کاشفی
محفلین
آئندہ ماہ پاکستان مزید محفوظ ہوگا، وفاقی وزیر داخلہ
اسلام آباد(آن لائن)وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا ہے کہ بھارہ کہو ،امام بارگاہ پر حملہ کسی مذہبی انتہا پسند تنظیم کا نہیں جنوبی وزیرستان کے پڑے لکھے نوجوان کے گروپ نے کیا ۔مقامی خاتون اور افغان مہاجر نے بھی اس کارروائی میں اس کا ساتھ دیا ۔8 میں سے پانچ افرادکو گرفتار کر لیاگیا ہے۔مذکورہ گروپ اسلام آباد میں عید کے روز بڑی تباہی مچانا چاہتا تھا ۔ناکامی کے بعد انہوں نے بھارہ کہو کا رخ کیا۔کارروائی میں موبائل فون کی بجائے انٹرنیٹ اورجدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔تمام فرقوں کاتحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔12 سال میں قومی سلامتی پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکی ،حکومت سکیورٹی پالیسی کو دو مرحلوں میں پیش کرے گی ۔ایوان سے بھر پور رہنما ئی لی جائے گی۔بھارہ کہو اور کلثوم پلازہ واقعات علیحدہ علیحدہ نوعیت کے ہیں۔سکندر کی جان خطرہ سے باہر ہے۔فی الوقت اس کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے ثابت نہیں ہوا۔تفتیش میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔بدھ کے روز وفاقی وزیر خارجہ چوہدری نثار علی خان نے بھارہ کہو میں دہشت گرد حملے اور ملک میں اقلیتوں کونشانہ بنانے سے متعلق توجہ مبذول کرانے کے لئے جواب میں کہا کہ جنوبی وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھارہ کہو میں امام بارگاہ کو نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان کے یہ لوگ بھارہ کہو میں مقیم ہیں اور پڑھے لکھے ہیں ۔البتہ فی الوقت اس معاملے پرتحقیقات ہو رہی ہیں۔8 افراد بارے علم ہوا اور 5 کوگرفتار کر لیاگیا۔البتہ تین دیگر افراد کوگرفتار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان شرپسند جوانوں کا منصوبہ تھا کہ عید کے روز شہر میں بڑی تباہی مچائیں مگر وہ اسلام آباد میں داخل نہیں ہو سکے اور اسلام آباد میں داخلے میں ناکامی پر بھار کہو میں امام بارگاہ کو نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ اس واقعہ میں تمام جوان استعمال ہوئے ہیں۔جوپڑھے لکھے ہیں اور ان کا تعلق کسی بھی انتہا پسند سے نہیں تھا البتہ ایک مقامی لڑکی بھی اس کارروائی میں ان کے ساتھ شامل تھی جو ان نوجوانوں کی کلاس فیلو تھی ۔انہوں نے کہا کہ ایک افغان مہاجربھی اس کارروائی میں ملوث ہے۔انہوں نے کہا کہ 8 لڑکوں کے گروپ اسلام آباد میں تباہی مچادینا چاہتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ خود کش حملہ آور دوسرے مرحلے میں اسلام آباد میں داخل ہونا چاہتاتھا۔مگر اس کوناکامی ہوئی توپھر اسکے بھارہ کہو کا رخ کیا۔انہوں نے کہا کہ خود کش بمبار کا تعلق چینیوٹ کے علاقے سے ہے اور اسکا تعلق ایک مذہبی تنظیم ہے۔اس کے رشتہ داروں کو گرفتار کیا تھا مگر ان میں سے چند افراد کو رہا کر دیاہے۔انہوں نے توجہ مبذول کرانے کی محرک رکن منزہ حسن کے سوال کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ 12 سال سے دہشت گردی جاری ہے ۔اراکین تحمل کا مظاہرہ کریں۔12 سال میں نیشنل سکیورٹی پالیسی تشکیل ہی نہیں دی جا سکی ۔ہم اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صرف اقلیتی برادری نہیں بلکہ پاکستان میں بننے والے تمام فرقوں کے لوگوں کو تحفظ یقینی بنائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں داخلی سکیورٹی دوسرے مرحلے میں قومی سکیورٹی بارے ایوان کو آگاہ کیا جائے گا۔اس حوالے سے ایوان سے مکمل رہنمائی حاصل کی جائے گی۔انہوں نے اس موقع پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کبھی سکندر بارے میں یہ نہیں کہا کہ وہ بین الاقوامی سازش میں میرے الفاظ کوتوڑ موڑ کر شائع کیاگیا۔اس موقع پر نکتہ اعتراض پرپاکستان تحریک انصاف کے رہنما مخدوم جاویدہاشمی نے کہا کہ بھارہ کہو اور بلیو ایریا کے واقعات بارے وضاحت کی جائے کہ انکا تعلق کس سے ہے۔جس پرچوہدری نثار نے کہا کہ بھارہ کہو اورکلثوم پلازہ واقعات علیحدہ علیحدہ نوعیت کے تھے۔انہوں نے کہا کہ فی الوقت سکندر سے کوئی تفتیش نہیں کر سکے۔جیسے ہی ڈاکٹر اجازت دیں گے تو اس سے تفتیش کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ سکندر کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی تک سکندر کا تعلق کسی بھی دہشت گردی تنظیم سے ثابت نہیں ہوا۔جب اس سے تفتیش ہوگی تو پھر بہت سے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔اس موقع پر جنوبی وزیرستان کے باشندوں کا نام آنے سے فاٹا اراکین کے ناراضگی کا اظہار کیا جس پرچوہدری نثار علی خان نے کہا کہ 90 فیصد قبائل عوام محبت وطن ہیں البتہ دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد پورے ملک میں جہاں بھی ہوں گے ان کی نشاندہی کرناحکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ عوام کوتحفظ فراہم کرناحکومت کی اولین ترجیح ہے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد واقعہ پر تنقید کرنے پر سینیٹ میں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد تماشا 5گھنٹے کا نہیں تھا، تماشا اب تک لگاہے ٗ ملزم سکندر کے زندہ ہونے کی وجہ سے اہم معلومات حاصل ہورہی ہیں، بات کا اتنا بتنگڑ نہ بنائیں کہ کسی کا اچھا عمل منفی ہوجائے، دو ماہ پر 17 سوالات آگئے، 5سال پر میں بھی 117 سوالات پوچھ سکتا ہوں، 12سال سے بغیر پالیسی دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہے ہیں،زمرد خان کو بہادری تک ہی رہنے دیا جائے بھٹو کی طرح پیرومرشد نہ بنایا جائے ٗہم زمرخان کے ساتھ نہیں ٗ سکندر کے ساتھ تو ہو ہی نہیں سکتے ٗ ہم قانون ٗآئین اورپاکستان کے ساتھ ہیں ٗ اپوزیشن والے تھوڑا صبر کریں، سیکیورٹی صورتحال ہر ماہ پہلے سے زیادہ بہتر ہوگی، ہمیں ملنے والا پاکستان گزشتہ سال کی نسبت زیادہ محفوظ ہے، آئندہ ماہ پاکستان مزید محفوظ ہوگا ۔ بدھ کو سینیٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد واقعہ پر تنقید کرنے والے اپوزیشن رہنماؤں کر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ تماشا5گھنٹے کا نہیں تھا، تماشا اب بھی لگاہوا ہے، ریاست پر تنقید کرنے کا حق کسی کو نہیں،ہماری حکومت کنفیوژن کا شکار نہیں ، میں نے اپنا کوئی بیان تبدیل نہیں کیا، دو ماہ پر 17سوالات آگئے،گزشتہ5سال پرمیں117سوالات پوچھ سکتاہوں، سکندر نے سب سے پہلے گاڑی کے ڈرائیورکوگن پوائنٹ پرگاڑی پارلیمنٹ ہاؤس جانے کیلئے کہا ، اس بات پر مطمئن ہوں کہ اسلام آباد واقعے میں کوئی نقصان نہیں ہوا، ملزم سکندر کے زندہ ہونے کی وجہ سے اہم معلومات حاصل ہورہی ہیں ۔ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ زمرد خان کی تعریف کی تاہم سیکیورٹی کا کام سیکیورٹی اہلکاروں کا ہے، زمردخان کوان کی بہادری تک رہنے دیں انہیں ذوالفقارعلی بھٹو کی طرح پیر و مرشد نہ بنایا جائے، زمرد خان گرنے کے بعد مسلح شخص کی طرف پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تھے۔ ملزم سکندر کی گولی اس کی اہلیہ کو لگی، اگر وہ کسی اور کو لگ جاتی تو بڑا نقصان بھی ہو سکتا تھا۔ زمردخان کی بہادری پر مجھ سے سوال پوچھا گیا، جواب دیا کہ ان کی نیت ٹھیک تھی، بات کا اتنا بتنگڑ نہ بنائیں کہ کسی کا اچھا عمل منفی ہوجائے، میں نے زمرد خان کا دفاع کیا، ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہونے دیا، میں نے کسی ڈی ایس پی کومعطل نہیں کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ الزامات لگانے کے بعد کہا جاتا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کا مورال بلند رکھنا چاہتے ہیں، گزشتہ 5 اور 8 سال حکومت کر نے والے بھی اپنا احتساب کریں، حکومت کے 2 مہینے پر تنقید کر نے والے گزشتہ 5 سال دیکھیں، گزشتہ 13 سال میں کتنے بڑے واقعات ہوئے،ایک واقعہ کو سرپر اٹھالیا، گزشتہ 3 سال میں دہشت گردی کے ہزاروں واقعات ہوئے جن میں سیکڑوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے، مہران بیس، جی ایچ کیو حملے پر تماشا نہیں لگایا، مشورے دیئے، ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفتر پر خودکش حملہ اور بریگیڈیئر پر فائرنگ کے واقعات ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ 12 سال سے بغیر پالیسی دہشت گردی کیخلاف جنگ کررہے ہیں، ہم نے پچھلے حکمرانوں کو برداشت کیا ہے، آج اپوزیشن والے تھوڑا صبر کریں، سیکیورٹی صورتحال ہر ماہ پہلے سے زیادہ بہتر ہوگی، ہمیں ملنے والا پاکستان گزشتہ سال کی نسبت زیادہ محفوظ ہے، آئندہ ماہ پاکستان مزید محفوظ ہوگا اور اس سے آئندہ ماہ مزید، کراچی، پشاور، کوئٹہ سمیت ہر شہر لاہور کی طرح عزیز ہے بلکہ زیادہ عزیز ہیں۔ چوہدری نثار نے کہاکہ سیکیورٹی کی اہم ناکامیوں کا ذکر کررہا ہوں، کیا صوبائی وزیر اور وفاقی وزیر کا دن دیہاڑے قتل ریاست کی ناکامی نہیں تھا، مارکس مین نہ ہونے کے ذمہ دار گزشتہ 5 سال حکومت کرنے والے ہیں، مجھ سے استعفیٰ مانگنے والوں نے گزشتہ 5 سال استعفوں کی بات تک نہ کی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ایبٹ آباد پر حملہ کئی گھنٹے تک جاری رہا، پاکستان کی سرزمین پرحملہ ہوا تو کیا وزیراعظم اور وزیر دفاع موقع پرگئے، ممبئی پرحملہ ہوا تو نواز شریف نے برملا کہا کہ وہ حکومت اور فوج کیساتھ ہیں، بینظیر بھٹو پیپلزپارٹی کی نہیں قوم کی بڑی لیڈر تھیں،ان کی لاش ہسپتال میں تھی تو سب سے پہلے وہاں پہنچنے والے لیڈر نواز شریف تھے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ باتیں کرنے والے بند آنکھوں اور کانوں کو کھول کر سوچیں اگر تمام شہر بند تھا تو جناح ایونیو میں اتنے لوگ کیسے جمع ہوئے، کلثوم پلازہ ریڈ زون سے ڈھائی کلومیٹر دور ہے، 5 گھنٹے ایک شخص نے 100 مربع گز کے علاقے میں تماشا لگایا مگر وہ تماشا آج بھی جاری ہے اور اس کو چلانے والے کئی لوگ شامل ہیں۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اسلام آباد میں ایک واقعے کو سر پر اٹھانے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وفاقی دارالحکومت میں ایک صوبائی گورنر اور ایک وفاقی وزیر قتل ہوا، ڈپلومیٹک انکلیو میں گرجا گھر پر حملہ ہوا تب یہ ریاست کی ناکامی نہیں تھی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ ہم زمرد خان کے ساتھ نہیں اور نہ سکندر کے ساتھ تو ہو ہی نہیں سکتے بلکہ ہم آئین، قانون اور اس ملک کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ہیں وزیر داخلہ نے کہاکہ مسلم لیگ (ن)نے کبھی الزامات کی سیاست نہیں کی، ہم تیس مار خان نہیں کوئی چھوٹا موٹا کردار ہم بھی ادا کرتے ہیں اس لئے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
اسلام آباد(آن لائن)وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا ہے کہ بھارہ کہو ،امام بارگاہ پر حملہ کسی مذہبی انتہا پسند تنظیم کا نہیں جنوبی وزیرستان کے پڑے لکھے نوجوان کے گروپ نے کیا ۔مقامی خاتون اور افغان مہاجر نے بھی اس کارروائی میں اس کا ساتھ دیا ۔8 میں سے پانچ افرادکو گرفتار کر لیاگیا ہے۔مذکورہ گروپ اسلام آباد میں عید کے روز بڑی تباہی مچانا چاہتا تھا ۔ناکامی کے بعد انہوں نے بھارہ کہو کا رخ کیا۔کارروائی میں موبائل فون کی بجائے انٹرنیٹ اورجدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔تمام فرقوں کاتحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔12 سال میں قومی سلامتی پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکی ،حکومت سکیورٹی پالیسی کو دو مرحلوں میں پیش کرے گی ۔ایوان سے بھر پور رہنما ئی لی جائے گی۔بھارہ کہو اور کلثوم پلازہ واقعات علیحدہ علیحدہ نوعیت کے ہیں۔سکندر کی جان خطرہ سے باہر ہے۔فی الوقت اس کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے ثابت نہیں ہوا۔تفتیش میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔بدھ کے روز وفاقی وزیر خارجہ چوہدری نثار علی خان نے بھارہ کہو میں دہشت گرد حملے اور ملک میں اقلیتوں کونشانہ بنانے سے متعلق توجہ مبذول کرانے کے لئے جواب میں کہا کہ جنوبی وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھارہ کہو میں امام بارگاہ کو نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان کے یہ لوگ بھارہ کہو میں مقیم ہیں اور پڑھے لکھے ہیں ۔البتہ فی الوقت اس معاملے پرتحقیقات ہو رہی ہیں۔8 افراد بارے علم ہوا اور 5 کوگرفتار کر لیاگیا۔البتہ تین دیگر افراد کوگرفتار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان شرپسند جوانوں کا منصوبہ تھا کہ عید کے روز شہر میں بڑی تباہی مچائیں مگر وہ اسلام آباد میں داخل نہیں ہو سکے اور اسلام آباد میں داخلے میں ناکامی پر بھار کہو میں امام بارگاہ کو نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ اس واقعہ میں تمام جوان استعمال ہوئے ہیں۔جوپڑھے لکھے ہیں اور ان کا تعلق کسی بھی انتہا پسند سے نہیں تھا البتہ ایک مقامی لڑکی بھی اس کارروائی میں ان کے ساتھ شامل تھی جو ان نوجوانوں کی کلاس فیلو تھی ۔انہوں نے کہا کہ ایک افغان مہاجربھی اس کارروائی میں ملوث ہے۔انہوں نے کہا کہ 8 لڑکوں کے گروپ اسلام آباد میں تباہی مچادینا چاہتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ خود کش حملہ آور دوسرے مرحلے میں اسلام آباد میں داخل ہونا چاہتاتھا۔مگر اس کوناکامی ہوئی توپھر اسکے بھارہ کہو کا رخ کیا۔انہوں نے کہا کہ خود کش بمبار کا تعلق چینیوٹ کے علاقے سے ہے اور اسکا تعلق ایک مذہبی تنظیم ہے۔اس کے رشتہ داروں کو گرفتار کیا تھا مگر ان میں سے چند افراد کو رہا کر دیاہے۔انہوں نے توجہ مبذول کرانے کی محرک رکن منزہ حسن کے سوال کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ 12 سال سے دہشت گردی جاری ہے ۔اراکین تحمل کا مظاہرہ کریں۔12 سال میں نیشنل سکیورٹی پالیسی تشکیل ہی نہیں دی جا سکی ۔ہم اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صرف اقلیتی برادری نہیں بلکہ پاکستان میں بننے والے تمام فرقوں کے لوگوں کو تحفظ یقینی بنائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں داخلی سکیورٹی دوسرے مرحلے میں قومی سکیورٹی بارے ایوان کو آگاہ کیا جائے گا۔اس حوالے سے ایوان سے مکمل رہنمائی حاصل کی جائے گی۔انہوں نے اس موقع پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کبھی سکندر بارے میں یہ نہیں کہا کہ وہ بین الاقوامی سازش میں میرے الفاظ کوتوڑ موڑ کر شائع کیاگیا۔اس موقع پر نکتہ اعتراض پرپاکستان تحریک انصاف کے رہنما مخدوم جاویدہاشمی نے کہا کہ بھارہ کہو اور بلیو ایریا کے واقعات بارے وضاحت کی جائے کہ انکا تعلق کس سے ہے۔جس پرچوہدری نثار نے کہا کہ بھارہ کہو اورکلثوم پلازہ واقعات علیحدہ علیحدہ نوعیت کے تھے۔انہوں نے کہا کہ فی الوقت سکندر سے کوئی تفتیش نہیں کر سکے۔جیسے ہی ڈاکٹر اجازت دیں گے تو اس سے تفتیش کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ سکندر کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی تک سکندر کا تعلق کسی بھی دہشت گردی تنظیم سے ثابت نہیں ہوا۔جب اس سے تفتیش ہوگی تو پھر بہت سے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔اس موقع پر جنوبی وزیرستان کے باشندوں کا نام آنے سے فاٹا اراکین کے ناراضگی کا اظہار کیا جس پرچوہدری نثار علی خان نے کہا کہ 90 فیصد قبائل عوام محبت وطن ہیں البتہ دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد پورے ملک میں جہاں بھی ہوں گے ان کی نشاندہی کرناحکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ عوام کوتحفظ فراہم کرناحکومت کی اولین ترجیح ہے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد واقعہ پر تنقید کرنے پر سینیٹ میں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد تماشا 5گھنٹے کا نہیں تھا، تماشا اب تک لگاہے ٗ ملزم سکندر کے زندہ ہونے کی وجہ سے اہم معلومات حاصل ہورہی ہیں، بات کا اتنا بتنگڑ نہ بنائیں کہ کسی کا اچھا عمل منفی ہوجائے، دو ماہ پر 17 سوالات آگئے، 5سال پر میں بھی 117 سوالات پوچھ سکتا ہوں، 12سال سے بغیر پالیسی دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہے ہیں،زمرد خان کو بہادری تک ہی رہنے دیا جائے بھٹو کی طرح پیرومرشد نہ بنایا جائے ٗہم زمرخان کے ساتھ نہیں ٗ سکندر کے ساتھ تو ہو ہی نہیں سکتے ٗ ہم قانون ٗآئین اورپاکستان کے ساتھ ہیں ٗ اپوزیشن والے تھوڑا صبر کریں، سیکیورٹی صورتحال ہر ماہ پہلے سے زیادہ بہتر ہوگی، ہمیں ملنے والا پاکستان گزشتہ سال کی نسبت زیادہ محفوظ ہے، آئندہ ماہ پاکستان مزید محفوظ ہوگا ۔ بدھ کو سینیٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد واقعہ پر تنقید کرنے والے اپوزیشن رہنماؤں کر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ تماشا5گھنٹے کا نہیں تھا، تماشا اب بھی لگاہوا ہے، ریاست پر تنقید کرنے کا حق کسی کو نہیں،ہماری حکومت کنفیوژن کا شکار نہیں ، میں نے اپنا کوئی بیان تبدیل نہیں کیا، دو ماہ پر 17سوالات آگئے،گزشتہ5سال پرمیں117سوالات پوچھ سکتاہوں، سکندر نے سب سے پہلے گاڑی کے ڈرائیورکوگن پوائنٹ پرگاڑی پارلیمنٹ ہاؤس جانے کیلئے کہا ، اس بات پر مطمئن ہوں کہ اسلام آباد واقعے میں کوئی نقصان نہیں ہوا، ملزم سکندر کے زندہ ہونے کی وجہ سے اہم معلومات حاصل ہورہی ہیں ۔ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ زمرد خان کی تعریف کی تاہم سیکیورٹی کا کام سیکیورٹی اہلکاروں کا ہے، زمردخان کوان کی بہادری تک رہنے دیں انہیں ذوالفقارعلی بھٹو کی طرح پیر و مرشد نہ بنایا جائے، زمرد خان گرنے کے بعد مسلح شخص کی طرف پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تھے۔ ملزم سکندر کی گولی اس کی اہلیہ کو لگی، اگر وہ کسی اور کو لگ جاتی تو بڑا نقصان بھی ہو سکتا تھا۔ زمردخان کی بہادری پر مجھ سے سوال پوچھا گیا، جواب دیا کہ ان کی نیت ٹھیک تھی، بات کا اتنا بتنگڑ نہ بنائیں کہ کسی کا اچھا عمل منفی ہوجائے، میں نے زمرد خان کا دفاع کیا، ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہونے دیا، میں نے کسی ڈی ایس پی کومعطل نہیں کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ الزامات لگانے کے بعد کہا جاتا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کا مورال بلند رکھنا چاہتے ہیں، گزشتہ 5 اور 8 سال حکومت کر نے والے بھی اپنا احتساب کریں، حکومت کے 2 مہینے پر تنقید کر نے والے گزشتہ 5 سال دیکھیں، گزشتہ 13 سال میں کتنے بڑے واقعات ہوئے،ایک واقعہ کو سرپر اٹھالیا، گزشتہ 3 سال میں دہشت گردی کے ہزاروں واقعات ہوئے جن میں سیکڑوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے، مہران بیس، جی ایچ کیو حملے پر تماشا نہیں لگایا، مشورے دیئے، ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفتر پر خودکش حملہ اور بریگیڈیئر پر فائرنگ کے واقعات ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ 12 سال سے بغیر پالیسی دہشت گردی کیخلاف جنگ کررہے ہیں، ہم نے پچھلے حکمرانوں کو برداشت کیا ہے، آج اپوزیشن والے تھوڑا صبر کریں، سیکیورٹی صورتحال ہر ماہ پہلے سے زیادہ بہتر ہوگی، ہمیں ملنے والا پاکستان گزشتہ سال کی نسبت زیادہ محفوظ ہے، آئندہ ماہ پاکستان مزید محفوظ ہوگا اور اس سے آئندہ ماہ مزید، کراچی، پشاور، کوئٹہ سمیت ہر شہر لاہور کی طرح عزیز ہے بلکہ زیادہ عزیز ہیں۔ چوہدری نثار نے کہاکہ سیکیورٹی کی اہم ناکامیوں کا ذکر کررہا ہوں، کیا صوبائی وزیر اور وفاقی وزیر کا دن دیہاڑے قتل ریاست کی ناکامی نہیں تھا، مارکس مین نہ ہونے کے ذمہ دار گزشتہ 5 سال حکومت کرنے والے ہیں، مجھ سے استعفیٰ مانگنے والوں نے گزشتہ 5 سال استعفوں کی بات تک نہ کی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ایبٹ آباد پر حملہ کئی گھنٹے تک جاری رہا، پاکستان کی سرزمین پرحملہ ہوا تو کیا وزیراعظم اور وزیر دفاع موقع پرگئے، ممبئی پرحملہ ہوا تو نواز شریف نے برملا کہا کہ وہ حکومت اور فوج کیساتھ ہیں، بینظیر بھٹو پیپلزپارٹی کی نہیں قوم کی بڑی لیڈر تھیں،ان کی لاش ہسپتال میں تھی تو سب سے پہلے وہاں پہنچنے والے لیڈر نواز شریف تھے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ باتیں کرنے والے بند آنکھوں اور کانوں کو کھول کر سوچیں اگر تمام شہر بند تھا تو جناح ایونیو میں اتنے لوگ کیسے جمع ہوئے، کلثوم پلازہ ریڈ زون سے ڈھائی کلومیٹر دور ہے، 5 گھنٹے ایک شخص نے 100 مربع گز کے علاقے میں تماشا لگایا مگر وہ تماشا آج بھی جاری ہے اور اس کو چلانے والے کئی لوگ شامل ہیں۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اسلام آباد میں ایک واقعے کو سر پر اٹھانے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وفاقی دارالحکومت میں ایک صوبائی گورنر اور ایک وفاقی وزیر قتل ہوا، ڈپلومیٹک انکلیو میں گرجا گھر پر حملہ ہوا تب یہ ریاست کی ناکامی نہیں تھی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ ہم زمرد خان کے ساتھ نہیں اور نہ سکندر کے ساتھ تو ہو ہی نہیں سکتے بلکہ ہم آئین، قانون اور اس ملک کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ہیں وزیر داخلہ نے کہاکہ مسلم لیگ (ن)نے کبھی الزامات کی سیاست نہیں کی، ہم تیس مار خان نہیں کوئی چھوٹا موٹا کردار ہم بھی ادا کرتے ہیں اس لئے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔