زندہ ہزاروں لوگ جہاں مر کے ہوگئے
ہم بھی خدا کا شکر اُسی در کے ہوگئے
جو راس تھا ہمیں وہی قسمت نے لکھ دیا
ہم جور آشنا تھے ستم گر کے ہوگئے
نکلے تھے ہم جزیرۂ زر کی تلاش میں
ساحل کی ریت چھوڑ کے ساگر کے ہوگئے
کچھ ایسا رائگانیٔ دستک کا خوف تھا
پہلا جو در کھلا ہم اُسی در کے ہوگئے
میرے ستم گروں کا...