؁ہائی برڈ نظام یا جمہور کی بالا دستی

ہائی بریڈ نظام یا جمہور کی بالادستی
وزیر اعظم کھلا اشارہ دے رہے ہیں کہ ملک میں پارلیمان اور عوام سیاسی قیادت چننے کے بارے میں صرف تماشائی ہیں اور پسندیدہ اور ایماندار سیاسی قیادت کے بارے میں اصل فیصلہ فوج ہی کرتی ہے۔

عاقل ندیم
سابق سفیر @aqilnadeem
سوموار 5 اکتوبر 2020 10:45
sharethis.svg

111776-890882755.jpg



(اے پی)

یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
















سابق وزیراعظم نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، مریم نواز شریف، شیخ رشید اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے پچھلے کچھ دنوں کے بیانات سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ پاکستان میں رائج ’ہائبرڈ نظام‘ کتنا مخلوط ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے مختلف بیانات اس بیانیے کو تقویت بخشتے ہیں جب وہ کھل کر کہتے ہیں کہ جنرل انہیں اس لیے نہیں پکڑتے کہ وہ بدعنوان نہیں اور نواز شریف اور اپوزیشن اس وجہ سے گرفت میں ہیں کیونکہ فوج ان کی بدعنوانیوں کو پکڑ لیتی ہے۔ وہ کھلا اشارہ دے رہے ہیں کہ ملک عزیز میں پارلیمان اور عوام سیاسی قیادت چننے کے بارے میں صرف تماشائی ہیں اور پسندیدہ اور ایماندار سیاسی قیادت کے بارے میں اصل فیصلہ فوج ہی کرتی ہے۔ اس سے پہلے جمہوری دور میں فوج کا نام لے کر ایسی کھلی گرما گرم بحث اپوزیشن، حکومت اور فوج نے کبھی نہیں کی تھی۔

فوج کا پاکستانی سیاست میں کردار کچھ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ملک کی آدھی زندگی میں تو فوجی جنرل براہ راست حکمرانی کرتے رہے اور باقی ماندہ سالوں میں انہوں نے اپنی سیاست سے دلچسپی چھپانے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کا آئی جے آئی کا بنانا اور سیاست دانوں میں پیسے تقسیم کرنا اب کوئی خفیہ بات نہیں رہی۔ اسی طرح انتخابات میں مداخلت اور مثبت نتائج حاصل کرنا کسی سے چھپا ہوا نہیں۔

سابق آمر جنرل مشرف نے انتخابی تقدس کا مذاق اڑاتے ہوئے کھلے عام ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ عمران خان کو نو دس نشستیں دینے کے لیے تیار تھے جب کہ عمران خان کا مطالبہ زیادہ نشستوں کا تھا۔ اسی طرح موجودہ حکومت میں شامل چوہدری پرویز الہی کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ جنرل پاشا نے انہیں پی ٹی آئی میں شامل ہونے کے لیے کہا اور کیسے وہ پی ایم ایل کیو کو توڑنے کی کوششیں کرتے رہے۔

پی ٹی آئی کے دھرنے اور اس سیاسی شدت پسندی کے دوران ایجنسیوں کا کردار اب کھل کر سامنے آ چکا ہے جس میں جنرل ظہیر الاسلام کا سابق وزیر اعظم کو استعفے تک دینے کا مطالبہ شامل ہے۔ بلوچستان حکومت گرانے میں سابق وزیر اعظم نے کھل کر سابق کور کمانڈر جنرل عاصم باجوہ کا نام لیا ہے۔ ڈان لیکس میں فوجی ترجمان کی حکومتی نوٹیفیکیشن کو مسترد کرنے کی ٹویٹ سیاسی معاملات میں مداخلت اور سیاسی حکومت کی سبکی کرنے کی واضح کوشش سمجھی گئیں۔

ان سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ مختلف عسکری ادارے مبینہ طور پر اپنے جنرلز کی تعریف و توصیف کے لیے تشہیری مہم بھی چلاتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ’شکریہ راحیل شریف‘ مہم سرفہرست رہی ہے۔ ایک سرکاری ادارے کے سربراہ کو اپنی تعریف و توصیف میں لوگوں کے ذہن ہموار کرنے کی کیوں ضرورت پڑی۔ کیا یہ حکومتی اداروں کی ذمہ داریوں میں شامل ہے؟ نواز شریف کی حالیہ جارحانہ تقریروں کے بعد سخت حفاظتی ریڈ زون کے ڈی چوک میں جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے تعریفی بینز یکایک کون آویزاں کر دیتا ہے۔ ان کی کیوں ضرورت پڑتی ہے؟

ہماری تاریخ میں سول ملٹری تعلقات اس قدر پست درجہ پر کبھی بھی نہ تھے۔ سیاسی معاملات میں اس قدر بلاججھک اور بےباک مداخلت کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اس قدر کھلے پیمانے پر اور عام عوام کی سطح پر ان تعلقات اور مداخلت پر گرماگرم بحث کبھی بھی سننے میں نہیں آئی۔ اس بحث نے ناصرف ان قومی اداروں کی توقیر میں کمی کی ہے بلکہ ان پیشہ ور جوانوں کی قربانیوں کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے جن کا سیاست میں کوئی دخل نہیں۔

مزید پڑھیے
پچھلی کئی دہائیوں کے تجربے سے واضح ہو گیا ہے کہ فوجی نظام، نیم فوجی نظام اور جمہوری نظام اس عدم توازن اور مداخلتوں کی وجہ سے پاکستان میں ناکام ہو چکے ہیں اور انہوں نے ہمیں سوائے سیاسی عدم استحکام کے کچھ بھی نہیں دیا۔ اس بندوبست نے ملک کو دو لخت کیا اور اب ایک صوبے میں فعال بےچینی کو فروغ دے رہا ہے۔ اس نظام نے کسی بھی وزیر اعظم کو چین سے حکمرانی کرنے نہیں دیا اور یقینا یہی حال تمام منصوبہ بندیوں کے باوجود موجودہ وزیراعظم کے ساتھ بھی ممکن ہے۔ سیاسی حالات بدلنے میں دیر نہیں لگتی اور آج کے چہیتے اور لاڈلے کل کے ملک دشمن بھی قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اب یہ کھیل ختم کیا جائے۔ یہ تماشہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا اور اگر اسے اسی طرح چلانے کی کوشش کی گئی تو یہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گا۔

کبھی نواز شریف لاڈلے تھے اور اب نیا لاڈلا عمران خان ہے۔ اداروں کو لاڈلوں کا کھیل بند کرنا ہوگا اور عوام کی رائے کو مقدم جاننا اور ماننا ہو گا۔ جمہور کی آواز کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بند کرنی ہوں گی۔ اب ہم ملک کی سیاسی سلامتی کے معاملے میں ایک خطرناک موڑ پر آ گئے ہیں جس میں پارلیمان میں 65 فیصد سے زیادہ آبادی کی نمائندہ جماعتیں اس ہائبریڈ نظام کا خاتمہ چاہتی ہیں اور مختلف اجتماعات میں لوگوں کی ناقابل یقین اور پریشان کن نعرہ بازی سے عوام میں ہیجان کا بھی اندازہ ہو رہا ہے جس سے یہ قیاس کرنا مشکل نہیں کہ اگر طاقت کا استعمال کیا گیا تو یہ احتجاج پورے ملک میں پھیلے گا اور عوام اور اہم قومی اداروں کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا کر دے گا۔

یہ بڑھتی ہوئی خلیج کسی کے لیے بھی بہتر نہیں اور نہ ہی کوئی انقلاب یا اس کی دھمکی ملک کے مفاد میں ہے۔ اس لیے اب یہ ضروری ہے کہ عوام کی نمائندہ پارٹیاں/پارلیمان اور فوج کے درمیان ایک میثاق کیا جائے جس کے تحت ملک میں حکمرانی کے نئے اصول وضع کیے جائیں اور حدود و قیود طے کی جائیں۔ یہ بھی طے کیا جائے کہ عوامی نمائندوں کو آئین و قانون کے تحت حق حکمرانی ہوگا اور ادارے آئین کے اندر رہتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کو حکومت چلانے دیں گے۔

ساری مہذب اور جمہوری دنیا میں قومی ادارے اپنے منتخب حکمرانوں کو اپنے محکمے کے کام کے بارے میں ماہرانہ مشورے دیتے ہیں۔ یہی طریقہ کار جمہوریہ پاکستان میں بھی رائج ہونا چاہیے۔ تمام حکمران اداروں کی ماہرانہ رائے کا خیال رکھتے ہیں اور اسے فیصلے کرتے ہوئے زیر نظر رکھتے ہیں مگر انہیں ویٹو کا حق کبھی بھی نہیں دیتے کیونکہ یہ حق صرف منتخب نمائندوں کا ہے۔

قوموں کو مسلح ادارے متحد نہیں رکھتے بلکہ قوم اس وقت اکٹھی ہوتی ہے جب اسے یہ احساس ہو جائے کہ وہ ملک کی قسمت کے فیصلوں میں، ترقی اور اس کے ثمرات میں برابر کے شریک ہیں۔ طاقت یا غیر برابری کی بنیاد پر کوئی شراکت لمبے عرصے نہیں چلتی اور ایسا انتظام پاکستان کو ایک مسلسل بحران میں مبتلا رکھے گا۔ ہمیں جتنا جلدی اس سنگین غلطی کا احساس ہو جائے تو بہتر ہے۔

نوٹ: اس تحریر میں دی جانے والی رائے صاحب مضمون کی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

عباس اعوان

محفلین
پی ٹی آئی کے دھرنے اور اس سیاسی شدت پسندی کے دوران ایجنسیوں کا کردار اب کھل کر سامنے آ چکا ہے جس میں جنرل ظہیر الاسلام کا سابق وزیر اعظم کو استعفے تک دینے کا مطالبہ شامل ہے۔ بلوچستان حکومت گرانے میں سابق وزیر اعظم نے کھل کر سابق کور کمانڈر جنرل عاصم باجوہ کا نام لیا ہے
منتخب وزیر اعظم نے اس سلسلے میں کیا کیا؟
یا وہ خود بھی چنتخب تھے ؟
 

بابا-جی

محفلین
وُہی اِقتدار کے ایوانوں کا مکِین بنتا رہا ہے اور بنے گا جو عسکریوں کے ہر دَور کے دِیے گئے نویلے ماڈل کی نسبت سے اپنی جَون بدلے اور اپنے سسِٹم کی نئے ورژن کے ساتھ مُطابقت اور موافقت پیدا کرے اور سسٹم میں گھس بیٹھنے کی گُنجائشیں تلاش کر پائے۔ فِی زمانہ ہائبرڈ فیشن میں ہے سو اِسی کی مالا جپتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ بڑھتی ہوئی خلیج کسی کے لیے بھی بہتر نہیں اور نہ ہی کوئی انقلاب یا اس کی دھمکی ملک کے مفاد میں ہے۔ اس لیے اب یہ ضروری ہے کہ عوام کی نمائندہ پارٹیاں/پارلیمان اور فوج کے درمیان ایک میثاق کیا جائے جس کے تحت ملک میں حکمرانی کے نئے اصول وضع کیے جائیں اور حدود و قیود طے کی جائیں۔ یہ بھی طے کیا جائے کہ عوامی نمائندوں کو آئین و قانون کے تحت حق حکمرانی ہوگا اور ادارے آئین کے اندر رہتے ہوئے عوام کے منتخب نمائندوں کو حکومت چلانے دیں گے۔
بالفرض فوج یہ معاہدہ کر بھی لے تو ایسی کونسی انقلابی جمہوری عوامی قیادت دستیاب ہے جو صاف شفاف طریقہ سے الیکشن جیت کر پاکستان کے مسائل حل کر سکے گی؟ اس وقت دستیاب سیاسی قیادت میں سب ہی کئی کئی بار اقتدار میں رہ چکے ہیں۔ اور ان کے اقتدار سے نکلنے کے بعد ملک کے مسائل مزید بڑھے ہیں، کم نہیں ہوئے۔
میرے خیال میں جب تک پاکستان کو دستیاب سیاسی قیادت پہلے خود جمہوری بن کر نہیں دکھاتی، تب تک یہی ہائبرڈ نظام چلتا رہنا چاہئے۔ کیونکہ ہم ان خاندانی لمیٹڈ کمپنیز کو کہیں سے بھی جمہوری سیاسی قیادت نہیں کہہ سکتے۔ اگر عوام بھی فوج سے معاہدہ کرے کہ وہ آئندہ کسی خاندانی جماعت کو ووٹ نہیں دے گی تو پھر فوج کو عوامی نمائندوں سے یہ تجویز کر دہ معاہدہ کر لینا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کبھی نواز شریف لاڈلے تھے اور اب نیا لاڈلا عمران خان ہے۔ اداروں کو لاڈلوں کا کھیل بند کرنا ہوگا اور عوام کی رائے کو مقدم جاننا اور ماننا ہو گا۔ جمہور کی آواز کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بند کرنی ہوں گی۔ اب ہم ملک کی سیاسی سلامتی کے معاملے میں ایک خطرناک موڑ پر آ گئے ہیں جس میں پارلیمان میں 65 فیصد سے زیادہ آبادی کی نمائندہ جماعتیں اس ہائبریڈ نظام کا خاتمہ چاہتی ہیں
پارلیمان میں 65 فیصد سے زیادہ آبادی کی نمائندہ جماعتیں اس ہائبریڈ نظام کا خاتمہ اس لئے چاہتی ہیں کیونکہ اس وقت ان سب پر کرپشن کیسز چل رہے ہیں۔ اگر حکومت اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت (این آر او) کر کے ان کرپشن کیسز کو بند کر دے تو یہ سارا رونا دھونا یکدم ختم ہو جائے گا۔
تحریک انصاف حکومت کی اتنی بری کارکردگی کے باوجود اپوزیشن جماعتیں اگلے الیکشن کا انتظار اس لیے نہیں کر رہی کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ تب تک ان کی قیادت جیلوں میں ہوگی۔ اس لئے تین سال قبل ہی حکومت گرانے کیلئے سرگرم ہو گئی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہماری تاریخ میں سول ملٹری تعلقات اس قدر پست درجہ پر کبھی بھی نہ تھے۔ سیاسی معاملات میں اس قدر بلاججھک اور بےباک مداخلت کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ اس قدر کھلے پیمانے پر اور عام عوام کی سطح پر ان تعلقات اور مداخلت پر گرماگرم بحث کبھی بھی سننے میں نہیں آئی۔ اس بحث نے ناصرف ان قومی اداروں کی توقیر میں کمی کی ہے بلکہ ان پیشہ ور جوانوں کی قربانیوں کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے جن کا سیاست میں کوئی دخل نہیں۔
یہ تو بہت اچھی اور عین جمہوری بات ہے کہ کھلے عام ان رازوں پر سے پردہ اٹھ رہا ہے جسے مقتدرہ نے چھپانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ دوسرا اس وقت ملک کے وزیر اعظم کو فوجی قیادت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے جیسا کہ ماضی کے وزرا اعظم کو ہوا کرتا تھا۔ اس وقت فوجی قیادت کے رول پر اعتراضات سویلین حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن جماعتیں اٹھا رہی ہیں۔ یعنی ان کو بھی یہی تکلیف ہے کہ جب ہم اقتدار میں تھے اس وقت فوجی قیادت کے ساتھ ہمارے تعلقات آجکل کی سویلین حکومت جیسے مثالی کیوں نہیں تھے۔ اسے حسد اور جلن کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
منتخب وزیر اعظم نے اس سلسلے میں کیا کیا؟
یا وہ خود بھی چنتخب تھے ؟
منتخب وزیر اعظم جن ڈی جی آئی ایس آئی پر الزامات لگا رہے ہیں، ان کو موقع پر برطرف کرنے کی بجائے ان کی مدت ملازمت ختم ہونے پر فیئر ویل پارٹی دیتے رہے ہیں۔
Pakistan's outgoing ISI chief Zaheerul Islam meets Nawaz Sharif
شریف خاندان کھلے تضادات اور سفید جھوٹوں کا پلندہ ہے۔ اپنے کرپشن کیسز ختم کیلئے کسی حد تک بھی عوام کو بیوقوف بنا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
وُہی اِقتدار کے ایوانوں کا مکِین بنتا رہا ہے اور بنے گا جو عسکریوں کے ہر دَور کے دِیے گئے نویلے ماڈل کی نسبت سے اپنی جَون بدلے اور اپنے سسِٹم کی نئے ورژن کے ساتھ مُطابقت اور موافقت پیدا کرے اور سسٹم میں گھس بیٹھنے کی گُنجائشیں تلاش کر پائے۔ فِی زمانہ ہائبرڈ فیشن میں ہے سو اِسی کی مالا جپتے ہیں۔
ظاہر ہے جس ملک کی خارجہ، داخلہ اور اب معاشی پالیسی بھی فوج طے کرتی ہے۔ وہاں ان پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے عوامی نمائندے اقتدار میں کیسے آ سکتے ہیں؟
 

بابا-جی

محفلین
ظاہر ہے جس ملک کی خارجہ، داخلہ اور اب معاشی پالیسی بھی فوج طے کرتی ہے۔ وہاں ان پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے عوامی نمائندے اقتدار میں کیسے آ سکتے ہیں؟
فوج سے مَحبت عامۃ الناس کی سرِشت میں ہے، سو مُعتبر عوامی نُمائندہ عوام کی اُمنگوں کے برخلاف کیونکر چلے۔ محب الوطن عوام مُطالبہ کرتی ہے کہ عاصم پائین پیزوی سرکار اپنی سگی عوام کو بھی پیزے کھلائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
فوج سے مَحبت عامۃ الناس کی سرِشت میں ہے، سو مُعتبر عوامی نُمائندہ عوام کی اُمنگوں کے برخلاف کیونکر چلے۔
عوام کی اکثریت بھارت کے ساتھ مسلسل حالت جنگ، افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں عسکری مداخلت، پاکستان میں مختلف جہادی تنظیموں کے قیام کے حق میں کبھی نہیں رہی۔ یہ سب آپ کی محبوب فیصلہ ساز آئی ایس آئی کا کرشمہ ہے۔
 

بابا-جی

محفلین
عوام کی اکثریت بھارت کے ساتھ مسلسل حالت جنگ، افغانستان اور مقبوضہ کشمیر میں عسکری مداخلت، پاکستان میں مختلف جہادی تنظیموں کے قیام کے حق میں کبھی نہیں رہی۔ یہ سب آپ کی محبوب فیصلہ ساز آئی ایس آئی کا کرشمہ ہے۔
آئی ایس آئی ہماری محبُوبہ ہے اور ہم اُس کے عاشِق۔ لِفٹ کم کم کرواتی ہے۔
 
منتخب وزیر اعظم جن ڈی جی آئی ایس آئی پر الزامات لگا رہے ہیں، ان کو موقع پر برطرف کرنے کی بجائے ان کی مدت ملازمت ختم ہونے پر فیئر ویل پارٹی دیتے رہے ہیں۔
Pakistan's outgoing ISI chief Zaheerul Islam meets Nawaz Sharif
شریف خاندان کھلے تضادات اور سفید جھوٹوں کا پلندہ ہے۔ اپنے کرپشن کیسز ختم کیلئے کسی حد تک بھی عوام کو بیوقوف بنا سکتا ہے۔
آپ کی شیئر کردہ اخباری رپورٹ میں یہ نہیں لکھا جو آپ نے لکھا ہے۔ وہاں تو یہ الفاظ ہیں:

The government has appointed Lieutenant General Rizwan Akhtar as Islam’s replacement.Islam was appointed the Director General of the Inter-Services Intelligence.There were reports of Sharif’s displeasure at his alleged role in the recent protests against his government.
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کی شیئر کردہ اخباری رپورٹ میں یہ نہیں لکھا جو آپ نے لکھا ہے۔ وہاں تو یہ الفاظ ہیں:

The government has appointed Lieutenant General Rizwan Akhtar as Islam’s replacement.Islam was appointed the Director General of the Inter-Services Intelligence.There were reports of Sharif’s displeasure at his alleged role in the recent protests against his government.
ربط غلط تھا۔ صحیح ربط:
Set to retire in the next few days, Director General Inter-Services Intelligence (ISI) Lt General Zaheerul Islam paid a farewell visit to Prime Minister Nawaz Sharif on Wednesday, Express News reported
Islam will step down as the spymaster on November 7, with Lt-General Rizwan Akhtar taking his post
PM Nawaz and ISI chief discussed the ongoing political and security situation of the country, exchanging thoughts on how to handle these matters​
Farewell visit: Retiring ISI chief meets PM Nawaz | The Express Tribune
جو ماتحت سرکاری آفیسر منتخب وزیر اعظم سے چند ماہ قبل استعفی مانگے۔ وہ مدت ملازمت ختم ہونے سے چند دن قبل منتخب وزیر اعظم سے کیسے مل سکتا ہے؟ اب یا تو نواز شریف نے سفید جھوٹ بولا ہے یا پھر ان کی بعد میں ظہیر الاسلام سے صلح صفائی ہو گئی تھی۔ دونوں صورتوں میں نواز شریف بددیانت، ڈرپوک اور بزدل انسان ہے۔
 
ربط غلط تھا۔ صحیح ربط:
Set to retire in the next few days, Director General Inter-Services Intelligence (ISI) Lt General Zaheerul Islam paid a farewell visit to Prime Minister Nawaz Sharif on Wednesday, Express News reported
Islam will step down as the spymaster on November 7, with Lt-General Rizwan Akhtar taking his post
PM Nawaz and ISI chief discussed the ongoing political and security situation of the country, exchanging thoughts on how to handle these matters​
Farewell visit: Retiring ISI chief meets PM Nawaz | The Express Tribune
جو ماتحت سرکاری آفیسر منتخب وزیر اعظم سے چند ماہ قبل استعفی مانگے۔ وہ مدت ملازمت ختم ہونے سے چند دن قبل منتخب وزیر اعظم سے کیسے مل سکتا ہے؟ اب یا تو نواز شریف نے سفید جھوٹ بولا ہے یا پھر ان کی بعد میں ظہیر الاسلام سے صلح صفائی ہو گئی تھی۔ دونوں صورتوں میں نواز شریف بددیانت، ڈرپوک اور بزدل انسان ہے۔
آپ کے اس اقتباس سے بھی یہ نہیں پتہ چلتا کہ نواز شریف نے جنرل صاحب کو فیئر ویل پارٹی دی ہو۔ نیز فوج کا ایک رول چلا آیا ہے اس تناظر میں بھی آپ کا آخری پیراگراف غیر ضروری تبصرہ بنتا ہے۔
 
Top