(آئس لینڈ کا انقلاب 2009-2011 ) بوسیدہ ملبوس اتارنے کے دن

یہ تو چند سال پہلے کی بات ہے جب2008میں دنیا بھر میں سودی بینکاری نظام اپنے فراڈ اور جھوٹی کاغذی کرنسی کی وجہ سے ڈوبنے لگا تو امریکا سے لے کر یورپ کے ہر بڑے معاشی ہیڈ کوارٹر پر دھرنے اور ہنگامے شروع ہوگئے۔ بینکوں نے اپنی ساکھ اور عمارت بچانے کے لیے سود کی شرح صفر کے قریب کرلی۔ لیکن آئس لینڈ ایک ایسا ملک ہے جہاں ہنگامے اور دھرنے اس قدر زور پکڑے کہ منتخب حکومت کو مستعفی ہونا پڑا۔

بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پوری قوم کو ایک عوامی پارلیمنٹ تصور کرتے ہوئے ایسے تیس (30)غیر سیاسی لوگوں کو منتخب کیا گیا جو ملک میں علم اور تجربے کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ ان تیس افراد کو کہا گیا کہ تم ہمارے ملک کا ایک نیا آئین تحریر کرو جو ان تمام غلاظتوں اور جتھ بندیوں سے پاک ہو۔ایسی خرابیاں جو کارپوریٹ سرمائے سے پیدا ہوتی ہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کے دھرنے سے اس طرح کی تبدیلی کی یہ واحد مثال ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کی خوفزدہ کارپوریٹ کلچر کی گروی جمہوریتوں نے اپنے ملکوں کے میڈیا پر اس کی خبر تک نہ آنے دی۔

وجہ یہ ہے کہ میڈیا کو کارپوریٹ سرمایہ کنٹرول کرتا ہے اور کارپوریٹ سرمایہ سودی بینکاری کے فراڈ سے جنم لیتا ہے۔ یہ ہنگامہ اکتوبر2008ء سے لے کر 2010ء میں آئین کے ازسر نو تحریر کرنے تک چلتا رہا لیکن سی این این جیسے عالمی چینل پر بھی اسے ایک معمولی خبر کے طور دکھایا گیا۔ پورے امریکا میں اس خبر کا بائیکاٹ کیا گیا۔ لیکن عوامی احتجاج کے ذریعے ایک جمہوری لیکن بددیانت حکومت کے خاتمے پر لوگ سوشل میڈیا پر متحرک رہے اور اس پورے انقلاب پر ایک ڈاکو منٹری بھی بن چکی ہے جس کا نام ہے۔(Pots Pans & other solutions)

انقلاب کی یہ کہانی دلچسپ بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔18اکتوبر2008کی سرد دوپہر ملک کی معاشی بدحالی اور سیاسی نااہلی کے خلاف ایک شخصHordurاپنا گٹار اور مائیکروفون لے کر ایک مرکزی چوراہے پر جا کر کھڑا ہو گیا اور لوگوں کو بلا بلا کر حکومت کے خلاف بولنے کے لیے بلانے لگا۔ ایک ہفتے میں وہاں ایک ہجوم جمع ہونا شروع ہو گیا۔ پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہر ہفتے یہاں جمع ہوں گے اورحکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کریں گے اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت چلی نہیں جاتی۔

20جنوری2009تک مظاہرے بڑھ گئے اور ہنگامے شروع ہو گئے۔ اس دن پولیس نے ان پر کالی مرچوں کا سپرے کیا، لاٹھی چارج کیا اور پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے سے 20لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ ہنگامے زور پکڑے، پارلیمنٹ کی کھڑکیاں توڑ دی گئیں۔ دھواں پھیلانے والے بم پارلیمنٹ کی کھڑکیوں سے پھینکے گئے۔ وزیراعظم کی کار پر 21جنوری کو خالی ڈبوں، انڈوں اور برف کے گولوں سے حملہ کیا گیا۔ ہجوم نے تمام سرکاری عمارتوں کا گھیرائو کر لیا۔ 22جنوری کو پولیس نے آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔

آئس لینڈ کی تاریخ میں ایسا60سال بعد ہوا، پہلے آنسو گیس1949ء میں استعمال ہوئی جب لوگ نیٹو کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے۔ ہجوم نے دھرنا جاری رکھا اور سرکاری عمارتوں پر پتھرائو شروع کردیا۔ 23جنوری کو وزیراعظم (Geir Haardelthat)نے25اپریل کو وقت سے پہلے مڈٹرم الیکشن کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ لیکن عوام نے کہا کہ ہم اس آئین اور اس سسٹم کے تحت الیکشن نہیں مانتے۔ ہمیں ایک نئے آئین کی ضرورت ہے۔

عوام کے مطالبے پر 26جنوری کو وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا اور تمام سیاسی پارٹیاں اس پر متفق ہوگئیں کہ ہمیں ایک نیا آئین مرتب کرنا ہوگا۔ وہ پارٹیاں جو سب سے کم نمایندگی رکھتی تھیں ان کو ملا کر ایک نگران حکومت بنائی گئی۔ انھوں نے عوام کے مطالبے پر فیصلہ کیا کہ تمام عوام کو آئین بنانے میں شریک کیا جائے۔ پورے ملک سے1500لوگوں کو بلایا گیا جسے عوامی پارلیمنٹ کہا گیا۔ یہ لوگ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سرکردہ لوگ شامل تھے۔ ان لوگوں میں سے25لوگوں کو آئین تحریر کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔اس انتخاب کے خلاف پرانی وضع اور فرسودہ جمہوری نظام کے دیوانے سپریم کورٹ میں چلے گئے۔

سپریم کورٹ نے26اکتوبر2010میں ہونے والے یہ غیر سیاسی الیکشن غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیے۔ لیکن پارلیمنٹ ڈٹ گئی۔ انھوں نے کہا کہ جو عدلیہ عوام کی امنگوں،آرزو اور خواہشات کے مطابق نہ ہو،اس کے فیصلے نافذ العمل نہیں۔آئین تحریر کیا گیا۔پرانا آئین مسترد ہوا اور29جولائی2011کو اس کا ڈرافٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔اس کے بعد انھوں نے اس معاشی بدحالی کے ذمے دار وزیراعظم کو سزا دینے کے لیے ایک خصوصی ٹربیونل قائم کیا اور اپنے وزیراعظم کو وہاں مجرم کے طور پر کھڑا کر دیا۔

اس انقلاب میں نہ کوئی خون بہا اورنہ ہی قتل وغارت ہوئی، لیکن پورے ملک کاآئینی، قانونی اور انتظامی ڈھانچہ تبدیل ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پارلیمنٹ کو گھیرا تھا ان کی تعداد تین ہزار سے پانچ ہزار تک تھی۔ لیکن کسی نے یہ سوال تک نہ کیا کہ یہ پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتے۔کسی نے یہ جملہ بھی نہ بولا کہ یہ لوگ جمہوریت کو پٹری سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔اس لیے کہ سب سیاستدانوں کو اس حقیقت کا ادراک تھا، کہ عوام کے تمام مطالبات درست ہیں۔

پوری قوم ایک ایسے آئین اور ایسے جمہوری نظام کی غلام ہو چکی ہے جو کارپوریٹ سرمائے اور سودی بینکاری کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ان بینکوں نے پوری قوم کو ایک نہ ختم ہونے والے سودی قرضے میں جکڑا اور اسی سرمائے سے سیاسی پارٹیوں کو اپنے مفادات کا تابع بنایا۔لوگوں نے اس محکوم سیاسی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا۔ کیا ہمارا سیاسی جمہوری نظام بھی چند طبقات اور چند آئینی شقوں کا غلام نہیں ہے؟

آپ آج ریفرنڈم کرائیں کہ اس نظام سے اگلے سو سال میں بھی کسی صاحبِ علم، اہل اور عام آدمی کو راستہ مل سکتا ہے تو اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔قومیں ارتقائی منازل سے گزرتی ہیں تو اپنے میثاق بھی بدلتی ہیں اور اپنے قانون بھی۔ بوسیدہ کپڑے اتارے نہ جائیں ان کی بدبو اور غلاظت سے بدن میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ ہمارا جمہوری اور آئینی نظام بھی وہ بوسیدہ ملبوس ہے جو چند طبقات کا تحفظ کرتا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم ایک خارش زدہ جسم کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں یا صحت مند معاشرے کی طرح
اوریا مقبول جان۔ء 22 اگست 2014
 

arifkarim

معطل
اوریا مقبول جان کا شاید یہ پہلا مضمون ہے جس سے میں 100 فیصد متفق ہوں۔ حیرت انگیز طور پر مغربی بین الاقوامی میڈیا میں سے کسی نے بھی آئس لینڈ کے اس پر امن "انقلاب" کی جھلکی تک نہیں دکھائی کہ انکے اپنے لوگ اس سے متاثر ہو کر اپنی اپنی کرپٹ جمہوریتوں کا تختہ نہ الٹ دیں۔ یہ تو حال ہے مغربی میڈیا کی "آزادی" کا!
Hörður Torfason is an actor/musician/activist. He is credited with almost single-handedly inspiring the Icelandic revolution by refusing to leave the area outside the parliament until his questions were answered by the politicians and his three demands were met.​
http://citizenactionmonitor.wordpre...on-the-man-who-overthrew-icelands-government/

گو کہ آئس لینڈ کی آبادی محض کچھ لاکھ ہے اور وہاں ہمیشہ سے مستحکم جمہوری نظام چلا آرہا ہے اسکے باوجود جب وہاں ایک کرپٹ اور سازشی حکومت بذریعہ جمہوریت زیر اقتدار آتی ہے اور قومی معیشت و اقتصاد و مال کو بیرونی عناصر کے تابع کر دیتی ہے تو صرف چند ہزار انقلابیوں کے احتجاج کے بعد پوری منتخب جمہوری حکومت کا صفایا ہوجاتا ہے اور نیا آئین لکھا جاتا ہےتا کہ آئندہ کوئی منتخب حکومت اس طرح کی قومی غداری نہ کر سکے۔ اس بارہ میں امریکہ و مغرب کے حمایتی زیک کیا کہتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
آئسلینڈ مغرب کا حصہ ہے اور وہاں جمہوریت کی گہری جڑیں ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ اوریا مقبول جان کا آرٹیکل مکمل تصویر پیش نہیں کرتا۔ آئسلینڈ کا نیا دستور آخر مین پارلیمان نے پاس نہیں کیا اور وہاں آج پھر دائیں بازو کی اسی جماعت کی حکومت ہے جو 2008 میں حکمران تھی۔
 

arifkarim

معطل
آج پھر دائیں بازو کی اسی جماعت کی حکومت ہے جو 2008 میں حکمران تھی۔
کوئی بھی سیاسی جماعت مکمل طور پر تو کرپٹ نہیں ہوتی۔ ہاں اسمیں کرپٹ لوگ ہو سکتے ہیں۔ جن کو بذریعہ انقلاب آئس لینڈ میں فارغ کیا گیا تھا۔ گو کہ یہ سب پہلے قومی مینڈیٹ کیساتھ بغیر دھاندلی کے اقتدار میں آئے تھے۔
اب اگر یہی کچھ پاکستان میں قادری یا عمران کر رہا ہےیعنی کرپٹ اورمجرم وزیر اعظم اور ایک صوبہ کے وزیر اعلیٰ کے خلاف احتجاج تو انہیں جمہوریت کا لولی پاپ دیا جا رہا ہے۔ اگر وہ جو کر رہے ہیں وہ غیر جمہوری ہے تو جو آئس لینڈ میں ہوا وہ جمہوری نہیں تھا؟
 
پاکستان ائس لینڈ نہیں ہے
ائیس لینڈ کی آرمی کتنے وقت تک اقتدار میں رہی؟
کیا وہاں کی ارمی اپنی سیاسی پارٹی بناکر دھاندلی کرتی رہی؟
ائس لینڈ اور پاکستان کے حالات و واقعات میں بہت فرق ہے
 

arifkarim

معطل
پاکستان ائس لینڈ نہیں ہے
ائیس لینڈ کی آرمی کتنے وقت تک اقتدار میں رہی؟
کیا وہاں کی ارمی اپنی سیاسی پارٹی بناکر دھاندلی کرتی رہی؟
ائس لینڈ اور پاکستان کے حالات و واقعات میں بہت فرق ہے

آئس لینڈ پاکستان نہیں ہے لیکن جمہوری نظام تو ایک ہی ہے۔ یا تو اسکو مکمل مغربی انداز پر چلائیں یا اسکو معطل کر کے بادشاہت اپنالیں۔
 
آئس لینڈ پاکستان نہیں ہے لیکن جمہوری نظام تو ایک ہی ہے۔ یا تو اسکو مکمل مغربی انداز پر چلائیں یا اسکو معطل کر کے بادشاہت اپنالیں۔

بیٹے آپ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جمہوری نظام ایک ارتقائی عمل سے رائج ہوتا ہے۔ ابھی تو پاکستان کے عوام اس بات کو ہضم کرنے میں مشکل پارہے ہیں کہ انتخاب اور بار بار انتخاب سے اقتدار عوام کو منتقل ہوتا ہے نہ کہ سو کالڈ انقلاب سے
 

زیک

مسافر
یہ بھی یاد رہے کہ آئسلینڈ میں کبھی ایک پارٹی کو اکثریت نہیں ملتی اور ہمیشہ مخلوط حکومت بنتی ہے۔ 2009 کے جلد الیکشن کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔
 

arifkarim

معطل
بیٹے آپ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جمہوری نظام ایک ارتقائی عمل سے رائج ہوتا ہے۔ ابھی تو پاکستان کے عوام اس بات کو ہضم کرنے میں مشکل پارہے ہیں کہ انتخاب اور بار بار انتخاب سے اقتدار عوام کو منتقل ہوتا ہے نہ کہ سو کالڈ انقلاب سے
جی جی آپ نے درست فرمایا۔ ضیاء الحق کی موت کے بعد اس موروثی نظام کے ذریعہ زرداری-بھٹو خاندان آگیا اور کرپشن اسکینڈل کی وجہ سے وہ اترا تو پھر شریفین کا خاندان چھا گیا، انہیں بھی اسی کرپشن کے چکر میں اتارا گیا اور پھر زرداری، پھر نواز، یہاں تک کے فوج نے لشکر کشی کر کے اس "جمہوری" ڈرامے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔ زرداری کو سلاخوں کے پیچھے چھوڑ کر شریفین کو سعودی شاہی خاندان اس شرط پر لے گیا کہ آئندہ وہ کبھی سیاست نہیں کریں گے اور نہ ہی ملک واپس آئیں گے۔ جسکے بعد PCO کا حسین دور آیا او یہی کرپٹ، جعلی ، مجرم حکمران امریکہ کے توسط سے امیر المؤمنین بن کر ایک بار پھر اس قوم کو لوٹنے کیلئے ایوانوں میں پہنچ گئے۔ زرداری کے 5 سال کاٹنے کے بعد قوم کو عمران کی شکل میں ایک مسیحا دکھائی دیا تو شریفین نے سار الیکشن کمیشن ہی خرید لیا۔ اب انقلاب نہ آئے تو کیا ہو۔
 

زیک

مسافر
جی جی آپ نے درست فرمایا۔ ضیاء الحق کی موت کے بعد اس موروثی نظام کے ذریعہ زرداری-بھٹو خاندان آگیا اور کرپشن اسکینڈل کی وجہ سے وہ اترا تو پھر شریفین کا خاندان چھا گیا، انہیں بھی اسی کرپشن کے چکر میں اتارا گیا اور پھر زرداری، پھر نواز، یہاں تک کے فوج نے لشکر کشی کر کے اس "جمہوری" ڈرامے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔ زرداری کو سلاخوں کے پیچھے چھوڑ کر شریفین کو سعودی شاہی خاندان اس شرط پر لے گیا کہ آئندہ وہ کبھی سیاست نہیں کریں گے اور نہ ہی ملک واپس آئیں گے۔ جسکے بعد PCO کا حسین دور آیا او یہی کرپٹ، جعلی ، مجرم حکمران امریکہ کے توسط سے امیر المؤمنین بن کر ایک بار پھر اس قوم کو لوٹنے کیلئے ایوانوں میں پہنچ گئے۔ زرداری کے 5 سال کاٹنے کے بعد قوم کو عمران کی شکل میں ایک مسیحا دکھائی دیا تو شریفین نے سار الیکشن کمیشن ہی خرید لیا۔ اب انقلاب نہ آئے تو کیا ہو۔
1990 کی دہائی میں جو یہ بار بار حکومت بدلی تو اس کے پیچھے فوج کا واضح ہاتھ تھا۔ آج بھی نواز شریف کی حکومت جاتی ہے تو فوج کی وجہ سے ہو گا۔
 

ظفری

لائبریرین
3 لاکھ 18 ہزار کی آبادی میں 3 ہزار لوگ ایک فیصد بنتے ہیں۔ پاکستان کی آبادی کا 1 فیصد ایک کروڑ 80 لاکھ بنتا ہے
کیا پاکستان کی آبادی کا ایک فیصد واقعی ایک کروڑ 80 لاکھ بنتا ہے ۔ اس حساب سے پاکستان کی بقیہ 99 فیصد آبادی کتنی ہوئی ۔ :idontknow:
 

arifkarim

معطل
ملین اور کروڑ مکس اپ ہو گئے۔ 1.8 ملین لکھنا تھا جو 18 لاکھ ہوتا ہے۔
یعنی اگر عمران اور قادری 10 10 لاکھ لوگ بھی لے آتے تو کام چل سکتا تھا؟ لیکن پھر یہ دھرنا کتنے دن چلتا۔ ابھی محض 50، 60 ہزار نے ہی اسلام آباد کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے۔
 
Top