آبی ٹوکول
محفلین
بر صغیر کہ مسلمان بدترین سیاسی ،سماجی اور معاشرتی زبوں حالی کا شکا ر تھے ایسے میں حضرت اقبال علیہ رحمہ کی فکری بصیرت مسلمانوں کی قیادت کہ لیے جس واحد شخصیت پر جاکرمنتج ہوتی ہے وہ حضرت محمد علی جناح المعروف قائد اعظم علیہ رحمہ ہی تھے ۔ حضرت اقبال قائداعظم محمد علی جناح کی بصیرت اور قائدانہ صلاحیت کے دل سے قائل تھے۔ ایک نجی محفل کے دوران علامہ اقبال کی قیام گاہ پر احباب جمع تھے اور قائداعظم محمد علی جناح کی ذہانت، فراست اور تدبر کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ علامہ نے فرمایا محمد علی جناح کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو ہندوستان کے کسی اور رہنما میں نظر نہیں آتی۔ احباب میں سے کسی نے دریافت کیا کہ وہ خوبی کیا ہے۔ آپ نے فرمایا وہ ان کی امانت، دیانت، صداقت ہے۔ انہیں کسی قیمت پر خریدا نہیں جا سکتا۔ چناچہ یہی وجہ ہے وہ(علامہ) خود کو قائد اعظم کا ادنٰی سا سپاہی جانتے تھے جبکہ خود حضرت قائد اعظم حضرت علامہ کو اپنا روحانی پیشوا ،مربی و مرشد مانتے تھے ۔اسی لیے آپ قائد اعظم علیہ رحمہ کی سیاسی بصیرت میں حضرت علامہ اقبال کی فکری بصیرت کہ نمایاں خدو خال ملتے ہیں ۔ مصورِ پاکستان علامہ اقبال کی فکر کی اہمیت کا نہ صرف قائد اعظم کو ادراک تھا بلکہ انہوں نے 25 مارچ 1940ء کو لاہور میں یوم اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تقریب میں اپنی صدارتی تقریر میں فکر اقبال پر اپنی حساسیت کا اظہار کچھ یوں کیا:
’’اگر میں اس وقت تک زندہ رہا کہ ہند میں مسلم ریاست کا حصول دیکھ سکوں اور اس وقت مجھے کلام اقبال اور مسلم ریاست کی فرمانروائی پیش کی گئی کہ دونوں میں سے ایک چن لوں تو میں بلا تامل اول الذکر (کلامِ اقبال) کا انتخاب کروں گا۔
قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد ایک دن قائداعظم نے اپنے سیکریٹری سید مطلوب الحسن (1984-1915) سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ آج اقبال ہم میں موجود نہیں، لیکن وہ اگر زندہ ہوتے تو یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل ایسے ہی کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے ۔
اقبال جن کے رگ و پے میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اس انداز سے سرائیت کرگیا تھا کہ وہ اک طوفان کی صورت میں انکے اندر موجزن تھا۔ ہمہ وقت روضہٴ اطہر پر حاضری کی تڑپ آنکھوں میں سے سیل اشکرواں کی صورت جاری رہتی تھی یہی وجہ تھی کہ اقبال مسلمانوں کے سیاسی و اقتصادی مسائل کا حل نظام شریعت کے نفاذ میں سمجھتے تھے۔ اور اسی لیے قائد اعظم نےجب بھی حصول پاکستان کے مقاصد کا ذکر کیا توانہوں نے ان مقاصد میں نظام اسلام کے قیام کو مرکز و محور کے طور پر بیان کیا ۔اور اسلام کہ ان اصولوں کی پریکٹیکل بنیاد کہ لیے قائد اعظم بھی اقبال کی طرح اپنے لیے حقیقی راہنمائی کہ حصول کہ لیے سوئے گنبدِ خضریٰ دیکھتے ہیں لہذا یہی وجہ ہے ایک مرتبہ اسلام کے مکمل ضابطہ حیات کو بیان کرتے ہوئے قائد اعظم نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی میں عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
آج ہم جس عظیم ہستی کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کہ لیے جمع ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم دنیا کہ کرڑوں انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ سامنے سر جھکانے پر مجبور ہیں ۔میں ایک عاجز ترین انتہائی خاکسار اور بندہ ناچیز اتنی عظیم ہستی کو بھلا کیا نذرانہ عقیدت پیش کرئے گا سچ تو یہ ہے کہ آپ جیسا عظیم انسان کائنات نے کبھی پیدا ہی نہیں کیا آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم مدبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم فرمانروا تھے جنہوں نے حکمرانی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ قائد اعظم کہ اندر بھی موجزن تھا وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک عظیم اسلامی نظریاتی اور فلاحی ریاست کہ بانی ہوں اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عاری بلاشبہ تاریخ میں چند ہی ایسے افراد ہوتے ہیں جو تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیتے ہیں اور ان میں بھی ایسے بہت ہی کم ہوتے ہیں جو کہ دنیا کہ نقشہ کو تبدیل کردیتے ہیں اور ان میں سے بھی ایسے انتہائی ناپید کہ جو کسی نظریاتی و فلاحی ریاست کی بنیاد رکھنے والے ہوں اور ان میں سے دمکتا ہوا ایک ہی نام ہے علامہ کہ لیڈر اور میرے قائد محمدعلی جناح کا جو کہ بلاشبہ قائد اعظم ہیں ۔
’’اگر میں اس وقت تک زندہ رہا کہ ہند میں مسلم ریاست کا حصول دیکھ سکوں اور اس وقت مجھے کلام اقبال اور مسلم ریاست کی فرمانروائی پیش کی گئی کہ دونوں میں سے ایک چن لوں تو میں بلا تامل اول الذکر (کلامِ اقبال) کا انتخاب کروں گا۔
قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد ایک دن قائداعظم نے اپنے سیکریٹری سید مطلوب الحسن (1984-1915) سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ آج اقبال ہم میں موجود نہیں، لیکن وہ اگر زندہ ہوتے تو یہ جان کر بہت خوش ہوتے کہ ہم نے بالکل ایسے ہی کیا جس کی وہ ہم سے خواہش کرتے تھے ۔
اقبال جن کے رگ و پے میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اس انداز سے سرائیت کرگیا تھا کہ وہ اک طوفان کی صورت میں انکے اندر موجزن تھا۔ ہمہ وقت روضہٴ اطہر پر حاضری کی تڑپ آنکھوں میں سے سیل اشکرواں کی صورت جاری رہتی تھی یہی وجہ تھی کہ اقبال مسلمانوں کے سیاسی و اقتصادی مسائل کا حل نظام شریعت کے نفاذ میں سمجھتے تھے۔ اور اسی لیے قائد اعظم نےجب بھی حصول پاکستان کے مقاصد کا ذکر کیا توانہوں نے ان مقاصد میں نظام اسلام کے قیام کو مرکز و محور کے طور پر بیان کیا ۔اور اسلام کہ ان اصولوں کی پریکٹیکل بنیاد کہ لیے قائد اعظم بھی اقبال کی طرح اپنے لیے حقیقی راہنمائی کہ حصول کہ لیے سوئے گنبدِ خضریٰ دیکھتے ہیں لہذا یہی وجہ ہے ایک مرتبہ اسلام کے مکمل ضابطہ حیات کو بیان کرتے ہوئے قائد اعظم نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی میں عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
آج ہم جس عظیم ہستی کو نذرانہ عقیدت پیش کرنے کہ لیے جمع ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم دنیا کہ کرڑوں انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ سامنے سر جھکانے پر مجبور ہیں ۔میں ایک عاجز ترین انتہائی خاکسار اور بندہ ناچیز اتنی عظیم ہستی کو بھلا کیا نذرانہ عقیدت پیش کرئے گا سچ تو یہ ہے کہ آپ جیسا عظیم انسان کائنات نے کبھی پیدا ہی نہیں کیا آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم مدبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم فرمانروا تھے جنہوں نے حکمرانی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ قائد اعظم کہ اندر بھی موجزن تھا وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک عظیم اسلامی نظریاتی اور فلاحی ریاست کہ بانی ہوں اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عاری بلاشبہ تاریخ میں چند ہی ایسے افراد ہوتے ہیں جو تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیتے ہیں اور ان میں بھی ایسے بہت ہی کم ہوتے ہیں جو کہ دنیا کہ نقشہ کو تبدیل کردیتے ہیں اور ان میں سے بھی ایسے انتہائی ناپید کہ جو کسی نظریاتی و فلاحی ریاست کی بنیاد رکھنے والے ہوں اور ان میں سے دمکتا ہوا ایک ہی نام ہے علامہ کہ لیڈر اور میرے قائد محمدعلی جناح کا جو کہ بلاشبہ قائد اعظم ہیں ۔