نبیل نے ایک تھڑے کے سامنے ٹرک روکا اور دونوں ٹرک سے اتر آئے۔ ابھی دونوں تھڑے کی جانب بڑھ ہی رہے تھے کہ سیفی کو سامنے دیکھ کر ان کی روح فنا ہو گئی۔ ایسا نہیں تھا کہ سیفی بہت غصے میں تھا۔ اس کے برعکس سیفی کے چہرے پر ایک چمکیلی سی مسکراہٹ تھی۔ سیفی نے جب سے ڈیل کارنیگی کی کتاب زندگی میں کامیابی کے اصول میں مسکرانے کی اہمیت کے بارے میں پڑھا تھا، اس وقت سے اس کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ یہ عادت ایسی پکی ہو گئی تھی کہ نیند کی حالت میں بھی سیفی کی باچھیں کھلی رہتی تھیں۔
سیفی ایک بسیار گو شاعر تھا اور ہزاروی تخلص کرتا تھا۔ دراصل پہلے اس کا تخلص کروڑوی تھا لیکن مشاعروں میں ہوٹنگ کا شکار ہونے کا بعد اس نے اپنا تخلص ہزاروی کر لیا تھا اور افواہ یہ تھی کہ وہ شاید اپنا تخلص صدوی کرلے۔ سیفی نے ایک شیروانی پہنی ہوئی تھی جو اس کے ٹخنوں کے نیچے تک آئی ہوئی تھی اور یقین سے نہیں کہا جا سکتا تھا تھا کہ اس نے پاجامہ پہنا ہوگا یا نہیں۔ وہ اپنا تازہ کلام لیے گھات لگائے کھڑا تھا کہ نبیل اور شاکر اس کی رینج میں آ گئے اور ان کے ہاتھوں میں کوکا کولا کی بوتلیں بھی تھیں۔
ارے اکیلے اکیلے کولے پیے جا رہے ہیں۔۔ سدا کے مفتا کھانے والے سیفی نے چہکتے ہوئے کہا۔
نبیل یار یہ بوتل سیفی کو پلا دو۔۔ مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔ یہ کہہ کر شاکر مڑا ہی تھا کہ وہ ہوا میں بلند ہو گیا۔ دراصل سیفی نے جھپٹا مار کر اسے کالر سے پکڑ کر اٹھا لیا تھا۔
اجی اتنی جلدی کاہے کو ہے۔۔ ذرا فدوی کا کلام تو سنتے جائیے۔
شاکر نے بیچارگی سے نبیل کی جانب دیکھا تو نبیل ندارد۔ دوسری جانب نظر ڈالی تو ایک موڑ پر غائب ہوتا ہوا ٹرک فرار ہوتے ہوئے نبیل کا نشان دے رہا تھا۔
چائے خانے کے اندر سیفی نے کوک کی بوتل کھولی اور اس کا ایک گھونٹ بھرا۔ اس گھونٹ کے ساتھ ہی سیفی کے چاروں طبق روشن ہو گئے۔ اس نے فوراً اپنی بیاض کھولی اور اپنا تازہ کلام سنانا شروع کیا۔
آج مرے دل میں آئی ہے یہ دھن کیسی
یہ مصرعہ سن کر شاکر کو اشتیاق ہوا کہ اب سیفی کیا کہنے لگا ہے۔ شاکر کا تجسس دیکھ کر سیفی نے دوسرا مصرعہ پڑھا۔
اوئے ہٹ جا مرے سامنے سے تری ایسی کی تیسی
شاکر سناٹے میں آ گیا اور اس نے انتہائی بے چارگی سے سیفی کو دیکھا۔ سیفی نے اسے اپنی داد پر محمول کیا اور اگلا مصرعہ پڑھا۔
وہ گھڑی ہجر کی مجھ پر گزری تھی ایسی
اس مصرعے پر شاکر ایک مرتبہ پھر چونک اٹھا۔ پھر سیفی نے شعر مکمل کیا
بس اپنی شکل بھی ہو گئی بتاؤں جیسی
سیفی کا یہ کہنا تھا کہ شاکر کے پیٹ میں ایک گولا اٹھا اور اس نے بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے اشارہ کیا جیسے وہ سکول کے ماسٹر سے ٹوائلٹ جانےکی اجازت مانگا کرتا تھا۔ سیفی کو پہلے تو شک گزرا لیکن اس نے پھر بھی شاکر کو جانے دیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہاں کے ٹوائلٹ میں باہر فرار کا کوئی رستہ نہیں تھا۔