خرام
کوئے بیتابی کی نیلی اوس میں محوِ خرام
دودھیا چادر میں اک نازک پری آہستہ گام
نرم دوشیزہ سبک تلووں کا رکھ دیتی تھی بار
رات کی زنجیر پر چلتی تھی کیا دیوانہ وار
جنبشِ دل کی طرح تھا وہ خرامِ تازہ کار
صبح تک اُس کے پروں کی جنبشیں تھیں خواب میں
اک ہَوا تھی زندگی کے گوشۂ محراب میں
مجھ کو بے...