محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ہائی بریڈ نظام یا جمہور کی بالادستی
وزیر اعظم کھلا اشارہ دے رہے ہیں کہ ملک میں پارلیمان اور عوام سیاسی قیادت چننے کے بارے میں صرف تماشائی ہیں اور پسندیدہ اور ایماندار سیاسی قیادت کے بارے میں اصل فیصلہ فوج ہی کرتی ہے۔
عاقل ندیم سابق سفیر @aqilnadeem
سوموار 5 اکتوبر 2020 10:45
(اے پی)
یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
سابق وزیراعظم نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، مریم نواز شریف، شیخ رشید اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے پچھلے کچھ دنوں کے بیانات سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ پاکستان میں رائج ’ہائبرڈ نظام‘ کتنا مخلوط ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے مختلف بیانات اس بیانیے کو تقویت بخشتے ہیں جب وہ کھل کر کہتے ہیں کہ جنرل انہیں اس لیے نہیں پکڑتے کہ وہ بدعنوان نہیں اور نواز شریف اور اپوزیشن اس وجہ سے گرفت میں ہیں کیونکہ فوج ان کی بدعنوانیوں کو پکڑ لیتی ہے۔ وہ کھلا اشارہ دے رہے ہیں کہ ملک عزیز میں پارلیمان اور عوام سیاسی قیادت چننے کے بارے میں صرف تماشائی ہیں اور پسندیدہ اور ایماندار سیاسی قیادت کے بارے میں اصل فیصلہ فوج ہی کرتی ہے۔ اس سے پہلے جمہوری دور میں فوج کا نام لے کر ایسی کھلی گرما گرم بحث اپوزیشن، حکومت اور فوج نے کبھی نہیں کی تھی۔
فوج کا پاکستانی سیاست میں کردار کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ملک کی آدھی زندگی میں تو فوجی جنرل براہ راست حکمرانی کرتے رہے اور باقی ماندہ سالوں میں انہوں نے اپنی سیاست سے دلچسپی چھپانے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کا آئی جے آئی کا بنانا اور سیاست دانوں میں پیسے تقسیم کرنا اب کوئی خفیہ بات نہیں رہی۔ اسی طرح انتخابات میں مداخلت اور مثبت نتائج حاصل کرنا کسی سے چھپا ہوا نہیں۔
سابق آمر جنرل مشرف نے انتخابی تقدس کا مذاق اڑاتے ہوئے کھلے عام ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ عمران خان کو نو دس نشستیں دینے کے لیے تیار تھے جب کہ عمران خان کا مطالبہ زیادہ نشستوں کا تھا۔ اسی طرح موجودہ حکومت میں شامل چوہدری پرویز الہی کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ جنرل پاشا نے انہیں پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لیے کہا اور کیسے وہ پی ایم ایل کیو کو توڑنے کی کوششیں کرتے رہے۔
پی ٹی آئی کے دھرنے اور اس سیاسی شدت پسندی کے دوران ایجنسیوں کا کردار اب کھل کر سامنے آ چکا ہے جس میں جنرل ظہیر الاسلام کا سابق وزیر اعظم کو استعفے تک دینے کا مطالبہ شامل ہے۔ بلوچستان حکومت گرانے میں سابق وزیر اعظم نے کھل کر سابق کور کمانڈر جنرل عاصم باجوہ کا نام لیا ہے۔ ڈان لیکس میں فوجی ترجمان کی حکومتی نوٹیفیکیشن کو مسترد کرنے کی ٹویٹ سیاسی معاملات میں مداخلت اور سیاسی حکومت کی سبکی کرنے کی واضح کوشش سمجھی گئیں۔
ان سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ مختلف عسکری ادارے مبینہ طور پر اپنے جنرلز کی تعریف و توصیف کے لیے تشہیری مہم بھی چلاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ’شکریہ راحیل شریف‘ مہم سرفہرست رہی ہے۔ ایک سرکاری ادارے کے سربراہ کو اپنی تعریف و توصیف میں لوگوں کے ذہن ہموار کرنے کی کیوں ضرورت پڑی۔ کیا یہ حکومتی اداروں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے؟ نواز شریف کی حالیہ جارحانہ تقریروں کے بعد سخت حفاظتی ریڈ زون کے ڈی چوک میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے تعریفی بینز یکایک کون آویزاں کر دیتا ہے۔ ان کی کیوں ضرورت پڑتی ہے؟
ہماری تاریخ میں سول ملٹری تعلقات اس قدر پست درجہ پر کبھی بھی نہ تھے۔ سیاسی معاملات میں اس قدر بلاججھک اور بےباک مداخلت کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اس قدر کھلے پیمانے پر اور عام عوام کی سطح پر ان تعلقات اور مداخلت پر گرماگرم بحث کبھی بھی سننے میں نہیں آئی۔ اس بحث نے ناصرف ان قومی اداروں کی توقیر میں کمی کی ہے بلکہ ان پیشہ ور جوانوں کی قربانیوں کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے جن کا سیاست میں کوئی دخل نہیں۔
مزید پڑھیے
کبھی نواز شریف لاڈلے تھے اور اب نیا لاڈلا عمران خان ہے۔ اداروں کو لاڈلوں کا کھیل بند کرنا ہوگا اور عوام کی رائے کو مقدم جاننا اور ماننا ہو گا۔ جمہور کی آواز کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بند کرنی ہوں گی۔ اب ہم ملک کی سیاسی سلامتی کے معاملے میں ایک خطرناک موڑ پر آ گئے ہیں جس میں پارلیمان میں 65 فیصد سے زیادہ آبادی کی نمائندہ جماعتیں اس ہائبریڈ نظام کا خاتمہ چاہتی ہیں اور مختلف اجتماعات میں لوگوں کی ناقابل یقین اور پریشان کن نعرہ بازی سے عوام میں ہیجان کا بھی اندازہ ہو رہا ہے جس سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ اگر طاقت کا استعمال کیا گیا تو یہ احتجاج پورے ملک میں پھیلے گا اور عوام اور اہم قومی اداروں کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا کر دے گا۔
یہ بڑھتی ہوئی خلیج کسی کے لیے بھی بہتر نہیں اور نہ ہی کوئی انقلاب یا اس کی دھمکی ملک کے مفاد میں ہے۔ اس لیے اب یہ ضروری ہے کہ عوام کی نمائندہ پارٹیاں/پارلیمان اور فوج کے درمیان ایک میثاق کیا جائے جس کے تحت ملک میں حکمرانی کے نئے اصول وضع کیے جائیں اور حدود و قیود طے کی جائیں۔ یہ بھی طے کیا جائے کہ عوامی نمائندوں کو آئین و قانون کے تحت حق حکمرانی ہوگا اور ادارے آئین کے اندر رہتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کو حکومت چلانے دیں گے۔
ساری مہذب اور جمہوری دنیا میں قومی ادارے اپنے منتخب حکمرانوں کو اپنے محکمے کے کام کے بارے میں ماہرانہ مشورے دیتے ہیں۔ یہی طریقہ کار جمہوریہ پاکستان میں بھی رائج ہونا چاہیے۔ تمام حکمران اداروں کی ماہرانہ رائے کا خیال رکھتے ہیں اور اسے فیصلے کرتے ہوئے زیر نظر رکھتے ہیں مگر انہیں ویٹو کا حق کبھی بھی نہیں دیتے کیونکہ یہ حق صرف منتخب نمائندوں کا ہے۔
قوموں کو مسلح ادارے متحد نہیں رکھتے بلکہ قوم اس وقت اکٹھی ہوتی ہے جب اسے یہ احساس ہو جائے کہ وہ ملک کی قسمت کے فیصلوں میں، ترقی اور اس کے ثمرات میں برابر کے شریک ہیں۔ طاقت یا غیر برابری کی بنیاد پر کوئی شراکت لمبے عرصے نہیں چلتی اور ایسا انتظام پاکستان کو ایک مسلسل بحران میں مبتلا رکھے گا۔ ہمیں جتنا جلدی اس سنگین غلطی کا احساس ہو جائے تو بہتر ہے۔
نوٹ: اس تحریر میں دی جانے والی رائے صاحب مضمون کی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
وزیر اعظم کھلا اشارہ دے رہے ہیں کہ ملک میں پارلیمان اور عوام سیاسی قیادت چننے کے بارے میں صرف تماشائی ہیں اور پسندیدہ اور ایماندار سیاسی قیادت کے بارے میں اصل فیصلہ فوج ہی کرتی ہے۔
عاقل ندیم سابق سفیر @aqilnadeem
سوموار 5 اکتوبر 2020 10:45
(اے پی)
یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
سابق وزیراعظم نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، مریم نواز شریف، شیخ رشید اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے پچھلے کچھ دنوں کے بیانات سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ پاکستان میں رائج ’ہائبرڈ نظام‘ کتنا مخلوط ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے مختلف بیانات اس بیانیے کو تقویت بخشتے ہیں جب وہ کھل کر کہتے ہیں کہ جنرل انہیں اس لیے نہیں پکڑتے کہ وہ بدعنوان نہیں اور نواز شریف اور اپوزیشن اس وجہ سے گرفت میں ہیں کیونکہ فوج ان کی بدعنوانیوں کو پکڑ لیتی ہے۔ وہ کھلا اشارہ دے رہے ہیں کہ ملک عزیز میں پارلیمان اور عوام سیاسی قیادت چننے کے بارے میں صرف تماشائی ہیں اور پسندیدہ اور ایماندار سیاسی قیادت کے بارے میں اصل فیصلہ فوج ہی کرتی ہے۔ اس سے پہلے جمہوری دور میں فوج کا نام لے کر ایسی کھلی گرما گرم بحث اپوزیشن، حکومت اور فوج نے کبھی نہیں کی تھی۔
فوج کا پاکستانی سیاست میں کردار کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ملک کی آدھی زندگی میں تو فوجی جنرل براہ راست حکمرانی کرتے رہے اور باقی ماندہ سالوں میں انہوں نے اپنی سیاست سے دلچسپی چھپانے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کا آئی جے آئی کا بنانا اور سیاست دانوں میں پیسے تقسیم کرنا اب کوئی خفیہ بات نہیں رہی۔ اسی طرح انتخابات میں مداخلت اور مثبت نتائج حاصل کرنا کسی سے چھپا ہوا نہیں۔
سابق آمر جنرل مشرف نے انتخابی تقدس کا مذاق اڑاتے ہوئے کھلے عام ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ عمران خان کو نو دس نشستیں دینے کے لیے تیار تھے جب کہ عمران خان کا مطالبہ زیادہ نشستوں کا تھا۔ اسی طرح موجودہ حکومت میں شامل چوہدری پرویز الہی کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ جنرل پاشا نے انہیں پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لیے کہا اور کیسے وہ پی ایم ایل کیو کو توڑنے کی کوششیں کرتے رہے۔
پی ٹی آئی کے دھرنے اور اس سیاسی شدت پسندی کے دوران ایجنسیوں کا کردار اب کھل کر سامنے آ چکا ہے جس میں جنرل ظہیر الاسلام کا سابق وزیر اعظم کو استعفے تک دینے کا مطالبہ شامل ہے۔ بلوچستان حکومت گرانے میں سابق وزیر اعظم نے کھل کر سابق کور کمانڈر جنرل عاصم باجوہ کا نام لیا ہے۔ ڈان لیکس میں فوجی ترجمان کی حکومتی نوٹیفیکیشن کو مسترد کرنے کی ٹویٹ سیاسی معاملات میں مداخلت اور سیاسی حکومت کی سبکی کرنے کی واضح کوشش سمجھی گئیں۔
ان سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ مختلف عسکری ادارے مبینہ طور پر اپنے جنرلز کی تعریف و توصیف کے لیے تشہیری مہم بھی چلاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ’شکریہ راحیل شریف‘ مہم سرفہرست رہی ہے۔ ایک سرکاری ادارے کے سربراہ کو اپنی تعریف و توصیف میں لوگوں کے ذہن ہموار کرنے کی کیوں ضرورت پڑی۔ کیا یہ حکومتی اداروں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے؟ نواز شریف کی حالیہ جارحانہ تقریروں کے بعد سخت حفاظتی ریڈ زون کے ڈی چوک میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے تعریفی بینز یکایک کون آویزاں کر دیتا ہے۔ ان کی کیوں ضرورت پڑتی ہے؟
ہماری تاریخ میں سول ملٹری تعلقات اس قدر پست درجہ پر کبھی بھی نہ تھے۔ سیاسی معاملات میں اس قدر بلاججھک اور بےباک مداخلت کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اس قدر کھلے پیمانے پر اور عام عوام کی سطح پر ان تعلقات اور مداخلت پر گرماگرم بحث کبھی بھی سننے میں نہیں آئی۔ اس بحث نے ناصرف ان قومی اداروں کی توقیر میں کمی کی ہے بلکہ ان پیشہ ور جوانوں کی قربانیوں کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے جن کا سیاست میں کوئی دخل نہیں۔
مزید پڑھیے
-
'سیاست میں ملوث فوجیوں کے خلاف کارروائی کی جائے' -
سیاسی کلچر میں بیانیہ کی سیاست -
بلوچستان: سیاست اور جرائم کا اتحاد -
بولیویا: فوج نے صدر سے استعفیٰ دلوا دیا
کبھی نواز شریف لاڈلے تھے اور اب نیا لاڈلا عمران خان ہے۔ اداروں کو لاڈلوں کا کھیل بند کرنا ہوگا اور عوام کی رائے کو مقدم جاننا اور ماننا ہو گا۔ جمہور کی آواز کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بند کرنی ہوں گی۔ اب ہم ملک کی سیاسی سلامتی کے معاملے میں ایک خطرناک موڑ پر آ گئے ہیں جس میں پارلیمان میں 65 فیصد سے زیادہ آبادی کی نمائندہ جماعتیں اس ہائبریڈ نظام کا خاتمہ چاہتی ہیں اور مختلف اجتماعات میں لوگوں کی ناقابل یقین اور پریشان کن نعرہ بازی سے عوام میں ہیجان کا بھی اندازہ ہو رہا ہے جس سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ اگر طاقت کا استعمال کیا گیا تو یہ احتجاج پورے ملک میں پھیلے گا اور عوام اور اہم قومی اداروں کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا کر دے گا۔
یہ بڑھتی ہوئی خلیج کسی کے لیے بھی بہتر نہیں اور نہ ہی کوئی انقلاب یا اس کی دھمکی ملک کے مفاد میں ہے۔ اس لیے اب یہ ضروری ہے کہ عوام کی نمائندہ پارٹیاں/پارلیمان اور فوج کے درمیان ایک میثاق کیا جائے جس کے تحت ملک میں حکمرانی کے نئے اصول وضع کیے جائیں اور حدود و قیود طے کی جائیں۔ یہ بھی طے کیا جائے کہ عوامی نمائندوں کو آئین و قانون کے تحت حق حکمرانی ہوگا اور ادارے آئین کے اندر رہتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کو حکومت چلانے دیں گے۔
ساری مہذب اور جمہوری دنیا میں قومی ادارے اپنے منتخب حکمرانوں کو اپنے محکمے کے کام کے بارے میں ماہرانہ مشورے دیتے ہیں۔ یہی طریقہ کار جمہوریہ پاکستان میں بھی رائج ہونا چاہیے۔ تمام حکمران اداروں کی ماہرانہ رائے کا خیال رکھتے ہیں اور اسے فیصلے کرتے ہوئے زیر نظر رکھتے ہیں مگر انہیں ویٹو کا حق کبھی بھی نہیں دیتے کیونکہ یہ حق صرف منتخب نمائندوں کا ہے۔
قوموں کو مسلح ادارے متحد نہیں رکھتے بلکہ قوم اس وقت اکٹھی ہوتی ہے جب اسے یہ احساس ہو جائے کہ وہ ملک کی قسمت کے فیصلوں میں، ترقی اور اس کے ثمرات میں برابر کے شریک ہیں۔ طاقت یا غیر برابری کی بنیاد پر کوئی شراکت لمبے عرصے نہیں چلتی اور ایسا انتظام پاکستان کو ایک مسلسل بحران میں مبتلا رکھے گا۔ ہمیں جتنا جلدی اس سنگین غلطی کا احساس ہو جائے تو بہتر ہے۔
نوٹ: اس تحریر میں دی جانے والی رائے صاحب مضمون کی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔