کاشفی

محفلین
آئندہ ماہ پاکستان مزید محفوظ ہوگا، وفاقی وزیر داخلہ
nisar.jpg

اسلام آباد(آن لائن)وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا ہے کہ بھارہ کہو ،امام بارگاہ پر حملہ کسی مذہبی انتہا پسند تنظیم کا نہیں جنوبی وزیرستان کے پڑے لکھے نوجوان کے گروپ نے کیا ۔مقامی خاتون اور افغان مہاجر نے بھی اس کارروائی میں اس کا ساتھ دیا ۔8 میں سے پانچ افرادکو گرفتار کر لیاگیا ہے۔مذکورہ گروپ اسلام آباد میں عید کے روز بڑی تباہی مچانا چاہتا تھا ۔ناکامی کے بعد انہوں نے بھارہ کہو کا رخ کیا۔کارروائی میں موبائل فون کی بجائے انٹرنیٹ اورجدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔تمام فرقوں کاتحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔12 سال میں قومی سلامتی پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکی ،حکومت سکیورٹی پالیسی کو دو مرحلوں میں پیش کرے گی ۔ایوان سے بھر پور رہنما ئی لی جائے گی۔بھارہ کہو اور کلثوم پلازہ واقعات علیحدہ علیحدہ نوعیت کے ہیں۔سکندر کی جان خطرہ سے باہر ہے۔فی الوقت اس کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے ثابت نہیں ہوا۔تفتیش میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔بدھ کے روز وفاقی وزیر خارجہ چوہدری نثار علی خان نے بھارہ کہو میں دہشت گرد حملے اور ملک میں اقلیتوں کونشانہ بنانے سے متعلق توجہ مبذول کرانے کے لئے جواب میں کہا کہ جنوبی وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھارہ کہو میں امام بارگاہ کو نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان کے یہ لوگ بھارہ کہو میں مقیم ہیں اور پڑھے لکھے ہیں ۔البتہ فی الوقت اس معاملے پرتحقیقات ہو رہی ہیں۔8 افراد بارے علم ہوا اور 5 کوگرفتار کر لیاگیا۔البتہ تین دیگر افراد کوگرفتار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان شرپسند جوانوں کا منصوبہ تھا کہ عید کے روز شہر میں بڑی تباہی مچائیں مگر وہ اسلام آباد میں داخل نہیں ہو سکے اور اسلام آباد میں داخلے میں ناکامی پر بھار کہو میں امام بارگاہ کو نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا کہ اس واقعہ میں تمام جوان استعمال ہوئے ہیں۔جوپڑھے لکھے ہیں اور ان کا تعلق کسی بھی انتہا پسند سے نہیں تھا البتہ ایک مقامی لڑکی بھی اس کارروائی میں ان کے ساتھ شامل تھی جو ان نوجوانوں کی کلاس فیلو تھی ۔انہوں نے کہا کہ ایک افغان مہاجربھی اس کارروائی میں ملوث ہے۔انہوں نے کہا کہ 8 لڑکوں کے گروپ اسلام آباد میں تباہی مچادینا چاہتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ خود کش حملہ آور دوسرے مرحلے میں اسلام آباد میں داخل ہونا چاہتاتھا۔مگر اس کوناکامی ہوئی توپھر اسکے بھارہ کہو کا رخ کیا۔انہوں نے کہا کہ خود کش بمبار کا تعلق چینیوٹ کے علاقے سے ہے اور اسکا تعلق ایک مذہبی تنظیم ہے۔اس کے رشتہ داروں کو گرفتار کیا تھا مگر ان میں سے چند افراد کو رہا کر دیاہے۔انہوں نے توجہ مبذول کرانے کی محرک رکن منزہ حسن کے سوال کے جواب میں ایوان کو بتایا کہ 12 سال سے دہشت گردی جاری ہے ۔اراکین تحمل کا مظاہرہ کریں۔12 سال میں نیشنل سکیورٹی پالیسی تشکیل ہی نہیں دی جا سکی ۔ہم اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صرف اقلیتی برادری نہیں بلکہ پاکستان میں بننے والے تمام فرقوں کے لوگوں کو تحفظ یقینی بنائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں داخلی سکیورٹی دوسرے مرحلے میں قومی سکیورٹی بارے ایوان کو آگاہ کیا جائے گا۔اس حوالے سے ایوان سے مکمل رہنمائی حاصل کی جائے گی۔انہوں نے اس موقع پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کبھی سکندر بارے میں یہ نہیں کہا کہ وہ بین الاقوامی سازش میں میرے الفاظ کوتوڑ موڑ کر شائع کیاگیا۔اس موقع پر نکتہ اعتراض پرپاکستان تحریک انصاف کے رہنما مخدوم جاویدہاشمی نے کہا کہ بھارہ کہو اور بلیو ایریا کے واقعات بارے وضاحت کی جائے کہ انکا تعلق کس سے ہے۔جس پرچوہدری نثار نے کہا کہ بھارہ کہو اورکلثوم پلازہ واقعات علیحدہ علیحدہ نوعیت کے تھے۔انہوں نے کہا کہ فی الوقت سکندر سے کوئی تفتیش نہیں کر سکے۔جیسے ہی ڈاکٹر اجازت دیں گے تو اس سے تفتیش کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ سکندر کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور اب وہ خطرے سے باہر ہیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی تک سکندر کا تعلق کسی بھی دہشت گردی تنظیم سے ثابت نہیں ہوا۔جب اس سے تفتیش ہوگی تو پھر بہت سے سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔اس موقع پر جنوبی وزیرستان کے باشندوں کا نام آنے سے فاٹا اراکین کے ناراضگی کا اظہار کیا جس پرچوہدری نثار علی خان نے کہا کہ 90 فیصد قبائل عوام محبت وطن ہیں البتہ دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد پورے ملک میں جہاں بھی ہوں گے ان کی نشاندہی کرناحکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ عوام کوتحفظ فراہم کرناحکومت کی اولین ترجیح ہے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد واقعہ پر تنقید کرنے پر سینیٹ میں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد تماشا 5گھنٹے کا نہیں تھا، تماشا اب تک لگاہے ٗ ملزم سکندر کے زندہ ہونے کی وجہ سے اہم معلومات حاصل ہورہی ہیں، بات کا اتنا بتنگڑ نہ بنائیں کہ کسی کا اچھا عمل منفی ہوجائے، دو ماہ پر 17 سوالات آگئے، 5سال پر میں بھی 117 سوالات پوچھ سکتا ہوں، 12سال سے بغیر پالیسی دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہے ہیں،زمرد خان کو بہادری تک ہی رہنے دیا جائے بھٹو کی طرح پیرومرشد نہ بنایا جائے ٗہم زمرخان کے ساتھ نہیں ٗ سکندر کے ساتھ تو ہو ہی نہیں سکتے ٗ ہم قانون ٗآئین اورپاکستان کے ساتھ ہیں ٗ اپوزیشن والے تھوڑا صبر کریں، سیکیورٹی صورتحال ہر ماہ پہلے سے زیادہ بہتر ہوگی، ہمیں ملنے والا پاکستان گزشتہ سال کی نسبت زیادہ محفوظ ہے، آئندہ ماہ پاکستان مزید محفوظ ہوگا ۔ بدھ کو سینیٹ میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اسلام آباد واقعہ پر تنقید کرنے والے اپوزیشن رہنماؤں کر آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ تماشا5گھنٹے کا نہیں تھا، تماشا اب بھی لگاہوا ہے، ریاست پر تنقید کرنے کا حق کسی کو نہیں،ہماری حکومت کنفیوژن کا شکار نہیں ، میں نے اپنا کوئی بیان تبدیل نہیں کیا، دو ماہ پر 17سوالات آگئے،گزشتہ5سال پرمیں117سوالات پوچھ سکتاہوں، سکندر نے سب سے پہلے گاڑی کے ڈرائیورکوگن پوائنٹ پرگاڑی پارلیمنٹ ہاؤس جانے کیلئے کہا ، اس بات پر مطمئن ہوں کہ اسلام آباد واقعے میں کوئی نقصان نہیں ہوا، ملزم سکندر کے زندہ ہونے کی وجہ سے اہم معلومات حاصل ہورہی ہیں ۔ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ زمرد خان کی تعریف کی تاہم سیکیورٹی کا کام سیکیورٹی اہلکاروں کا ہے، زمردخان کوان کی بہادری تک رہنے دیں انہیں ذوالفقارعلی بھٹو کی طرح پیر و مرشد نہ بنایا جائے، زمرد خان گرنے کے بعد مسلح شخص کی طرف پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تھے۔ ملزم سکندر کی گولی اس کی اہلیہ کو لگی، اگر وہ کسی اور کو لگ جاتی تو بڑا نقصان بھی ہو سکتا تھا۔ زمردخان کی بہادری پر مجھ سے سوال پوچھا گیا، جواب دیا کہ ان کی نیت ٹھیک تھی، بات کا اتنا بتنگڑ نہ بنائیں کہ کسی کا اچھا عمل منفی ہوجائے، میں نے زمرد خان کا دفاع کیا، ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہونے دیا، میں نے کسی ڈی ایس پی کومعطل نہیں کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ الزامات لگانے کے بعد کہا جاتا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کا مورال بلند رکھنا چاہتے ہیں، گزشتہ 5 اور 8 سال حکومت کر نے والے بھی اپنا احتساب کریں، حکومت کے 2 مہینے پر تنقید کر نے والے گزشتہ 5 سال دیکھیں، گزشتہ 13 سال میں کتنے بڑے واقعات ہوئے،ایک واقعہ کو سرپر اٹھالیا، گزشتہ 3 سال میں دہشت گردی کے ہزاروں واقعات ہوئے جن میں سیکڑوں افراد شہید اور ہزاروں زخمی ہوئے، مہران بیس، جی ایچ کیو حملے پر تماشا نہیں لگایا، مشورے دیئے، ورلڈ فوڈ پروگرام کے دفتر پر خودکش حملہ اور بریگیڈیئر پر فائرنگ کے واقعات ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ 12 سال سے بغیر پالیسی دہشت گردی کیخلاف جنگ کررہے ہیں، ہم نے پچھلے حکمرانوں کو برداشت کیا ہے، آج اپوزیشن والے تھوڑا صبر کریں، سیکیورٹی صورتحال ہر ماہ پہلے سے زیادہ بہتر ہوگی، ہمیں ملنے والا پاکستان گزشتہ سال کی نسبت زیادہ محفوظ ہے، آئندہ ماہ پاکستان مزید محفوظ ہوگا اور اس سے آئندہ ماہ مزید، کراچی، پشاور، کوئٹہ سمیت ہر شہر لاہور کی طرح عزیز ہے بلکہ زیادہ عزیز ہیں۔ چوہدری نثار نے کہاکہ سیکیورٹی کی اہم ناکامیوں کا ذکر کررہا ہوں، کیا صوبائی وزیر اور وفاقی وزیر کا دن دیہاڑے قتل ریاست کی ناکامی نہیں تھا، مارکس مین نہ ہونے کے ذمہ دار گزشتہ 5 سال حکومت کرنے والے ہیں، مجھ سے استعفیٰ مانگنے والوں نے گزشتہ 5 سال استعفوں کی بات تک نہ کی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ ایبٹ آباد پر حملہ کئی گھنٹے تک جاری رہا، پاکستان کی سرزمین پرحملہ ہوا تو کیا وزیراعظم اور وزیر دفاع موقع پرگئے، ممبئی پرحملہ ہوا تو نواز شریف نے برملا کہا کہ وہ حکومت اور فوج کیساتھ ہیں، بینظیر بھٹو پیپلزپارٹی کی نہیں قوم کی بڑی لیڈر تھیں،ان کی لاش ہسپتال میں تھی تو سب سے پہلے وہاں پہنچنے والے لیڈر نواز شریف تھے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ باتیں کرنے والے بند آنکھوں اور کانوں کو کھول کر سوچیں اگر تمام شہر بند تھا تو جناح ایونیو میں اتنے لوگ کیسے جمع ہوئے، کلثوم پلازہ ریڈ زون سے ڈھائی کلومیٹر دور ہے، 5 گھنٹے ایک شخص نے 100 مربع گز کے علاقے میں تماشا لگایا مگر وہ تماشا آج بھی جاری ہے اور اس کو چلانے والے کئی لوگ شامل ہیں۔وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اسلام آباد میں ایک واقعے کو سر پر اٹھانے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ وفاقی دارالحکومت میں ایک صوبائی گورنر اور ایک وفاقی وزیر قتل ہوا، ڈپلومیٹک انکلیو میں گرجا گھر پر حملہ ہوا تب یہ ریاست کی ناکامی نہیں تھی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ ہم زمرد خان کے ساتھ نہیں اور نہ سکندر کے ساتھ تو ہو ہی نہیں سکتے بلکہ ہم آئین، قانون اور اس ملک کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ہیں وزیر داخلہ نے کہاکہ مسلم لیگ (ن)نے کبھی الزامات کی سیاست نہیں کی، ہم تیس مار خان نہیں کوئی چھوٹا موٹا کردار ہم بھی ادا کرتے ہیں اس لئے وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔
 

حسینی

محفلین
بہارہ کہو کے ایریے سے میں کافی آشنائی رکھتا ہوں۔۔۔۔ یہ علاقہ دار الحکومت کے بغل میں دہشت گردوں کا گھڑ بنا ہوا ہے۔۔۔ وزیرستان سے بہت سے دہشت گرد آکر یہاں رہ رہے ہیں۔۔۔ ان کے ذاتی گھر بھی ہیں۔۔ آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں۔۔۔ یہ سب ہماری ایجنسیوں کی ناک کے نیچے ان کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔۔۔
پچھلے سال غالبا القدس کی ریلی میں بھی دو مذہبی گروپوں میں فساد ہوا تھا اور پتھروں کا آزادانہ استعمال ہوا تھا۔
ہماری حکومت صرف ایک کام کرے تو سادی دہشت گردی دنوں میں ختم ہوجائے گی۔۔۔ وہ یہ جو بھی دہشت گرد پکڑا جاتا ہے اس کو فورا سر عام تختہ دار پر لٹکایا جائے۔
مشکل یہ ہے کہ یہ دہشت گرد جیل میں بھی ٹھاٹ سے رہتے ہیں۔۔ اور کل کو شاہانہ طریقے سے بری کر دیے جاتے ہیں اور پھر اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں۔
ابھی حامد کرزائی صاحب بھی پاکستان سے دہشت گرد چھڑوانے آرہے ہیں۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا قیام خوش آئند ہے لیکن اب اس پر عمل بھی کیا جانا چاہئے ورنہ خالی خولی پالیسیاں بہت عرصے سے چاٹ رہے ہیں ہم۔ افسوس ناک بات میاں نواز شریف کا فیصلہ ہے جس میں انہوں نے موت کی سزا پر عمل در آمد روک دیا ہے اور ہمارے ”صدر صاب“ نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔
 

حسینی

محفلین
نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا قیام خوش آئند ہے لیکن اب اس پر عمل بھی کیا جانا چاہئے ورنہ خالی خولی پالیسیاں بہت عرصے سے چاٹ رہے ہیں ہم۔ افسوس ناک بات میاں نواز شریف کا فیصلہ ہے جس میں انہوں نے موت کی سزا پر عمل در آمد روک دیا ہے اور ہمارے ”صدر صاب“ نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہماری حکومت ان لوگوں کو دہشت گرد مانتی ہے یا نہ جنہوں نے اس ملک کے امن کو تباہ کیا۔
اگر مانتی ہے تو دہشت گردوں کو کچل دینا چاہیے۔۔ ان کو مزید وقت دینا اور ان کی دھمکی میں آکر پھانسی کی سزا معطل کرنا ہماری کمزوری کو ثابت کرتے ہیں۔
اگر پاک فوج سوات میں امن واپس لا سکتی ہے۔۔۔ تو اور جگہوں پر ایسا ممکن ہے۔۔۔
پاکستان میں کوئی جگہ کوئی ایجنسی ایسی نہیں ہونی چاہیے جہاں پاکستان کا قانون نافذ نہ ہو۔۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
صد فیصد متفق۔
پاکستانی طالبان اور لشکر جھنگوی وغیرہ بلاشبہ سر تا پا فساد ہیں اور فساد کو ہمیشہ اس کی جڑ سے اکھیڑنا چاہئے، لہٰذا ان سب کو لازمی کچلنا چاہئے اور ان سے مذاکرات جہالت ہوگی۔
رہی بات افغانی طالبان کی تو ان کا موقف حق ہے ،وہ اپنے ملک اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہاں لیکن انہیں پاکستان میں رہنے اور یہاں سے اپنی کاروائیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔
پاکستانی طالبان اور اس کی ذیلی تنظیموں جن میں کچھ افغانی گروپ بھی شامل ہیں کو افغانی سرحد سے بہت مدد ملتی ہے اس لئے اگر امریکہ افغانستان سے نکلتا ہے اور انڈیا کو افغانستان میں اپنی فوجیں تعینات کرنے کی اجازت نہیں ملتی تو میں حالات کے بہتر ہونے بارے بہت پر امید ہوں۔
 

سید ذیشان

محفلین
سوال یہ ہے کہ ہماری حکومت ان لوگوں کو دہشت گرد مانتی ہے یا نہ جنہوں نے اس ملک کے امن کو تباہ کیا۔
اگر مانتی ہے تو دہشت گردوں کو کچل دینا چاہیے۔۔ ان کو مزید وقت دینا اور ان کی دھمکی میں آکر پھانسی کی سزا معطل کرنا ہماری کمزوری کو ثابت کرتے ہیں۔
اگر پاک فوج سوات میں امن واپس لا سکتی ہے۔۔۔ تو اور جگہوں پر ایسا ممکن ہے۔۔۔
پاکستان میں کوئی جگہ کوئی ایجنسی ایسی نہیں ہونی چاہیے جہاں پاکستان کا قانون نافذ نہ ہو۔۔

سوات میں بھی اپریشن سے پہلے ان سے مذاکرات کئے گئے تھے اور پھر جب طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو اپریشن شروع کیا گیا۔ مذاکرات کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کو معلوم ہو جاتا ہے کہ طالبان مذاکرات نہیں کرنا چاہتے ان کے اصل عزائم کچھ اور ہیں۔ اس کے بعد ان کے خلاف اتحاد قائم ہو سکتا ہے۔
 

حسینی

محفلین
سوات میں بھی اپریشن سے پہلے ان سے مذاکرات کئے گئے تھے اور پھر جب طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو اپریشن شروع کیا گیا۔ مذاکرات کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کو معلوم ہو جاتا ہے کہ طالبان مذاکرات نہیں کرنا چاہتے ان کے اصل عزائم کچھ اور ہیں۔ اس کے بعد ان کے خلاف اتحاد قائم ہو سکتا ہے۔

وہ جن کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوں ان سے مذاکرات کیسے؟
آیا آپ کے مذاکرات سے وہ ہتھیار ڈال دیں گے؟؟
یہ ریاست کی رٹ کو قبول کریں گے؟
یا پاک فوج اور پاکستانی عوام کو مارنا بند کر دیں گے؟
میرا خیال ہے پاکستان کی حکومت کو دہشت گردی کے حوالے سے کسی بھی محاذ پر ذرہ برابر نرم رویہ ہرگز نہیں اپنانا چاہیے اور آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔
 

سید ذیشان

محفلین
وہ جن کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوں ان سے مذاکرات کیسے؟
آیا آپ کے مذاکرات سے وہ ہتھیار ڈال دیں گے؟؟
یہ ریاست کی رٹ کو قبول کریں گے؟
یا پاک فوج اور پاکستانی عوام کو مارنا بند کر دیں گے؟
میرا خیال ہے پاکستان کی حکومت کو دہشت گردی کے حوالے سے کسی بھی محاذ پر ذرہ برابر نرم رویہ ہرگز نہیں اپنانا چاہیے اور آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔

اصولاً تو آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن پاکستان میں زمینی حقائق کافی مختلف ہیں۔ جب پاکستان بنا اور 1953 میں احمدیوں پر بلوے کئے گئے تو کیا اس وقت حکومت نے سخت ایکشن لیا؟ اس کے بعد بھی کبھی مذہبی فسادات پر ایکشن نہیں لیا گیا۔ تو اب اچانک ایسا کیا ہو گیا ہے کہ حکومت میں ایک دم سے جان آ جائے گی اور وہ ایکشن لینا شروع کر دیں گے؟ اگر پاکستانی عوام کی سپورٹ (جانی، مالی اور اخلاقی) نہ ہوتی تو طالبان کی تنظیم 10 سال تو کیا 10 ماہ بھی قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ اور یہ بھی ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ 80 اور 90 کی دہائی میں انہی لوگوں کو "مجاہدین" کے نام سے پکارا جاتا تھا اور حکومت کی پوری سپورٹ ان کو شامل تھی۔ ہمارے معاشرے میں کافی لوگ ان کو سپورٹ کرتے ہیں کیونکہ دہائیوں پر محیط حکومتوں کی پالیسیوں نے ان کو ہمارے لئے ہیرو بنا کر پیش کیا ہے۔ بینظیر جیسی لبرل خاتون کی حکومت میں افغانستان میں طالبان بنائے گئے۔ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
اصولاً تو آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن پاکستان میں زمینی حقائق کافی مختلف ہیں۔ جب پاکستان بنا اور 1953 میں احمدیوں پر بلوے کئے گئے تو کیا اس وقت حکومت نے سخت ایکشن لیا؟ اس کے بعد بھی کبھی مذہبی فسادات پر ایکشن نہیں لیا گیا۔ تو اب اچانک ایسا کیا ہو گیا ہے کہ حکومت میں ایک دم سے جان آ جائے گی اور وہ ایکشن لینا شروع کر دیں گے؟ اگر پاکستانی عوام کی سپورٹ (جانی، مالی اور اخلاقی) نہ ہوتی تو طالبان کی تنظیم 10 سال تو کیا 10 ماہ بھی قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ اور یہ بھی ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ 80 اور 90 کی دہائی میں انہی لوگوں کو "مجاہدین" کے نام سے پکارا جاتا تھا اور حکومت کی پوری سپورٹ ان کو شامل تھی۔ ہمارے معاشرے میں کافی لوگ ان کو سپورٹ کرتے ہیں کیونکہ دہائیوں پر محیط حکومتوں کی پالیسیوں نے ان کو ہمارے لئے ہیرو بنا کر پیش کیا ہے۔ بینظیر جیسی لبرل خاتون کی حکومت میں افغانستان میں طالبان بنائے گئے۔ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں۔
آپ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور کشمیر میں جہاد کرنے والے مجاہدین کو انہی پلید لوگوں کے برابر سمجھ رہے ہیں؟۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ان تنظیموں میں سے بھی کچھ لعنتی اور بھٹکے ہوئے عناصر نے تحریک طالبان پاکستان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے بھی جن میں لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سر فہرست ہیں لیکن اگر روس کے خلاف لڑنے والے اور کشمیری مجاہدین کو ان سب کے ساتھ ایک ہی تڑی میں تولا جانا چاہئے تو پھر تو پاکستانیوں کی ایک بڑی آبادی کے ساتھ ساتھ پاک فوج کی مجاہد رجمنٹ کو بھی اڑا دینا چاہئے جو کشمیر میں مجاہدین کا ساتھ دیتی رہی ہے۔
لہٰذا ہر ایک عنصر میں فرق کو سمجھئے، اس غور و تحقیق کے فقدان نے ہی ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔
القاعدہ اورطالبان لعین اور دہشت گرد ہیں اس میں کوئی شک نہیں اور ان کے ساتھ ساتھ وہ تمام تنظیمیں بھی جو پاکستان میں بے گناہ افراد کو شہید کرتی رہی ہیں، ان سب کو پھانسی دے دینی چاہئے۔ یہی میرا موقف ہے لیکن ہر الزام سے پہلے تحقیق بھی ہمی پر فرض ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
آپ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور کشمیر میں جہاد کرنے والے مجاہدین کو انہی پلید لوگوں کے برابر سمجھ رہے ہیں؟۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ان تنظیموں میں سے بھی کچھ لعنتی اور بھٹکے ہوئے عناصر نے تحریک طالبان پاکستان کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے بھی جن میں لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سر فہرست ہیں لیکن اگر روس کے خلاف لڑنے والے اور کشمیری مجاہدین کو ان سب کے ساتھ ایک ہی تڑی میں تولا جانا چاہئے تو پھر تو پاکستانیوں کی ایک بڑی آبادی کے ساتھ ساتھ پاک فوج کی مجاہد رجمنٹ کو بھی اڑا دینا چاہئے جو کشمیر میں مجاہدین کا ساتھ دیتی رہی ہے۔
لہٰذا ہر ایک عنصر میں فرق کو سمجھئے، اس غور و تحقیق کے فقدان نے ہی ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔
القاعدہ اورطالبان لعین اور دہشت گرد ہیں اس میں کوئی شک نہیں اور ان کے ساتھ ساتھ وہ تمام تنظیمیں بھی جو پاکستان میں بے گناہ افراد کو شہید کرتی رہی ہیں، ان سب کو پھانسی دے دینی چاہئے۔ یہی میرا موقف ہے لیکن ہر الزام سے پہلے تحقیق بھی ہمی پر فرض ہے۔

کشمیر میں جہاد کرنے والے ایک کمانڈر کا نام تھا "الیاس کشمیری" اس نے 313 بریگیڈ کے نام سے ایک تنظیم بنائی تھی اور وہی تنظیم پاکستان میں کافی ہائی پروفائل حملوں میں ملوث رہی مثالاً جی ایچ کیو پر اٹیک وغیرہ۔

جب آپ آگ سے کھیلیں گے تو وہی آگ آپ کو بھی جلائے گی۔ میں تحریک طالبان پاکستان اور القائدہ کو پاکستان کی گذشتہ تیس سالوں کی پالیسیوں کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔ اور یہ لوگ کچھ ایسے غلط بھی نہیں ہیں۔ جب پچھلے تیس سالوں سے ہم ان کو اسلام اور شریعت کا درس دے رہے ہیں تو کیا یہ اپنی اس بات میں غلط ہیں کہ پہلے پاکستان کو تو اسلامی اور شرعی بناؤ بعد میں کشمیر اور افغانستان کی بات کرنا۔ It's like chickens coming home to roost.
 
اصولاً تو آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن پاکستان میں زمینی حقائق کافی مختلف ہیں۔ جب پاکستان بنا اور 1953 میں احمدیوں پر بلوے کئے گئے تو کیا اس وقت حکومت نے سخت ایکشن لیا؟۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، سخت ایکشن لیا گیا تھا اور لاہور میں جنرل اعظم خان نے فوجی ایکشن کرکے ان فسادات پر قابو پایا تھا۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، سخت ایکشن لیا گیا تھا اور لاہور میں جنرل اعظم خان نے فوجی ایکشن کرکے ان فسادات پر قابو پایا تھا۔۔

محمود بھائی، آپ نے جسٹس رستم کیانی (تدوین: جسٹس منیر) کی رپورٹ پڑھی ہے ان فسادات پرِ؟ وہ ضرور پڑھیے گا۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ جو کچھ آج کل ہو رہا ہے وہ بہت پہلے سے ہوتا رہا ہے۔

آرمی ایکشن تب لیا گیا تھا جب حالات کنٹرول سے باہر ہو گئے تھے اور کئی لوگوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ پاکستان میں مارشل لاء کا تصور بھی اس کے بعد سے پڑ گیا تھا جب لاہور میں پہلی بار یہ لگایا گیا تھا۔
 
آخری تدوین:

حاتم راجپوت

لائبریرین
کشمیر میں جہاد کرنے والے ایک کمانڈر کا نام تھا "الیاس کشمیری" اس نے 313 بریگیڈ کے نام سے ایک تنظیم بنائی تھی اور وہی تنظیم پاکستان میں کافی ہائی پروفائل حملوں میں ملوث رہی مثالاً جی ایچ کیو پر اٹیک وغیرہ۔

جب آپ آگ سے کھیلیں گے تو وہی آگ آپ کو بھی جلائے گی۔ میں تحریک طالبان پاکستان اور القائدہ کو پاکستان کی گذشتہ تیس سالوں کی پالیسیوں کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔ اور یہ لوگ کچھ ایسے غلط بھی نہیں ہیں۔ جب پچھلے تیس سالوں سے ہم ان کو اسلام اور شریعت کا درس دے رہے ہیں تو کیا یہ اپنی اس بات میں غلط ہیں کہ پہلے پاکستان کو تو اسلامی اور شرعی بناؤ بعد میں کشمیر اور افغانستان کی بات کرنا۔ It's like chickens coming home to roost.
میں اس بات سے متفق ہوں کہ آگ سے کھیل کر اسے کنٹرول نہیں کیا گیا لیکن شریعت نافذ کروانے میں اگر سینکڑوں انسانوں کی جان لے لی جائے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ سب ڈر کر شریعت نافذ کر لیں گے اور شریعت کا ایسا نفاذ کیا اسلام میں کہیں نظر آتا ہے؟
شریعت کا نفاذ کروانا علماء کی ذمہ داری ہے لیکن اس معاملے میں پاکستان کے علماء کا کردار انتہائی مایوس کن ہے بلکہ ہے ہی نہیں۔ جو خود کو اہل حق سمجھتے ہیں وہ خاموش بیٹھے ہیں اور جو ہر طرح سے غلط ہیں وہ غالب آتے جا رہے ہیں۔
 

سید ذیشان

محفلین
میں اس بات سے متفق ہوں کہ آگ سے کھیل کر اسے کنٹرول نہیں کیا گیا لیکن شریعت نافذ کروانے میں اگر سینکڑوں انسانوں کی جان لے لی جائے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ سب ڈر کر شریعت نافذ کر لیں گے اور شریعت کا ایسا نفاذ کیا اسلام میں کہیں نظر آتا ہے؟

بھائی، میں کون سا کوئی طالبان کا سپوکس پرسن ہوں۔ وہ لوگ اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ تکفیری ان لوگوں کو کہتے ہیں جو اپنے گروہ، فرقے وغیرہ کے علاوہ سب کو کافر سمجھتے ہوں۔ یہ لوگ تکفیری ہیں بلکہ یہ اس سے ایک ہاتھ آگے ہیں، یہ بے گناہ لوگوں کے قتل کو بھی جائز سمجھتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ان کا ساتھ نہیں دیتے۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
کشمیر میں جہاد کرنے والے ایک کمانڈر کا نام تھا "الیاس کشمیری" اس نے 313 بریگیڈ کے نام سے ایک تنظیم بنائی تھی اور وہی تنظیم پاکستان میں کافی ہائی پروفائل حملوں میں ملوث رہی مثالاً جی ایچ کیو پر اٹیک وغیرہ۔

جب آپ آگ سے کھیلیں گے تو وہی آگ آپ کو بھی جلائے گی۔ میں تحریک طالبان پاکستان اور القائدہ کو پاکستان کی گذشتہ تیس سالوں کی پالیسیوں کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔ اور یہ لوگ کچھ ایسے غلط بھی نہیں ہیں۔ جب پچھلے تیس سالوں سے ہم ان کو اسلام اور شریعت کا درس دے رہے ہیں تو کیا یہ اپنی اس بات میں غلط ہیں کہ پہلے پاکستان کو تو اسلامی اور شرعی بناؤ بعد میں کشمیر اور افغانستان کی بات کرنا۔ It's like chickens coming home to roost.
میں نے آپ کے ان الفاظ کے تناظر پر بات کی تھی۔ بہر حال آپ کے تکفیریوں کے بارے بیان سے صد فیصد متفق ہوں۔
 
Top