××× تقدیس رِدائے بانو ×××

گل بانو

محفلین
بہت خوب لکھا گُل بانو آپ نے۔۔۔
مجھے سمجھ نہیں آتی، جب نتیجہ ہمارے سامنے آ چکا ہے (کیونکہ جو بانو نے کہا وہ کوئی آج کی نہیں بہت پرانی بات ہے) پھر بھی ہم کیوں نہیں سمجھتے؟ کیوں پھر بھی بس آنکھیں بند کئیے چلے جا رہے ہیں؟ جانتے بوجھتے بھی کہ اس راہ کی منزل تباہی اور بربادی ہے، دنیا و آخرت دونوں میں۔ ۔۔پھر بھی۔۔۔
ماہی جی ابھی آپ نے اوپر والی مثالیں دیکھیں ؟ کوّے اور کبوتر کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو بس یہ ہے ساری بات ۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
ماہی جی ابھی آپ نے اوپر والی مثالیں دیکھیں ؟ کوّے اور کبوتر کی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ تو بس یہ ہے ساری بات ۔
لیکن آپی جی ! (معذرت اگر طرزِ تخاطب ناگوار گزرے تو :) )
اللہ پاک نے ہمیں اشرف المخلوقات اسی لئیے تو بنایا ہے کہ انکھیں بند ہو جائیں تب بھی باقی تمام حسیں کام کررہی ہوتی ہیں۔ جانور کو بھی اگر معلوم پڑ جائے کہ جس راستے پر وہ ہے وہاں آگے خطرہ ہے ہو وہاں نہیں جاتا۔ اور ہم انسان۔۔۔ مغرب میں ٹرینڈ بدل رہا ہے، وہ غور کر رہے ہیں ان کے معاشرے میں ایسے کون سے کمزور پہلو ہیں جن کی وجہ سے وہاں کا برا حال رہا (یہ سب جانتے ہیں کہ واقعی برا حال تھا اور ہے) اور ہم، ہمیں ابھی بھی عقل ہی نہیں آئی؟؟؟ بہت افسوس ہوتا ہے، بہت ہی افسوس۔۔۔
 
اب ہم نے تو کہ دیا کھَڑک سَکھ ہو یا کھڑک سنگھ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ بُوا تو آپ کا ہی کھڑکے گا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ اب خواجہ بےچارہ کیا کرے جب گل کو لگ گئی لت :) ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ لگا دیا اردو محفل میں اور گھر میں خواجہ کوچھوڑدیا کھلی ہوئی اردو کے ساتھ :) ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ تو استاد کا گلا ہی پکڑے گا نا :LOL:
یہ لت کون سی ہے۔ پنجابی والی تو خواجہ کو لگی ہوگی ۔
 

گل بانو

محفلین
لیکن آپی جی ! (معذرت اگر طرزِ تخاطب ناگوار گزرے تو :) )
اللہ پاک نے ہمیں اشرف المخلوقات اسی لئیے تو بنایا ہے کہ انکھیں بند ہو جائیں تب بھی باقی تمام حسیں کام کررہی ہوتی ہیں۔ جانور کو بھی اگر معلوم پڑ جائے کہ جس راستے پر وہ ہے وہاں آگے خطرہ ہے ہو وہاں نہیں جاتا۔ اور ہم انسان۔۔۔ مغرب میں ٹرینڈ بدل رہا ہے، وہ غور کر رہے ہیں ان کے معاشرے میں ایسے کون سے کمزور پہلو ہیں جن کی وجہ سے وہاں کا برا حال رہا (یہ سب جانتے ہیں کہ واقعی برا حال تھا اور ہے) اور ہم، ہمیں ابھی بھی عقل ہی نہیں آئی؟؟؟ بہت افسوس ہوتا ہے، بہت ہی افسوس۔۔۔
نہیں ہر ایک کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہوتی ہے ۔ ارے وہ ہم نے مزاق میں کہ دیا تھا ۔ آپ نے درست کہا :)
 

گل بانو

محفلین
لیکن آپی جی ! (معذرت اگر طرزِ تخاطب ناگوار گزرے تو :) )
اللہ پاک نے ہمیں اشرف المخلوقات اسی لئیے تو بنایا ہے کہ انکھیں بند ہو جائیں تب بھی باقی تمام حسیں کام کررہی ہوتی ہیں۔ جانور کو بھی اگر معلوم پڑ جائے کہ جس راستے پر وہ ہے وہاں آگے خطرہ ہے ہو وہاں نہیں جاتا۔ اور ہم انسان۔۔۔ مغرب میں ٹرینڈ بدل رہا ہے، وہ غور کر رہے ہیں ان کے معاشرے میں ایسے کون سے کمزور پہلو ہیں جن کی وجہ سے وہاں کا برا حال رہا (یہ سب جانتے ہیں کہ واقعی برا حال تھا اور ہے) اور ہم، ہمیں ابھی بھی عقل ہی نہیں آئی؟؟؟ بہت افسوس ہوتا ہے، بہت ہی افسوس۔۔۔
اصل میں ہمیں تو راستہ بتا دیا گیا ہے ایک آسمانی صحیفہ بھی اللہ نے ہمارے لئے اتار دیا ۔ یہ تو ہماری کوتاہی ہے نا کہ ہم پڑھتے نہیں اور نہ ہی سمجھنے کی زحمت کرتے ہیں سارے مسائل کا حل ہمارے پاس موجود ہے الحمداللہ ، اللہ توفیق دے یہی دعا ہے
 
انسانیت کا احترام فی زمانہ کہیں کھو سا گیا ہے ۔جِدھر نظر دوڑائیے انسانیت کی تذلیل ہوتی نظر آتی ہے ۔کہیں غربت پہ چوٹ، کہیں کم پڑھا لکھا ہونے کا طعنہ، کہیں تنگ نظراور دقیانوسی کہہ کر جاہلوں کی قطار میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔تو کہیں اونچے خاندانی پس منظر کا نہ ہونا باعث تذلیل ٹھہرتا ہے ۔
گزرے وقت پر نظر دوڑائیے تو معلوم ہوگا ۔۔۔ برصغیر میں بالخصوص مسلمان گھرانوں کا ایک الگ ہی اندازہوا کرتا تھا ۔نشست و برخاست میں ایک خاص رکھ رکھاؤ ہوتا ۔ خواتین گھروں میں بھی سر پر ا وڑھنیاں لئے رکھتی تھیں ۔دھیمے لہجے ،پر وقار انداز ،بچوں کی تربیت میں بہت معاون ہوتے ۔ جوان ،بچے اور بوڑھے حسبِ مراتب لباس کا خیال رکھتے جس سے ان کی شخصیت کا وقار جھلکتا تھا، روایات کی پاسداری کو اوّلیت حاصل تھی ۔ اب ہر کوئی ان باتوں سے بے پرواہ نظر آتا ہے ۔ جیسے وقت کی تیزرفتاری میں کوئی رکاوٹ آچلی ہے۔
کہتے ہیں لباس شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے ۔اور نہ صرف شخصیت کو اجالتا ہے بلکہ دوسروں پر گہرا تاثر چھوڑتا ہے ۔ کسی بھی معاشرے کی تہذیب و تمدن کی تشریح کرتا ہے۔ مختلف ممالک میں موسم کی مختلف کیفیات بھی لباس پر اثر ڈالتی ہیں ۔ مذہب کا بھی کسی حدتک دخل ہے۔ اسلام میں جہاں زندگی گزارنے کے اور بہت سے طریقے بتائے گئے وہیں لباس پہننے کا سلیقہ بھی سکھایاگیا جس میں مرد و خواتین کے لئے حدود قیود کا تعین کردیاگیا ہے۔جس کی پاسداری ہرمسلمان کا فرض ہے ۔ لیکن ہو کیا رہا ہے؟ آئیے کچھ اس طرف !!!
اکثر جگہوں پر مرد کو اپنے لباس سے بے پرواہ دیکھا گیا ہے ۔ گھر وں میں اب وہ رکھ رکھاؤ معدوم ہوچکا ، بزرگ جہاں جیسے بیٹھ گئے سو بیٹھ گئے ۔جو چاہا پہنا، یا گرمی کے نام پر اتار پھینکا، نوجوان طبقہ ایک بد مستی میں کھویا نظر آتا ہے پھٹی ہوئی جینز فیشن سمبل بن گیا ہے ، برگر فیملی (اب بھلا بتائیے یہ بھی کوئی نام ٹھہرا ؟)نے رہی سہی کثر پوری کردی ہے ۔
اسی طرح ۔۔۔ ۔ دُختر مشرق و مغرب کا موازنہ آپ کی آنکھوں کو کھولنے کے لئے کافی ہے ۔ مغرب میں جسم کو عُریاں کرنے کا نام ہی فیشن ہے۔ موسم کی دردناکی بھی ان کے اس عریانی زدہ فیشن کو روکنے میں ناکام ہے،ہوا کرے! پر، دُختر مشرق کو کیا ہوا؟ یہ تو فیشن میں بھی حیا کو اوّلیت دیتی تھی لیکن بدلتا وقت اب حیا کے پیمانے بھی بدل رہا ہے جو کہ اچھی علامت نہیں ۔ہم اب فیشن میں جدیدیت کے دلدادہ ہوتے جا رہے ہیں اور روایات کوفراموش کئے جا رہے ہیں ۔مشرق میں ملا جُلا کلچر پروان چڑھ رہا ہے ، جس سے ہماری پہچان کھو رہی ہے ہماری اقدار کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہیں ۔ اس میں دُکھ کا یہ پہلو نمایاں ہے کہ نئی نسل مغرب سے متاثر ہو کر ان کی روایات اور کلچر کو اپنانے میں فخر محسوس کرنے لگی ہے ۔ ان کے لباس کو خوشی سے زیب تن کیا جاتا ہے ۔ ہمارے یہاں خصوصاً مسلمان گھرانوں میں چادر اور چار دیواری اب عنقا ہوئی جا رہی ہے اس میں کچھ عوامل ہمارے سامنے ہیں ، ہم انگریزوں سے آزادی کے باوجود بھی کمپلیکس کا شکار ہیں ۔ان سے مرعوبیت ہماری روح میں رچ بس گئی ہے اور ان کی نقالی میں ان سے بڑھ چڑھ کر ان کے ہم پلہ بننے کے چکر میں چوں چوں کا مربہ بن کر رہ گئے ہیں ۔ ان کی ثقافت کی اندھی تقلید میں ہم اپنی ثقافت کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ہمارے یہاں اب خواتین باہر کام کرنے اور مرد کی برابری کے چکر میں اپنی حیاء کو تج رہی ہیں ۔پہلے چادر اتری اور اب دوپٹہ بھی! میڈیا کی تیز ہوائیں تو اسے کب کا اُڑا بھی چکیں ، اب گھروں میں دوپٹہ اوڑھنے کو نہیں اڑانے کو رہ گیا ہے۔ صد افسوس ! ٹی وی ریموٹ کے بٹن دباتے جائیے، چینل بدلتے جائیے اور دیکھتے جائیے پاکستانی اور غیر ملکی بلکہ مسلم اور غیر مسلم چینل میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا ۔
عورت آزادی کے نام پر اپنا تقدس کھو رہی ہے۔یہ ماڈرن ازم اس کی تذلیل کے در پے ہے۔ اپنی روایات سے دُوری اور اپنے لباس سے بے پرواہی اس کی شناخت کو مٹا رہی ہے ۔ ردائے بانو اپنی بے وقعتی پر ماتم کناں ہے ۔ ہے کوئی اس کا پرسانِ حال؟
گل بانو،
30مئی 2014
جدید زمانے میں میڈیا کی یلغار کے سامنے کھڑے ہونے اور اس کا سامنا کرنے سے قاصر رہے ہم ، وقت کے تقاضوں کو سمجھ ہی نہ پائے ابھی بھی حیراں و پریشاں، عمل کی سمت اور مسائل کا ادراک ہی نہیں ابھی تک بھی۔ دوڑو زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے ، اور یہاں پر تو دوڑنا کیا ، ابھی تک ششدر، سمجھ ابھی تک نہیں سکے کہ کیا ہاتھ ہوا ہے،مسائل کا صحیح فہم ہی نہیں تو چلنا دوڑنا کیا
 
جدید زمانے میں میڈیا کی یلغار کے سامنے کھڑے ہونے اور اس کا سامنا کرنے سے قاصر رہے ہم ، وقت کے تقاضوں کو سمجھ ہی نہ پائے ابھی بھی حیراں و پریشاں، عمل کی سمت اور مسائل کا ادراک ہی نہیں ابھی تک بھی۔ دوڑو زمانہ قیامت کی چال چل گیا ہے ، اور یہاں پر تو دوڑنا کیا ، ابھی تک ششدر، سمجھ ابھی تک نہیں سکے کہ کیا ہاتھ ہوا ہے،مسائل کا صحیح فہم ہی نہیں تو چلنا دوڑنا کیا

مادر پدر آزادی
 
Top