افتخار چوہدری کی بحالی اچھی پیش رفت ہے۔ وہ 21 مارچ سے عہدہ سنبھالیں گے اس کے بعد ہی کہا جا سکے گا کہ وہ پاکستانی قوم کی توقعات پر پورا اترنے اور سپریم کورٹ کو سیاسی آلودگی سے کس حد تک پاک کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
میرے خیال میں اب ان کا امتحان شروع ہوا ہے ۔ وکلاء نے عوام کے تعاون سے اپنے لئیے انصاف تو حاصل کر لیا اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کو انصاف کی فراہمی کے لئیے وہ کس حد تک کام کرتے ہیں۔
پاکستان کا عدالتی نظام بد عنوان ترین عدالتی نظاموں میں شمار کیا جا سکتا ہے جہاں سے انصاف خریدا جا تا ہے اب دیکھتے ہیں کہ وکلاء اور قانون دان بشمول چیف جسٹس عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے میں کہاں تک کوشش کرتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ خواب بھی اک سراب ہی ثابت ہواور عوام پھر سے سڑکوں پر کسی اور کے لئیے آوے ہی آوے کے نعرے بلند کرتے پھریں۔
سچ پوچھیں تو میں 21 مارچ کے بعد چپقلش اور سودے بازیوں کا ایک اور دور دیکھ رہا ہوں۔ آج کے ہیرو کل کے زیرو بھی بن سکتے ہیں اور طالع آزما ہارنے کے باوجود ہمدردیاں سمیٹ کر میوزیکل چئیر کا کھیل شروع کروا سکتے ہیں۔