عدم

  1. فرخ منظور

    عدم مسکرا کر خطاب کرتے ہو ۔ عبدالحمید عدم

    مسکرا کر خطاب کرتے ہو عادتیں کیوں خراب کرتے ہو مار دو مجھ کو رحم دل ہو کر کیا یہ کارِ ثواب کرتے ہو مفلسی اور کس کو کہتے ہیں دولتوں کا حساب کرتے ہو صرف اک التجا ہے چھوٹی سی کیا اسے باریاب کرتے ہو؟ ہم تو تم کو پسند کر بیٹھے تم کسے انتخاب کرتے ہو خار کی نوک کو لہو دے کر انتظارِ گلاب کرتے ہو...
  2. طارق شاہ

    عدم عبدالحمید عدؔم ::::: عُمر گھٹتی رہی خبر نہ ہُوئی ::::: Abdul Hameed Adam

    غزل عُمر گھٹتی رہی خبر نہ ہُوئی وقت کی بات وقت پر نہ ہُوئی ہجر کی شب بھی کٹ ہی جائے گی اتفاقاً اگر سحر نہ ہُوئی جب سے آوارگی کو ترک کِیا زندگی لُطف سے بسر نہ ہُوئی اُس خطا میں خلوص کیا ہوگا جو خطا ہو کے بھی، نڈر نہ ہُوئی مِل گئی تھی دوائے مرگ، مگر ! خضر پر وہ بھی کارگر نہ ہُوئی کِس...
  3. رحیم ساگر بلوچ

    عدم

    مطلب معاملات کا کچھ پاگیا ہوں میں ہنس کر فریبِ چشمِ کرم کھا گیا ہوں میں بس انتہا ء ہے چھوڑئیے بس رہنے دیجیے خود اپنے اعتماد سے شرماگیا ہوں میں شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں نکلا تھا میکدے سے کہ اب گھر چلوں عدم گھبراکے سوئے میکدہ پھر آگیا ہوں میں
  4. معاویہ وقاص

    عدم وہ مرے اس قدر قریب ہوا - عبدالحمید عدم

    وہ مرے اس قدر قریب ہوا اس سے ملنا نہ پھر نصیب ہوا جس قدر سوچتا ہوں ہنستا ہوں آج ایک ماجرا عجیب ہوا آپ سے اب کوئی ملال نہیں شکر ہے کچھ سکوں نصیب ہوا دیکھ آیا ہے آج خود بھی انہیں آج کچھ مطمئن طبیب ہوا میں تو چپ ہی رہونگا محشر میں وہ پری وش اگر قریب ہوا پوجتی ہے عدم جسے دنیا کون اتنا بڑا ادیب...
  5. نیرنگ خیال

    عدم ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے

    ساقی شراب لا کہ طبیعت اداس ہے مطرب رباب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے چبھتی ہے قلب و جاں میں ستاروں کی روشنی اے چاند ڈوب جا کہ طبیعت اداس ہے شاید ترے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے ہے حسن کا فسوں بھی علاج فسردگی رُخ سے نقاب اٹھا کہ طبیعت اداس ہے میں نے کبھی یہ ضد تو...
  6. حسان خان

    عدم مجھے کمال کی دھن ہے، کمال کر دوں گا

    مجھے کمال کی دھن ہے، کمال کر دوں گا تری نظر کو، کئی دل نکال کر دوں گا! وہ چشمِ مست ابھی اس سے بھی نہیں واقف کہ میں بہک کے اچانک سوال کر دوں گا! میری فنا تو مسلّم ہے اس کا خوف ہی کیا تمہاری ذات کو میں لازوال کر دوں گا ادھر سے گزریں اگر گردشیں زمانے کی! قسم خدا کی طبیعت بحال کر دوں گا...
  7. معاویہ وقاص

    عدم دن گزر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں - عبدالحمید عدم

    دن گزر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں زخم بھر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں آپ کا شہر اگر بار سمجھتا ہے ہمیں کوچ کر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں آپ کے جور کا جب ذکر چھڑا محشر میں ہم مکر جاینگے ، سرکار کوئی بات نہیں رو کے جینے میں بھلا کون سی شیرینی ہے ہنس کے مر جاینگے سرکار کوئی بات نہیں نکل آئے ہیں...
  8. معاویہ وقاص

    عدم یکدم تعلقات کہاں تک پہنچ گئے

    یکدم تعلقات کہاں تک پہنچ گئے اس کے نشان پا مری جاں تک پہنچ گئے آخر ہمارے عجز نے پگھلا دیا انہیں انکار کرتے کرتے وہ ہاں تک پہنچ گئے گو راہ میں خدا نے بھی روکا کئی جگہ ہم پھر بھی اس حسیں کے مکاں تک پہنچ گئے ہم چلتے چلتے راہ حرم پر خدا خبر کس راستے سے کوئے مغاں تک پہنچ گئے ان کی نظر اٹھی نہ...
  9. معاویہ وقاص

    عدم ساقی کے گیسو کی ہوا کھا رہا ہوں

    ساقی کے گیسو کی ہوا کھا رہا ہوں اور اس ہوا کے ساتھ اڑا جا رہا ہوں میں اے وحشت خیال نتیجہ تیرے سپرد ساغر کو کائنات سے ٹکرا رہا ہوں میں جاتا ہوں بزم حشر میں اس بے دلی کے ساتھ جیسے کسی رقیب کے گھر جا رہا ہوں میں دیر و حرم کی گرد بہت دور رہ گئی شاید کے مے کدے کے قریب آ رہا ہوں میں مجھ سا بھی...
  10. کاشفی

    عدم افسانہ چاہتے تھے وہ، افسانہ بن گیا - عدم

    غزل (سید عبدالحمید عدم) افسانہ چاہتے تھے وہ، افسانہ بن گیا میں حُسنِ اتفاق سے دیوانہ بن گیا وہ اِک نگاہ دیکھ کے خود بھی ہیں شرمسار ناآگہی میں یُونہی اِک افسانہ بن گیا موجِ ہوا سے زُلف جو لہرا گئی تری میرا شعور لغزشِ مستانہ بن گیا حُسن ایک اختیارِ مکمل ہے، آپ نے دیوانہ کر دیا...
  11. کاشفی

    عدم مضطرب ہوں جلوہءِ اُمید باطل دیکھ کر - سید عبدالحمید عدم

    غزل (سید عبدالحمید عدم) مضطرب ہوں جلوہءِ اُمید باطل دیکھ کر لرزہ بر اندام ہوں بیتابئ دل دیکھ کر ناخدائے دل کو موجوں سے یہ کیسا ربط ہے ماہیء بے آب ہو جاتا ہے ساحل دیکھ کر وقتِ آخر ہم نہ ٹھہرے بارِ دوشِ دوستاں رُوح خوش ہے مرگِ غربت کا یہ حاصل دیکھ کر زعمِ عقل و فہم اِک نادانئ...
  12. کاشفی

    عدم رہرو اور رہزن - سید عبدالحمید عدم

    رہرو اور رہزن (سید عبدالحمید عدم) رواں ہیں رہروؤں کے قافلے صحرائے وحشت سے یہ کیسے لوگ ہیں لڑنے چلے ہیں دیو فطرت سے وہ ظُلمت ہے کہ ہیبت کا فرشتہ کانپ جاتا ہے وہ تاریکی ہے شیطانوں کا دل بھی خوف کھاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی سنسان تاریکی کے وسعت گیر دامن میں اسی سنسان خاموشی کے بے تنویر مسکن...
  13. کاشفی

    عدم سرد آہیں بھروں گا تو جوانی میں بھروں گا - عدم

    تغزل (عدم) سرد آہیں بھروں گا تو جوانی میں بھروں گا مرنے کا ہے موسم یہی، جی بھر کے مروں گا آغاز طلب ہے مرا افسانہء ہستی بنیاد تِری آنکھ کی مستی پہ دھروں‌گا حالات مجھے خوابِ پریشان بنالیں حالات کو کچھ میں بھی پریشان کروں گا تو رُوپ میں انساں کے مرے سامنے آجا اللہ! تجھے صدق بھرا...
  14. مغزل

    عدم شب کی بیداریاں نہیں اچھی-------عبد الحمید عدم

    غزل شب کی بیداریاں نہیں اچھی اتنی مے خواریاں نہیں اچھی وہ کہیں کبریا نہ بن جائے ناز برداریاں نہیں اچھی ہاتھ سے کھو نہ بیٹھنا اس کو اتنی خودداریاں نہیں اچھی کچھ رواداریوں‌کی مشق بھی کر صرف ادا کاریاں نہیں اچھی اے غفور الرحیم سچ فرما کیا خطا کاریاں نہیں اچھی عبد الحمید عدم
  15. پ

    عدم غزل-خالی ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں(عبدالحمید عدم

    خالی ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں اے گردش ایام میں کچھ سوچ رہا ہوں ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو پو گی ساغر کو ذرا تھام ، میں کچھ سوچ رہا ہوں پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں ادراک ابھی پورا تعاون نہیں کرتا دے بادہ گلفام ، میں کچھ سوچ رہا...
  16. فاروقی

    عدم غم کا غبار آنکھ میں ایسے سما گیا.......عد م...

    غم کا غبار آنکھ میں ایسے سما گیا ہر منظرِ حسیں پہ دھندلکا سا چھا گیا دل میں مکیں تھا کوئی تو جلتے رہے چراغ جاتے ہوئے وہ شوخ انہیں بھی بجھا گیا دل تھا، مسرتیں تھیں، جوانی تھی، شوق تھا لیکن غمِ زمانہ ہر اک شئے کو کھا گیا برباد دل میں جوشِ تمنا کا دم نہ پوچھ صحرا میں جیسے کوئی بگولے اڑا گیا...
  17. فرخ منظور

    عدم وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں - عدم

    وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں آدمی بے نظیر ہوتے ہیں تیری محفل میں بیٹھنے والے کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں پھول دامن میں چند رکھ لیجئے راستے میں فقیر ہوتے ہیں زندگی کے حسین ترکش میں کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں دیکھنے والا اک نہیں ملتا آنکھ والے...
  18. خ

    عدم فرط رقابت(عبدلمجید عدم)

    یوں جستجوئے یار میں آنکھوں کے بل گئے ہم کوئے یار سے بھی کچھ آگے نکل گئے واقف تھے تیری چشمِ تغافل پسند سے وہ رنگ جو بہار کے سانچے میں ڈھل گئے اے شمع! اُن پتنگوں کی تجھ کو کہاں خبر جو اپنے اشتیاق کی گرمی سے جل گئے وہ بھی تو زندگی کے ارادوں میں تھے شریک جو حادثات تیری مروّت سے ٹل...
  19. فرخ منظور

    عدم وہ باتیں تری وہ فسانے ترے - عبدالحمید عدم

    وہ باتیں تری وہ فسانے ترے شگفتہ شگفتہ بہانے ترے فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے بس اک داغِ سجدہ مری کائنات جبینیں تری ، آستانے ترے ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے
Top