غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
ولایت، پادشاہی، علم اشیاء کی جہاںگیری
یہ سب کیا ہیں، فقط اک نکتہ ایماں کی تفسیریں
(بانگ درا)
عہدِ طفلی (بانگ درا سے)
تھے دیار نو زمین و آسماں میرے لیے
وسعت آغوش مادر اک جہاں میرے لیے
تھی ہر اک جنبش نشان لطف جاں میرے لیے
حرف بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لیے
درد ، طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے
شورش زنجیر در میں لطف آتا تھا مجھے
تکتے رہنا ہائے! وہ پہروں تلک سوئے قمر...
زبور عجم کی افتتاحیہ دعا
علامہ اقبال ترجمہ: رؤف خیر
یا رب درون سینہ دل باخبر بدہ
پہلو میں دل دیا ہے تو دل باخبر بھی دے
دربادہ نشہ را نگرم آں نظر بدہ
دیکھوں مزاج نشہ مئے وہ نظر بھی دے
ایں بندہ را کہ بانفس دیگراں نزیست
سانسوں پہ دوسروں کی گزاروں نہ زندگی
یک آہ خانہ زاد ‘ مثال سحربدہ
یک...
شکوہ
کيوں زياں کار بنوں سود فراموش رہوں؟
فکرِ فردا نہ کروں، محوِ غمِ دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں، اور ہمہ تن گوش رہوں
؟ہمنوا ! ميں بھي کوئي گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرءات آموز مري تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ’خاکم بدہن’ ہے مجھ کو
ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہء درد...
ممکن ہے تُو جس کو سمجھتا ہے بہاراں
اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا
ہے سلسلہ احوال کا ہر لحظہ دگرگوں
اے سالکِ رہ! فکر نہ کر سود و زیاں کا
شاید کہ زمیں ہے یہ کسی اور جہاں کی
تُو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا!!
انتخاب فارسی کلامِ اقبال مع اردو ترجمہ
یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ اردو کہ اہم ترین شاعر، غالب اور اقبال، دونوں ہی اپنے اردو کلام سے مطمئن نہیں تھے۔ غالب نے اگر اپنے اردو کلام کو بے رنگ کہا تھا تو اقبال اردو کلام اور خصوصاً بانگِ درا، کہ جو آج بھی انکی مقبول ترین کتاب ہے، کو نا پختہ کہتے تھے اور...
فتویٰ ہے شیخ کا، یہ زمانہ قلم کا ہے
دنیا میںاب رہی نہیں تلوار کار گر
لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیا نہیں
مسجد میں اب یہ وعظ ہے، بے سود و بے اثر
تیخ و تفنگ دستِ مسلماں میں ہے کہاں
ہوں بھی تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے اسے کون کہ مسلماں کی موت...
حقیقتِ حسُن
خدا سے حُسن نے اک روز یہ سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا
شبِ درازِ عدم کا فسانہ ہے دنیا
ہوئی ہے رنگِ تغیر سے جب نمود اس کی
وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی
کہیں قریب تھا ، یہ گفتگو قمر نے سُنی
فلک پہ عام ہوئی، اختر سحر نے...
[marq=left:891bf19023]سنئے اقبال کی صدا۔۔۔۔۔۔[/marq:891bf19023]
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات!
جو فقر سے ہے میّسر تو نگری سے نہیں
اگر جواں ہوں مری قوم کے جُسور و غیور!
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے!
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر...
ہم کوتو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
شہری ہو، دہاتی ہو، مسلمان ہے سادہ
مانند بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن
نذرانہ نہیں، سود ہے پیران حرم کا
ہر خرقہء سالوس کے اندر ہے مہاجن
میراث میں آئی ہے انھیں مسند ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن!
(علامہ...
آج نہ جانے علامہ اقبال کیوں یاد آرہے ہیں۔ ان کا ایک کلام آپ سب کی نظر
روح اسلام کی ہے نورِ خودی، نارِ خودی
زندگانی کے لئے نارِ خودی نور و حضور
یہی ہر چیز کی تقویم، یہی اصلِ نمود
گرچہ اس روح کو فطرت نے رکھا ہے مستور
لفظِ “اسلام“ سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے “فقرِ غیور!“
تھا جنہیں ذوقِ تماشا وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اَب تو وعدہء دیدارِ عام آیا تو کیا
انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اُٹھ گئے
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا
آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو گئی
پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا
آخرِ شب دید کے قابل تھی بِسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالائے...
قوموں کے لیے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحبِ مرکز تو خودی کیا ہے؟ خدائی
جو فقر ہوا تلخئ دوراں کا گلہ مند
اُس فقر میں باقی ہے ابھی بوئے گدائی
اس دَور میں بھی مردِ خدا کو ہے میّسر
جو معجزہ پربت کو بناسکتا ہے رائی
درمعرکہ بے سوزِ تو ذوقے نتواں یافت
اے بندہء مومن تو کجائی توکجائی
خورشید ذرا...
تعلیم اور اُس کے نتائج
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
نکل جاتی ہے لبِ خنداں سے اِک آہ بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا اِلحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نُما
لے کے آئی ہے مگر تیشہء فرہاد بھی ساتھ
''تخم دیگر بکف آریم و...
فطرت کو خرد کے رُوبرو کر
تسخیرِ مقامِ رنگ و بو کر
تو اپنی خودی کو کھو چکا ہے
کھوئی ہوئی شے کی جستجو کر
تاروں کی فضا ہے بیکرانہ
تو بھی یہ مقامِ آرزو کر
عُریاں ہیں تیرے چمن کی حُوریں
چاکِ گل و لالہ کو رفو کر
بے ذوق اگرچہ نہیں فطرت
جو اُس سے نہ ہو سکا، وہ تو کر
(بالِ جبریل سے اِنتخاب)