آؤ حسنِ یار کی باتیں کریں۔۔

تکلم۔

محفلین
‏یاقوت سا چہرا احمریں سا بدن
‏نیلم سی زلفیں زمرد سی آنکھیں

‏ہونٹوں کی نرمی گلاب کی پنکھڑی
‏گل گُلُنار سے گال پتلی سی ناک

‏چاند پیشانی تبسم ترازو ٹھوڑی
‏ترنگ صراحی گردن کمان سی کمر

‏ گلابی ہتھیلی رشمی شاہی
‏پاؤں
‏افسانہ سی پلکیں غزال نظریں

‏پاکیزگی کمال حُسن سا جمال
‏کیاکیا سناوں اپنے محبوب کے قصے
‏⁧‫
خاکسار
 
یاقوت سا چہرا
‏یاقوت سا چہرا احمریں سا بدن
‏نیلم سی زلفیں زمرد سی آنکھیں

‏ہونٹوں کی نرمی گلاب کی پنکھڑی
‏گل گُلُنار سے گال پتلی سی ناک

‏چاند پیشانی تبسم ترازو ٹھوڑی
‏ترنگ صراحی گردن کمان سی کمر

‏ گلابی ہتھیلی رشمی شاہی
‏پاؤں
‏افسانہ سی پلکیں غزال نظریں

‏پاکیزگی کمال حُسن سا جمال
‏کیاکیا سناوں اپنے محبوب کے قصے
‏⁧‫
خاکسار
‏یاقوت سا چہرا احمریں سا بدن
‏نیلم سی زلفیں زمرد سی آنکھیں

‏ہونٹوں کی نرمی گلاب کی پنکھڑی
‏گل گُلُنار سے گال پتلی سی ناک

‏چاند پیشانی تبسم ترازو ٹھوڑی
‏ترنگ صراحی گردن کمان سی کمر

‏ گلابی ہتھیلی رشمی شاہی
‏پاؤں
‏افسانہ سی پلکیں غزال نظریں

‏پاکیزگی کمال حُسن سا جمال
‏کیاکیا سناوں اپنے محبوب کے قصے

کمال کی تعریف ہے ‏⁧‫حُسن یار کی
بہت عمدہ انتخاب ہے
 
شہزاد قیس صاحب کی تازہ غزل

سیاہ زُلف: گھٹا ، جال ، جادُو ، جنگ ، جلال
فُسُوں ، شباب ، شکارَن ، شراب ، رات گھنی

جبیں: چراغ ، مقدر ، کشادہ ، دُھوپ ، سَحَر
غُرُور ، قہر ، تعجب ، کمال ، نُور بھری

پَلک: فسانہ ، شرارت ، حجاب ، تیر ، دُعا
تمنا ، نیند ، اِشارہ ، خمار ، سخت تھکی

نظر: غزال ، محبت ، نقاب ، جھیل ، اَجل
سُرُور ، عشق ، تقدس ، فریبِ اَمر و نہی

نفیس ناک: نزاکت ، صراط ، عدل ، بہار
جمیل ، سُتواں ، معطر ، لطیف ، خوشبو رَچی

گلابی گال: شَفَق ، سیب ، سرخی ، غازہ ، کنول
طلسم ، چاہ ، بھنور ، ناز ، شرم ، نرم گِری

دو لب: عقیق ، گُہر ، پنکھڑی ، شرابِ کُہن
لذیذ ، نرم ، ملائم ، شریر ، بھیگی کلی

نشیلی ٹھوڑی: تبسم ، ترازُو ، چاہِ ذَقن
خمیدہ ، خنداں ، خجستہ ، خمار ، پتلی گلی

گلا: صراحی ، نوا ، گیت ، سوز ، آہ ، اَثر
ترنگ ، چیخ ، ترنم ، ترانہ ، سُر کی لڑی

ہتھیلی: ریشمی ، نازُک ، مَلائی ، نرم ، لطیف
حسین ، مرمریں ، صندل ، سفید ، دُودھ دُھلی

کمر: خیال ، مٹکتی کلی ، لچکتا شباب
کمان ، ٹوٹتی اَنگڑائی ، حشر ، جان کنی

پری کے پاؤں: گلابی ، گداز ، رَقص پرست
تڑپتی مچھلیاں ، محرابِ لب ، تھرکتی کلی

شہزاد قیس
واہ جانب، کیا کہنے
 
اس کی آنکھوں پہ وار دیں آنکھیں
اک نظر ہی میں ہار دیں آنکھیں

دل مجھے اس نے بے قرار دیا
اور بے اختیار دیں آنکھیں

پہلے چہرہ چھپا لیا اس نے
بعد میں اشتہار دیں آنکھیں

دل وہیں رہ گیا جہاں ہم نے
سرسری سی گزار دیں آنکھیں

خواب میرے چرا لئے اس نے
جس کو میں نے ادھار دیں آنکھیں

میں نے آنکھوں میں جھانکنا چاہا
اس نے دل میں اتار دیں آنکھیں

میں تو خاموش ہی رہا لیکن
وقت رخصت پکار دیں آنکھیں

تو بھی مومنؔ کمال کرتا ہے
تو نے سورج سے چار دیں آنکھیں
 
پہلے آپ کو حُسنِ تحریر کے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے - آپ گر ھ سے. "حُسن" لکھیں گے تو کیا خاک جلوہ ءِ حُسن دیکھا ہے -
پہلے دوسرے مراسلے ہی سے جنگ کی تیاری؟ بھائی ابھی تو آپ محفل میں تشریف لائے ہیں۔ کچھ سیر سپاٹا کیجیے۔ جس بات پر آپ نے صاحبِ مراسلہ پر طنز کا تیر کھینچ مارا ہے ، وہ ایک سادہ ٹائیپو بھی ہوسکتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
میرے محبوب تم ہو یار تم ہو دل ربا تم ہو
یہ سب کچھ ہو مگر میں کہہ نہیں سکتا کہ کیا تم ہو

تمہارے نام سے سب لوگ مجھ کو جان جاتے ہیں
میں وہ کھوئی ہوئی اک چیز ہوں جس کا پتا تم ہو

محبت کو ہماری اک زمانہ ہو گیا لیکن
نہ تم سمجھے کہ کیا میں ہوں نہ میں سمجھا کہ کیا تم ہو

ہمارے دل کو بحر غم کی کیا طاقت جو لے بیٹھے
وہ کشتی ڈوب کب سکتی ہے جس کے ناخدا تم ہو

بچھڑنا بھی تمہارا جیتے جی کی موت ہے گویا
اسے کیا خاک لطف زندگی جس سے جدا تم ہو

مصیبت کا تعلق ہم سے کچھ بھی ہو تو راحت ہے
مرے دل کو خدا وہ درد دے جس کی دوا تم ہو

کہیں اس پھوٹے منہ سے بے وفا کا لفظ نکلا تھا
بس اب طعنوں پہ طعنے ہیں کہ بے شک با وفا تم ہو

قیامت آئے گی یا آ گئی اس کی شکایت کیا
قیامت کیوں نہ ہو جب فتنۂ روز جزا تم ہو

الجھ پڑنے میں کاکل ہو بگڑنے میں مقدر ہو
پلٹنے میں زمانہ ہو بدلنے میں ہوا تم ہو

وہ کہتے ہیں یہ ساری بے وفائی ہے محبت کی
نہ مضطرؔ بے وفا میں ہوں نہ مضطرؔ بے وفا تم ہو
مضطر خیر آبادی
 
Top