نعیم ملک
محفلین
غزل چونکہ معاملات مہر و محبت اور واردات عشق و عاشقی کی داستا ن ہے شعراء حضرات ہمیشہ سے حسن فطرت کے ساتھ ساتھ اپنے مجاذی محبوب کی تعریف میں رطب اللسان رہے ہیں۔ شاعری میں محبوب کےحسن و جمال کا موضوع بڑا اہم ہے۔شعراء نے واقعیت اور تخیل کی مدد سے اپنے محبوب کے حسن کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کی ہے ان کے اشعار سے محبوب کی ایک خوبصورت تصویریں بنتی ہیں۔ شعراء کے لئے محبوب کے مکھ میں سب سے زیادہ دلکشی ہے یہ مکھ حسن کا دریا ہے۔ اس کی جھلک سے آفتاب شرمندہ و بے تاب ہے۔اس کے بعد درجہ بدرجہ آنکھ ، اور اب ، خال اور قد غرض سراپائے جسم کی تعریف و توصیف بہت عمدہ پیرائے میں بیان کی جاتی ہے۔
شعراء حضرات نے بال کو گیسو ، زلف ، کاکل وغیرہ وغیرہ سے یاد کیا ہے۔ اور اپنے فرضی محبوب کی تعریف میں بالوں کو سنبل ، سانپ ، ناگن ، زنجیر ، سائباں ، بادل ، رات کا اندھیرا اور ساون کی گھٹا جیسے استعاروں سے تشبیہ دی ہے۔ اس کے علاوہ شعری انداز میں بھی تعریف کے ڈونگرے برسائے ہیں ۔۔۔ مثلاً
رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
اسی طرح محبوب کی آنکھیں اس کی دلی کیفیات کی غماز ہوتی ہیں، چنانچہ شاعروں نے محبوب کی آنکھوں پر لاتعداد شعر کہے ہیں اور ان میں جھیل، تالاب اور سمندر ہی نہیں بلکہ بہت سے سربستہ راز، گمنام جزیرے، انجان خواب، اجنبی سائے، نیند، پیاس، شراب، پیالے، کٹورے، اور دوسرے کئی برتن خود بھی دیکھے ہیں اور اپنے سامعین و قارئین کو بھی دیکھنے کی پر زور سفارش و تلقین کی ہے۔ کچھ اشعار دیکھیے۔ان کی آنکھیں یہ کہتی پھرتی ہیں
لوگ ناحق شراب پیتے ہیں
-----------------------
اس کی کالی آنکھوں میں ہیں انتر منتر سب
چاقو واقو، چھریاں وُ ریاں، خنجر ونجر سب
-----------------------
دیکھ لے شیخ گر تیری آنکھیں
پارسائی خراب ہو جائے
--------------------------
اسکی آنکھیں بتاؤں کیسی ھیں؟
جھیل سیف الملوک جیسی ہیں
---------------------------
گلاب آنکھیں شراب آنکھیں,
یہی تو ہیں لاجواب آنکھیں
انہیں میں الفت انہیں میں نفرت
سوال آنکھیں عذاب آنکھیں
کبھی نظر میں بلا کی شوخی
کبھی سراپا حجاب آنکھیں
کبھی چھپاتی ہیں راز دل کے
کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں
کسی نے دیکھیں تو جھیل جیسی
کسی نے پائی شراب آنکھیں
وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے
حضور آنکھیں جناب آنکھیں
عجب تھا یہ گفتگو کا عالم
سوال کوئی جواب آنکھیں
یہ مست مست بے مثال آنکھیں
نشے سے ہر دم نڈھال آنکھیں
اٹھیں تو ہوش و حواس چھینیں
گریں تو کر دیں کمال آنکھیں
کوئی ہے انکے کراہ کا طالب
کسی کا شوق وصال آنکھیں
نہ یوں جلیں نہ یوں ستائیں
کریں تو کچھ یہ خیال آنکھیں
ہیں جینے کا اک بہانہ یارو
یہ روح پرور جمال آنکھیں
درّاز پلکیں وصال آنکھیں
مصوری کا کمال آنکھیں
شراب رب نے حرام کر دی
مگر کیوں رکھی حلال آنکھیں
ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں
خدا کے بندے سنبھال آنکھیں.
-------------------------------
اگر ہونٹوں کی بات ہو جائے تو ان کی تعریف میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
--------------------------
مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے وہ ہیں محو آرائش
ادھر ہونٹوں کی لالی ہے ادھر جانوں کے لالے ہیں
---------------------------------
بات کو زلف یار کی طرح طول دینے کی بجائے لمحہء وصال کی طرح مختصر کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ شعراء نےمحبوب کے مختلف اعضائے جسمانی کا بہت خوبصورتی کے ساتھ نقشہ کھنچنے کی کوشش کی ہے۔ اردو محفل کے تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ ایسے تمام اشعار اور غزلیں جس میں محبوب کی تعریف کی گئی ہو اس دھاگہ میں پوسٹ کریں۔ شکریہ
شعراء حضرات نے بال کو گیسو ، زلف ، کاکل وغیرہ وغیرہ سے یاد کیا ہے۔ اور اپنے فرضی محبوب کی تعریف میں بالوں کو سنبل ، سانپ ، ناگن ، زنجیر ، سائباں ، بادل ، رات کا اندھیرا اور ساون کی گھٹا جیسے استعاروں سے تشبیہ دی ہے۔ اس کے علاوہ شعری انداز میں بھی تعریف کے ڈونگرے برسائے ہیں ۔۔۔ مثلاً
- زلف جاں سے ملی فکر و نظر کی چاندنی
- زلفوں کے پیچ و خم میں یہ عارض کی دھوپ چھاؤں
- کس نے کھولا ہے ہوا میں گیسوؤں کو ناز سے
- اڑی زلف چہرے پہ اس طرح کہ شبوں کے راز مچل گئے
رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
اسی طرح محبوب کی آنکھیں اس کی دلی کیفیات کی غماز ہوتی ہیں، چنانچہ شاعروں نے محبوب کی آنکھوں پر لاتعداد شعر کہے ہیں اور ان میں جھیل، تالاب اور سمندر ہی نہیں بلکہ بہت سے سربستہ راز، گمنام جزیرے، انجان خواب، اجنبی سائے، نیند، پیاس، شراب، پیالے، کٹورے، اور دوسرے کئی برتن خود بھی دیکھے ہیں اور اپنے سامعین و قارئین کو بھی دیکھنے کی پر زور سفارش و تلقین کی ہے۔ کچھ اشعار دیکھیے۔ان کی آنکھیں یہ کہتی پھرتی ہیں
لوگ ناحق شراب پیتے ہیں
-----------------------
اس کی کالی آنکھوں میں ہیں انتر منتر سب
چاقو واقو، چھریاں وُ ریاں، خنجر ونجر سب
-----------------------
دیکھ لے شیخ گر تیری آنکھیں
پارسائی خراب ہو جائے
--------------------------
اسکی آنکھیں بتاؤں کیسی ھیں؟
جھیل سیف الملوک جیسی ہیں
---------------------------
گلاب آنکھیں شراب آنکھیں,
یہی تو ہیں لاجواب آنکھیں
انہیں میں الفت انہیں میں نفرت
سوال آنکھیں عذاب آنکھیں
کبھی نظر میں بلا کی شوخی
کبھی سراپا حجاب آنکھیں
کبھی چھپاتی ہیں راز دل کے
کبھی ہیں دل کی کتاب آنکھیں
کسی نے دیکھیں تو جھیل جیسی
کسی نے پائی شراب آنکھیں
وہ آئے تو لوگ مجھ سے بولے
حضور آنکھیں جناب آنکھیں
عجب تھا یہ گفتگو کا عالم
سوال کوئی جواب آنکھیں
یہ مست مست بے مثال آنکھیں
نشے سے ہر دم نڈھال آنکھیں
اٹھیں تو ہوش و حواس چھینیں
گریں تو کر دیں کمال آنکھیں
کوئی ہے انکے کراہ کا طالب
کسی کا شوق وصال آنکھیں
نہ یوں جلیں نہ یوں ستائیں
کریں تو کچھ یہ خیال آنکھیں
ہیں جینے کا اک بہانہ یارو
یہ روح پرور جمال آنکھیں
درّاز پلکیں وصال آنکھیں
مصوری کا کمال آنکھیں
شراب رب نے حرام کر دی
مگر کیوں رکھی حلال آنکھیں
ہزاروں ان سے قتل ہوئے ہیں
خدا کے بندے سنبھال آنکھیں.
-------------------------------
اگر ہونٹوں کی بات ہو جائے تو ان کی تعریف میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
--------------------------
مریضوں کا دم آنکھوں میں ہے وہ ہیں محو آرائش
ادھر ہونٹوں کی لالی ہے ادھر جانوں کے لالے ہیں
---------------------------------
بات کو زلف یار کی طرح طول دینے کی بجائے لمحہء وصال کی طرح مختصر کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ شعراء نےمحبوب کے مختلف اعضائے جسمانی کا بہت خوبصورتی کے ساتھ نقشہ کھنچنے کی کوشش کی ہے۔ اردو محفل کے تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ ایسے تمام اشعار اور غزلیں جس میں محبوب کی تعریف کی گئی ہو اس دھاگہ میں پوسٹ کریں۔ شکریہ