے یہ مرا مصرع اٹھ رہا تھا مگر اٹھا ہی نہیں پڑھ رہے ہو تم آج کس کا...
  12. عباد اللہ

    برائے اصلاح

    نام تیرا مجھے مداوا ھے زخم کو جیسے مرہمِ بہروز تیری صورت خیال و وہم میں ہے خوابِ دیرینہ کا اثر ھے ہنوز دردِ دل ہی مرادِ ہستی ہے نظم عالم اسی پہ ہے مرکوز یار کرتے ہیں تہنیت خوانی تم بھی آؤ مری طرف کوئی روز عام خوباں میں ہے یہ رسمِ جفا یہ روایت روایتِ دل سوز ناز و غمزہ سے بچ رہیں بھی اگر وہ...
  13. عباد اللہ

    برائے اصلاح

    عشق کی کیا پوچھتے ہو اہلِ عالم ہم نے تو جنبشِ مژگاں سے ہر ذرے کو گوہر کر دیا عالمِ ہستی کو کب حاصل تھا لوگو یہ کمال ہم نے اس کے خار و خس کو رشکِ جوہر کر دیا
  14. عباد اللہ

    برائے اصلاح

    دل کا پیہم یہی اصرار کہ مر کر دیکھیں مصلحت عقل کی کہتی ھے ٹھہر کر دیکھیں جسم پر خاک کی پوشاک پہن کر سرِ شام دشتِ ظلمات سے اک بار گزر کر دیکھیں آئینہ حسن کی حدت سے پگھل جائے گا اک ذرا آپ کھبی اس کو سنور کر دیکھیں دشتِ ادبار سے اٹھے گا تحیر کا دھواں میری صہبائے غزل جام میں بھر کر دیکھیں دیکھئے...
  15. عباد اللہ

    برائے اصلاح

    ہم جو افلاس کی چکی میں پسے جاتے ہیں مثلِ کندن زرِ خالص میں ڈھلے جاتے ہیں ہم سے نیرنگِ زمانہ کی حقیقت پوچھو کتنے گوہر ہیں جو مٹی میں ملے جاتے ہیں
Top