ایک طرحی غزل احباب کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
کسی کی ذات سے کچھ واسطہ نہ ہوتے ہوئے
"میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے"
کسی کے ساتھ گزارے تھے جو خوشی کے پل
بہت رلاتے ہیں اب رابطہ نہ ہوتے ہوئے
ہزار مصلحتوں کا حجاب حائل تھا
ہمارے بیچ کوئی فاصلہ نہ ہوتے ہوئے
عجیب شے ہے محبت...
محمد تابش صدیقی بھائی کے کلام غزل: درِ مخلوق پہ سر اپنا جھکاتا کیا ہے ٭ تابش پر ہاتھ صاف کیا ہے۔امید ہے جسارت معاف کی جائے گی:unsure:
وہ نہیں مانے گی یوں دل کو جلاتا کیا ہے
بھیج گھر اس کے پیام اس کو ستاتا کیا ہے
ہاتھ لگ بھی گئی ماچس اگر، انسان ہی رہ
بجھ گئی شمع تو اب بزم جلاتا کیا ہے
ایک لمحے...
محمداحمد بھائی کی ایک انتہائی خوبصورت غزل کے ساتھ ہماری محبت تمام محفلین بالخصوص استادِ محترم الف عین کی خدمت میں:
"آگیا تھا وہ خوش خصال پسند"
تھی جسے صرف مسڈ کال پسند
فون پر ملتفت نہ ہوتا تھا
عشق بھی تھا اسے حلال پسند
ہم کو قاتل ادائیں اس کی عزیز
اس کو بندوق کی ہے نال پسند
سب سے ہی بے سبب...
ایک طرحی غزل استادِ محترم الف عین اور محفلین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
ملیں گے رہنما ایسا نہیں ہے
کہ الفت راستہ ایسا نہیں ہے
جو خود جل کر کرے دنیا کو روشن
یہاں کوئی دیا ایسا نہیں ہے
کبھی ان پھول سے ہونٹوں پہ ٹھہرے
ہمارا تذکرہ ایسا نہیں ہے
چلو مانا اسے تھی فکر میری
مگر وہ پیار تھا ایسا نہیں...
یہ اہتمام ہے کس موجِ بے کراں کے لیے
جہاز راں جو لپکتے ہیں بادباں کے لیے
گلوں نے باغ کو مہکایا باغباں کے لیے
کہ اجرِ مہر ہی سجتا ہے مہرباں کے لیے
یہ دل پلا ہے تمہارے ستم کے شعلوں پر
غمِ حیات تو امرت ہے اس جواں کے لیے
ہے ادعائے محبت تو رنج و غم سے نہ ڈر
کہ وار دیتے ہیں لوگ اپنی جاں زباں کے لیے...
محترمہ نمرہ کی ایک انتہائی خوبصورت غزل کے ساتھ کی جانے والی واردات ان سے پیشگی معذرت کے بعد پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔امید ہے احباب کو پسند آئے گی۔
نہ چائے سے، نہ بسکٹ سے، نہ رس کھانے سے ملتی ہے
خوشی بیگم جو تیرے مائیکے جانے سے ملتی ہے
ہو ستیاناس ای چالان کا کہ اب تو بیگم کو
ہماری بے وفائی...
ٹوٹا مندر دیکھے کوئی
میرے دل میں جھانکے کوئی
ایک اک کر کے بکھر چکے ہیں
میرے خواب سمیٹے کوئی
تیری آنکھیں غیر کی طالب
آئینہ کیوں دیکھے کوئی
دل کے باغ میں ہے ویرانی
خوشبو آن بکھیرے کوئی
کب سوچوں میں گم ہو جائے
جانے بیٹھے بیٹھے کوئی
چُھو کر عشق کی بادِ صبا کو
پھولوں جیسا نکھرے کوئی
غم کے...
ٹھوکر لگی جو آیا کسی کی نگاہ میں
کنکر پڑا ہو تھا کہیں کوئی راہ میں
قتلِ انا کے راستے دشوار تھے مگر
ان سے بھی ہم گزر ہی گئے تیری چاہ میں
وہ اور ہی کسی کے ستم کی تھی داستاں
تم ہم سے ہوگئے ہو خفا خوامخواہ میں
سر تم نے اس کے در پہ جھکایا تھا کس لیے
ہے فرق قتل گاہ میں اور سجدہ گاہ میں
اس نے بھی...
فیس بک کی مہربانی سے گزشتہ سال ہاؤس جاب کے دوران لکھی گئی ایک میڈیکل پیروڈی ہاتھ لگی ہے۔تمام محفلین کیلیے پیش ہے۔
(مولانا حسرت موہانی کی روح سے معذرت)
ایمرجنسی میں ترا ایس کے لگانا یاد ہے
ہم کو "ہاؤس جاب" والا وہ زمانہ یاد ہے
اک مریضہ کو فلوِڈ رَش کرا دینا ترا
اور پھر اس کو ہی آئسوکٹ چلانا...
جس دل میں صبر، ضبط، اطاعت، وفا نہیں
وہ گھر ہے جو مکین کے لائق بنا نہیں
ایسا مرض نہیں کوئی جس کی شفا نہیں
درماں ہی وجہِ درد اگر ہو دوا نہیں
کہنے کو آدمی سے بڑے آدمی بہت
سوچو تو آدمی سے کوئی بھی بڑا نہیں
کس نے کہا کہ عشق ہے ہر درد کی دوا
آبِ بقا یہ ہو تو ہو آبِ شفا نہیں
مانا کہ مجھ میں بھی...
استاد محترم الف عین اور احباب کی خدمت میں یہ تُک بندیاں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
آنکھوں میں جو دیا تھا بجھایا نہ جا سکا
تیری گلی سے لوٹ کے آیا نہ جاسکا
دل سے ترا خیال مٹایا نہ جاسکا
جو فرضِ عین تھا وہ نبھایا نہ جا سکا
ان سے بھی ہو سکی نہ نظر التفات کی
ہم سے بھی دل کا حال سنایا نہ جا سکا...
تمام محفلین، بالخصوص استادِ محترم الف عین کی نذر:
طبیعت میں عجب اک سرخوشی ہے
توقع ہر کسی سے اٹھ گئی ہے
کہاں امید اب دل میں رہی ہے!
جو اک دیوار تھی، وہ گر چکی ہے
مری مرضی بھلا کس دم چلی ہے
سو جو تیری خوشی، میری خوشی ہے
بہار آئی تھی، آکر جا چکی ہے
کوئی ٹہنی کہیں اب بھی ہری ہے
خزاں ہے، آندھیاں...
سنا ہے جو بھی اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے بھائی پھر ان کو بپھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے تاڑتا ہے سارا دن قمر اس کو
اور اس کو رات میں لڑکے قمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کا مڈل نیم ہے "صبا"، سو ہم
پچاس والا اسے لوڈ کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کا "منی لانڈرنگ" کا دھندا ہے
"مکیں اُدھر کے بھی...
عظیم بھائی محفل کے بہت اچھے شاعر ہیں۔ان کی ایک انتہائی خوبصورت غزل کی پیروڈی استادِ محترم سے اصلاح کے بعد پیشِ خدمت ہے:
عظیم بھائی سے معذرت کے ساتھ(امید ہے معذرت قبول کی جائے گی):
مکڑیوں کے جالوں سے ان کو خوف آتا ہے
قورمے میں بالوں سے ان کو خوف آتا ہے
آپ کتنی دل کش ہیں اور میں کتنا دل جو ہوں...
صد شکر کہ استاد محترم الف عین کے ۳۰ ہزار مراسلوں کی مبارکبادی لڑی کھولنے کی سعادت میرے حصے میں آئی۔
استادِ محترم!
اردو زبان،اردو بولنے والوں اور بالخصوص اردو محفل کیلیے آپ کی موجودگی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
آپ نے اس محفل کو جو تیس ہزار نگینے عنایت کیے ہیں،اللہ آپ کو ان میں مزید اضافہ کرنے کی توفیق...
مزید تک بندیاں اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں تنقیدی و اصلاحی آراء کی امید کے ساتھ پیش کر رہا ہوں۔
ہرچند بہت غم ہیں مگر غم تو نہیں ہے
ہوں ہوش میں۔۔۔۔۔ یہ ہوش کا عالم تو نہیں ہے
پیتا ہوں غمِ ہجر بھلانے کو، مگر کیوں؟
مے نوشی غمِ ہجر کا مرہم تو نہیں ہے
گر اشکِ لہو دل پہ گرے ہیں تو گرے جائیں...
استادِ محترم الف عین ،دیگر اساتذہ اور محفلین کی خدمت میں اصلاح و تنقید کیلیے پیش ہے:
ہائے! کیا رنگ تھے ستمگر کے
خوئےِ عقرب تھی، طور اژدر کے
عینِ فطرت تھا آتشِ سیال
اور بدن پر غلاف مرمر کے
مجھ کو نہلا گئے لہو میں مرے
وہ جو بھیدی تھے میرے ہی گھر کے
پشت سے میری پونچھ لو، یارو!
اشکِ پُر خون چشمِ...
محبت مری زندگانی میں ہے
جگر آگ میں، آنکھ پانی میں ہے
وہ ہر اک سے کرتا ہے ہنس کر کلام
مرے دل ! تُو کس خوش گمانی میں ہے؟
یہی ہے بہت میری تسکین کو
مرا ذکر ان کی کہانی میں ہے
دیارِ محبت کا اک راہرو
غمِ ہجر کی راجدھانی میں ہے
زباں کاٹ دیتے ہیں حق گو کی یاں
بتا زور کتنا جوانی میں ہے؟
نہیں لطف عجز...
یہ تک بندیاں گو اصلاح کےقابل نہیں ہیں،لیکن پھر بھی اساتذہ کرام اور محفلین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔مناسب سمجھیں تو اپنی رائے سے نوازیں :-)
(جون ایلیا کی روح سے معذرت)
"عمر گزرے کی امتحان میں کیا"
ساری تنخواہ لگے گی "لان" میں کیا
خوب کپڑے سجائے بیٹھا ہے
زہر بھی ہے تری دکان میں کیا
پہلے ابا...