ناصر علی مرزا
معطل
یہ تو چند سال پہلے کی بات ہے جب2008میں دنیا بھر میں سودی بینکاری نظام اپنے فراڈ اور جھوٹی کاغذی کرنسی کی وجہ سے ڈوبنے لگا تو امریکا سے لے کر یورپ کے ہر بڑے معاشی ہیڈ کوارٹر پر دھرنے اور ہنگامے شروع ہوگئے۔ بینکوں نے اپنی ساکھ اور عمارت بچانے کے لیے سود کی شرح صفر کے قریب کرلی۔ لیکن آئس لینڈ ایک ایسا ملک ہے جہاں ہنگامے اور دھرنے اس قدر زور پکڑے کہ منتخب حکومت کو مستعفی ہونا پڑا۔
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پوری قوم کو ایک عوامی پارلیمنٹ تصور کرتے ہوئے ایسے تیس (30)غیر سیاسی لوگوں کو منتخب کیا گیا جو ملک میں علم اور تجربے کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ ان تیس افراد کو کہا گیا کہ تم ہمارے ملک کا ایک نیا آئین تحریر کرو جو ان تمام غلاظتوں اور جتھ بندیوں سے پاک ہو۔ایسی خرابیاں جو کارپوریٹ سرمائے سے پیدا ہوتی ہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کے دھرنے سے اس طرح کی تبدیلی کی یہ واحد مثال ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کی خوفزدہ کارپوریٹ کلچر کی گروی جمہوریتوں نے اپنے ملکوں کے میڈیا پر اس کی خبر تک نہ آنے دی۔
وجہ یہ ہے کہ میڈیا کو کارپوریٹ سرمایہ کنٹرول کرتا ہے اور کارپوریٹ سرمایہ سودی بینکاری کے فراڈ سے جنم لیتا ہے۔ یہ ہنگامہ اکتوبر2008ء سے لے کر 2010ء میں آئین کے ازسر نو تحریر کرنے تک چلتا رہا لیکن سی این این جیسے عالمی چینل پر بھی اسے ایک معمولی خبر کے طور دکھایا گیا۔ پورے امریکا میں اس خبر کا بائیکاٹ کیا گیا۔ لیکن عوامی احتجاج کے ذریعے ایک جمہوری لیکن بددیانت حکومت کے خاتمے پر لوگ سوشل میڈیا پر متحرک رہے اور اس پورے انقلاب پر ایک ڈاکو منٹری بھی بن چکی ہے جس کا نام ہے۔(Pots Pans & other solutions)
انقلاب کی یہ کہانی دلچسپ بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔18اکتوبر2008کی سرد دوپہر ملک کی معاشی بدحالی اور سیاسی نااہلی کے خلاف ایک شخصHordurاپنا گٹار اور مائیکروفون لے کر ایک مرکزی چوراہے پر جا کر کھڑا ہو گیا اور لوگوں کو بلا بلا کر حکومت کے خلاف بولنے کے لیے بلانے لگا۔ ایک ہفتے میں وہاں ایک ہجوم جمع ہونا شروع ہو گیا۔ پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہر ہفتے یہاں جمع ہوں گے اورحکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کریں گے اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت چلی نہیں جاتی۔
20جنوری2009تک مظاہرے بڑھ گئے اور ہنگامے شروع ہو گئے۔ اس دن پولیس نے ان پر کالی مرچوں کا سپرے کیا، لاٹھی چارج کیا اور پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے سے 20لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ ہنگامے زور پکڑے، پارلیمنٹ کی کھڑکیاں توڑ دی گئیں۔ دھواں پھیلانے والے بم پارلیمنٹ کی کھڑکیوں سے پھینکے گئے۔ وزیراعظم کی کار پر 21جنوری کو خالی ڈبوں، انڈوں اور برف کے گولوں سے حملہ کیا گیا۔ ہجوم نے تمام سرکاری عمارتوں کا گھیرائو کر لیا۔ 22جنوری کو پولیس نے آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔
آئس لینڈ کی تاریخ میں ایسا60سال بعد ہوا، پہلے آنسو گیس1949ء میں استعمال ہوئی جب لوگ نیٹو کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے۔ ہجوم نے دھرنا جاری رکھا اور سرکاری عمارتوں پر پتھرائو شروع کردیا۔ 23جنوری کو وزیراعظم (Geir Haardelthat)نے25اپریل کو وقت سے پہلے مڈٹرم الیکشن کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ لیکن عوام نے کہا کہ ہم اس آئین اور اس سسٹم کے تحت الیکشن نہیں مانتے۔ ہمیں ایک نئے آئین کی ضرورت ہے۔
عوام کے مطالبے پر 26جنوری کو وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا اور تمام سیاسی پارٹیاں اس پر متفق ہوگئیں کہ ہمیں ایک نیا آئین مرتب کرنا ہوگا۔ وہ پارٹیاں جو سب سے کم نمایندگی رکھتی تھیں ان کو ملا کر ایک نگران حکومت بنائی گئی۔ انھوں نے عوام کے مطالبے پر فیصلہ کیا کہ تمام عوام کو آئین بنانے میں شریک کیا جائے۔ پورے ملک سے1500لوگوں کو بلایا گیا جسے عوامی پارلیمنٹ کہا گیا۔ یہ لوگ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سرکردہ لوگ شامل تھے۔ ان لوگوں میں سے25لوگوں کو آئین تحریر کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔اس انتخاب کے خلاف پرانی وضع اور فرسودہ جمہوری نظام کے دیوانے سپریم کورٹ میں چلے گئے۔
سپریم کورٹ نے26اکتوبر2010میں ہونے والے یہ غیر سیاسی الیکشن غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیے۔ لیکن پارلیمنٹ ڈٹ گئی۔ انھوں نے کہا کہ جو عدلیہ عوام کی امنگوں،آرزو اور خواہشات کے مطابق نہ ہو،اس کے فیصلے نافذ العمل نہیں۔آئین تحریر کیا گیا۔پرانا آئین مسترد ہوا اور29جولائی2011کو اس کا ڈرافٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔اس کے بعد انھوں نے اس معاشی بدحالی کے ذمے دار وزیراعظم کو سزا دینے کے لیے ایک خصوصی ٹربیونل قائم کیا اور اپنے وزیراعظم کو وہاں مجرم کے طور پر کھڑا کر دیا۔
اس انقلاب میں نہ کوئی خون بہا اورنہ ہی قتل وغارت ہوئی، لیکن پورے ملک کاآئینی، قانونی اور انتظامی ڈھانچہ تبدیل ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پارلیمنٹ کو گھیرا تھا ان کی تعداد تین ہزار سے پانچ ہزار تک تھی۔ لیکن کسی نے یہ سوال تک نہ کیا کہ یہ پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتے۔کسی نے یہ جملہ بھی نہ بولا کہ یہ لوگ جمہوریت کو پٹری سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔اس لیے کہ سب سیاستدانوں کو اس حقیقت کا ادراک تھا، کہ عوام کے تمام مطالبات درست ہیں۔
پوری قوم ایک ایسے آئین اور ایسے جمہوری نظام کی غلام ہو چکی ہے جو کارپوریٹ سرمائے اور سودی بینکاری کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ان بینکوں نے پوری قوم کو ایک نہ ختم ہونے والے سودی قرضے میں جکڑا اور اسی سرمائے سے سیاسی پارٹیوں کو اپنے مفادات کا تابع بنایا۔لوگوں نے اس محکوم سیاسی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا۔ کیا ہمارا سیاسی جمہوری نظام بھی چند طبقات اور چند آئینی شقوں کا غلام نہیں ہے؟
آپ آج ریفرنڈم کرائیں کہ اس نظام سے اگلے سو سال میں بھی کسی صاحبِ علم، اہل اور عام آدمی کو راستہ مل سکتا ہے تو اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔قومیں ارتقائی منازل سے گزرتی ہیں تو اپنے میثاق بھی بدلتی ہیں اور اپنے قانون بھی۔ بوسیدہ کپڑے اتارے نہ جائیں ان کی بدبو اور غلاظت سے بدن میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ ہمارا جمہوری اور آئینی نظام بھی وہ بوسیدہ ملبوس ہے جو چند طبقات کا تحفظ کرتا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم ایک خارش زدہ جسم کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں یا صحت مند معاشرے کی طرح
اوریا مقبول جان۔ء 22 اگست 2014
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پوری قوم کو ایک عوامی پارلیمنٹ تصور کرتے ہوئے ایسے تیس (30)غیر سیاسی لوگوں کو منتخب کیا گیا جو ملک میں علم اور تجربے کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ ان تیس افراد کو کہا گیا کہ تم ہمارے ملک کا ایک نیا آئین تحریر کرو جو ان تمام غلاظتوں اور جتھ بندیوں سے پاک ہو۔ایسی خرابیاں جو کارپوریٹ سرمائے سے پیدا ہوتی ہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کے دھرنے سے اس طرح کی تبدیلی کی یہ واحد مثال ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کی خوفزدہ کارپوریٹ کلچر کی گروی جمہوریتوں نے اپنے ملکوں کے میڈیا پر اس کی خبر تک نہ آنے دی۔
وجہ یہ ہے کہ میڈیا کو کارپوریٹ سرمایہ کنٹرول کرتا ہے اور کارپوریٹ سرمایہ سودی بینکاری کے فراڈ سے جنم لیتا ہے۔ یہ ہنگامہ اکتوبر2008ء سے لے کر 2010ء میں آئین کے ازسر نو تحریر کرنے تک چلتا رہا لیکن سی این این جیسے عالمی چینل پر بھی اسے ایک معمولی خبر کے طور دکھایا گیا۔ پورے امریکا میں اس خبر کا بائیکاٹ کیا گیا۔ لیکن عوامی احتجاج کے ذریعے ایک جمہوری لیکن بددیانت حکومت کے خاتمے پر لوگ سوشل میڈیا پر متحرک رہے اور اس پورے انقلاب پر ایک ڈاکو منٹری بھی بن چکی ہے جس کا نام ہے۔(Pots Pans & other solutions)
انقلاب کی یہ کہانی دلچسپ بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔18اکتوبر2008کی سرد دوپہر ملک کی معاشی بدحالی اور سیاسی نااہلی کے خلاف ایک شخصHordurاپنا گٹار اور مائیکروفون لے کر ایک مرکزی چوراہے پر جا کر کھڑا ہو گیا اور لوگوں کو بلا بلا کر حکومت کے خلاف بولنے کے لیے بلانے لگا۔ ایک ہفتے میں وہاں ایک ہجوم جمع ہونا شروع ہو گیا۔ پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہر ہفتے یہاں جمع ہوں گے اورحکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کریں گے اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت چلی نہیں جاتی۔
20جنوری2009تک مظاہرے بڑھ گئے اور ہنگامے شروع ہو گئے۔ اس دن پولیس نے ان پر کالی مرچوں کا سپرے کیا، لاٹھی چارج کیا اور پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے سے 20لوگوں کو گرفتار کر لیا۔ ہنگامے زور پکڑے، پارلیمنٹ کی کھڑکیاں توڑ دی گئیں۔ دھواں پھیلانے والے بم پارلیمنٹ کی کھڑکیوں سے پھینکے گئے۔ وزیراعظم کی کار پر 21جنوری کو خالی ڈبوں، انڈوں اور برف کے گولوں سے حملہ کیا گیا۔ ہجوم نے تمام سرکاری عمارتوں کا گھیرائو کر لیا۔ 22جنوری کو پولیس نے آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔
آئس لینڈ کی تاریخ میں ایسا60سال بعد ہوا، پہلے آنسو گیس1949ء میں استعمال ہوئی جب لوگ نیٹو کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے۔ ہجوم نے دھرنا جاری رکھا اور سرکاری عمارتوں پر پتھرائو شروع کردیا۔ 23جنوری کو وزیراعظم (Geir Haardelthat)نے25اپریل کو وقت سے پہلے مڈٹرم الیکشن کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ لیکن عوام نے کہا کہ ہم اس آئین اور اس سسٹم کے تحت الیکشن نہیں مانتے۔ ہمیں ایک نئے آئین کی ضرورت ہے۔
عوام کے مطالبے پر 26جنوری کو وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا اور تمام سیاسی پارٹیاں اس پر متفق ہوگئیں کہ ہمیں ایک نیا آئین مرتب کرنا ہوگا۔ وہ پارٹیاں جو سب سے کم نمایندگی رکھتی تھیں ان کو ملا کر ایک نگران حکومت بنائی گئی۔ انھوں نے عوام کے مطالبے پر فیصلہ کیا کہ تمام عوام کو آئین بنانے میں شریک کیا جائے۔ پورے ملک سے1500لوگوں کو بلایا گیا جسے عوامی پارلیمنٹ کہا گیا۔ یہ لوگ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سرکردہ لوگ شامل تھے۔ ان لوگوں میں سے25لوگوں کو آئین تحریر کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔اس انتخاب کے خلاف پرانی وضع اور فرسودہ جمہوری نظام کے دیوانے سپریم کورٹ میں چلے گئے۔
سپریم کورٹ نے26اکتوبر2010میں ہونے والے یہ غیر سیاسی الیکشن غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیے۔ لیکن پارلیمنٹ ڈٹ گئی۔ انھوں نے کہا کہ جو عدلیہ عوام کی امنگوں،آرزو اور خواہشات کے مطابق نہ ہو،اس کے فیصلے نافذ العمل نہیں۔آئین تحریر کیا گیا۔پرانا آئین مسترد ہوا اور29جولائی2011کو اس کا ڈرافٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔اس کے بعد انھوں نے اس معاشی بدحالی کے ذمے دار وزیراعظم کو سزا دینے کے لیے ایک خصوصی ٹربیونل قائم کیا اور اپنے وزیراعظم کو وہاں مجرم کے طور پر کھڑا کر دیا۔
اس انقلاب میں نہ کوئی خون بہا اورنہ ہی قتل وغارت ہوئی، لیکن پورے ملک کاآئینی، قانونی اور انتظامی ڈھانچہ تبدیل ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پارلیمنٹ کو گھیرا تھا ان کی تعداد تین ہزار سے پانچ ہزار تک تھی۔ لیکن کسی نے یہ سوال تک نہ کیا کہ یہ پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتے۔کسی نے یہ جملہ بھی نہ بولا کہ یہ لوگ جمہوریت کو پٹری سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔اس لیے کہ سب سیاستدانوں کو اس حقیقت کا ادراک تھا، کہ عوام کے تمام مطالبات درست ہیں۔
پوری قوم ایک ایسے آئین اور ایسے جمہوری نظام کی غلام ہو چکی ہے جو کارپوریٹ سرمائے اور سودی بینکاری کے شکنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ان بینکوں نے پوری قوم کو ایک نہ ختم ہونے والے سودی قرضے میں جکڑا اور اسی سرمائے سے سیاسی پارٹیوں کو اپنے مفادات کا تابع بنایا۔لوگوں نے اس محکوم سیاسی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا۔ کیا ہمارا سیاسی جمہوری نظام بھی چند طبقات اور چند آئینی شقوں کا غلام نہیں ہے؟
آپ آج ریفرنڈم کرائیں کہ اس نظام سے اگلے سو سال میں بھی کسی صاحبِ علم، اہل اور عام آدمی کو راستہ مل سکتا ہے تو اکثریت کا جواب نفی میں ہوگا۔قومیں ارتقائی منازل سے گزرتی ہیں تو اپنے میثاق بھی بدلتی ہیں اور اپنے قانون بھی۔ بوسیدہ کپڑے اتارے نہ جائیں ان کی بدبو اور غلاظت سے بدن میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ ہمارا جمہوری اور آئینی نظام بھی وہ بوسیدہ ملبوس ہے جو چند طبقات کا تحفظ کرتا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم ایک خارش زدہ جسم کے ساتھ زندہ رہنا چاہتے ہیں یا صحت مند معاشرے کی طرح
اوریا مقبول جان۔ء 22 اگست 2014