محمد وارث
لائبریرین
آپ کی بات کسی حد تک درست ہے، لیکن نصیبو لال سے پہلے بھی "آئٹم سانگ" پاکستانی فلموں کا حصہ رہے ہیں۔ ستر کی دہائی میں جب بھٹو دور میں سنسر کو ختم ہونے کی حد تک نرم کر دیا گیا تھا تو اس وقت ایک طوفانِ بدتمیزی برپا ہو گیا تھا۔ اُن گانوں کی دھنیں انتہائی لاجواب ہیں لیکن ان کے الفاظ اور پھر جس طرح سے ان کو فلم بند کیا گیا وہ انتہائی قابل اعتراض ہیں، میں اب بھی وہ گانے سنتا ہوں لیکن صرف سازینے کی حد تک یا زیادہ سے زیادہ آڈیو کہ موسیقی کا قتیل ہوں اعضا کا نہیں ۔ اس کے بعد کے دور میں آنجہانی نورجہاں نے بھی بہت سے گُل کھلائے، خاص طور پر 1989ء کے بعد سے جب ایک بار پھر پاکستان میں سنسر کو نرم کر دیا گیا تھا۔ہاہاہاہا!! دلچسپ اصطلاح ہے۔
ہمارا خیال تھا آئٹم سانگ کو پنجابی میں نصیبو لعل کہتے ہیں۔ ویسے یہ لفظ لعل ہے یا لال ہے؟؟ ہمیں دوسرا والا آپشن زیادہ بہتر لگتا ہے۔
دوسری طرف ہمارے ہمسائیوں کے ہاں نوے کی دہائی میں، مقبول سُپر ہٹ پرانے فلمی گانوں کو "ری مکس" کر کے آئٹم سانگ بنائے گئے تھے (اور انہیں گانوں کی سی ڈیوں کو "گرم مصالحہ" کے عنوان سے پاکستان میں بیچا گیا تھا) اور پھر ان آئٹم سانگز کی ایک لہر نے بالی وڈ فلم انڈسٹری کو اپنی جکڑ بندی میں لے لیا۔