باب (۲)
آسمانی صحیفوں میں علم فلکیات
خالق ارض وسموات نے کائنات کو خلق کیا اور انسان کو زمین پر اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا انسان نے اپنے خالق کے زیر سایہ خود کو متمدن تو کر دیا لیکن کائنات کے اسرارو رموز کی صدیوں سے تشریح کرنے کے باوجود وہ کائنات کے پوشیدہ رازوں کو پانے سے قاصر ہی رہا۔ ان اسرار و ر موز کو جاننے کے لئے انسان نے بہت سے طریقے ایجاد کئے ۔ جب اللہ نے مختلف قوموں کو مختلف آسمانی صحیفے عطا فرمائے تو ان قوموں نے ان کے ذریعہ کائنات کے اسرار و رموز کو پانے کی سعی کی۔
رموز کائنات کو جاننے کے لئے انسان نے قدیم صحیفوں سے لے کر جدید ترین آسمانی صحیفے قرآن پاک تک سے مدد طلب کی۔ انسان نے زمین اور کائنات کی تخلیق کے متعلق پہلے زبور سے مدد لی۔
زمین کی تخلیق کے بارے میں زبور میں اس طرح ارشاد ہوا ہے ۔
(زبور 24آیات 1 اور 2)
’’زمین خداوند کی ہے اور اس کی معموری بھی جہاں اور اس کے سارے باشندے اس کے ہیں اس لئے کہ اس کی بنیاد پانیوں پر رکھی اور اسے سیلابوں پر قائم کیا گیا ہے ‘‘۔
(ترجمہ ’’نگار‘‘ (خدا نمبر) از علامہ نیاز فتح پوری ۱۹۵۶)
مندرجہ بالا آیات میں زمین کے پانی سے پیدا ہونے اور پانی پر ہی قائم رہنے کی طرف اشارہ ملتا ہے ۔ زبور میں ایک جگہ اور ارشا ہوا ہے ۔
’’خداوند کے کلام سے آسمان بنے اور ان کے سارے لشکر اس کے منھ کے دم سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا۔ اور وہ ہو گیا، اس نے فرمایا اور وہ برپا ہو گیا۔
(زبور ۳۳ آیات۶۔۹ ترجمہ ’’نگار‘‘ (خدا نمبر) از نیاز فتح پوری)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات خدا کے حکم سے وجود میں آئی جب انسان کو بائبل عطا ہوئی تو اس نے بائبل سے بھی کائنات کے اسرار رموز کو جاننے کی کوشش کی۔
اور خدا نے کہا’’ اجالا ہو اور اجالا ہو گیا‘‘
اور خدا نے کہا کہ پانیوں کے بیچ فضا ہو اور پانیوں کو پانیوں سے جدا کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور خدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کے پانی ایک جگہ جمع ہوں کہ خشکی نظر آئے اور ایسا ہی ہو گیا۔
(بائبل پیدائش باب ۱ ترجمہ نگار(خدا نمبر) ص ۸۷۔۹۸)
اس باب سے بھی پانی سے زمین کی پیدائش کا پتہ چلتا ہے ۔
بائبل باب ۱ میں ہی ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے کہ
’’ ابتداء میں خدا نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا زمین ویران اور سنسان تھی، اور گہرایوں کے اوپر اندھیرا تھا۔ خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی۔
(ترجمہ’’نگار‘‘ (خدا نمبر) ص ۹۷۔۹۸)
اس قول سے پتہ لگتا ہے کہ سب سے پہلے آسمان خلق ہوا پھر زمین۔ نیز یہ کہ ابتدا میں زمین آباد نہیں تھی اور ہر طرف گہرا اندھیرا تھا یہاں خدا کی روح کے پانی پر جنبش کرنے کا کیا مفہوم ہے سمجھ نہیں آتا۔ حالانکہ اہل ہنود میں بھی خدا کا ایک نام نارائن لیا جاتا ہے ۔ اس کے معنی بھی پانی پر چلنے والے کے ہوتے ہیں ۔
’’داستان دانش‘‘ میں ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم نے تالیس (ز مانہ ۶۰۰ ق۔م) کا قول نقل کیا ہے ۔
’’پانی تمام زمین کو گھیرے ہوئے ہے زمین ایک نا پیدا کنارے سمندر پر تیرتی ہے اصل عنصر پانی ہے باقی تمام عناصر اور اجسام پانی کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں ‘‘
(ترجمہ (خدا نمبر)’’نگار‘‘ ص ۱۱۷)
یہ قول جدید تحقیق کے مطابق معلوم ہوتا ہے لیکن قرآن مجید نے جدید تحقیق کے متعلق زیادہ واضح اشارے دیئے ہیں ۔ آسمانی صحیفوں میں جدید ترین صحیفہ اور متعدد علوم کا گنجینہ قرآن پاک ہی ہے جس کے بعد اب کوئی آسمانی صحیفہ نازل نہیں ہو گا جتنی واضح جدید اور بلند معیار فلکیاتی معلومات قرآن پاک سے موصول ہوتی ہیں اتنی بلند معیار اور جدید تحقیقات کو واضح کرنے والی معلومات کسی اور صحیفہ سے حاصل نہیں ہوتی۔ حالانکہ قرآن مجید نہ تو سائنٹفک نظریات کی کتاب ہے اور نہ وہ اس لئے نازل ہوا ہے کہ تجرباتی طریقے سے سائنس مرتب کرے بلکہ وہ پوری زندگی کے لئے ایک نظام پیش کرتا ہے ۔
اس کے باوجود قرآن بعض کائناتی حقائق کی طرف اشارے بھی کرتا ہے جس کو اپنی عقل ودانائی کے ذریعہ سمجھاجا سکتا ہے ۔ قرآن کے بیان کی تصدیق فلکیات کے ذریعہ کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا کیوں کہ قرآن تو کلام الٰہی ہے ۔ یہاں ہمارا مقصد فلکیات کو قرآن کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرنا بھر ہے ۔ ایک موٹے انداز ے کے مطابق قرآن میں تقریباً 40-50ایسی آیات ہیں جن سے علم فلکیات پر کافی روشنی پڑتی ہے ۔ یہاں ہم کچھ آیات کے ذریعے علم فلکیات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے ۔
(۱) آسمان سے متعلق آیات:۔
سورۃ50آیت6، سورۃ 31آیت2، سورۃ45آیت13، سورۃ14آیت 33، سورۃ16آیت12، سورۃ 16آیت16وغیرہ کے علاوہ چند مندرجہ ذیل آیات کے ذریعہ بھی علم فلکیات کی آسمان کے متعلق بہت سی معلومات فراہم ہوتی ہے ۔
اللہ الذی رفع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الشمس و القمر (سورۃ13آیت2)
(وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں ، پھر وہ اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوا اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو ایک قانون کا پابند کیا)
ویمسک السماء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بازیہ، (سورۃ 22آیت65)
(اور وہی (اللہ) آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر گر نہیں سکتا۔)
ہوالذی جعل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لقوم یعلمون، (سورۃ10آیت۵)
(وہی ہے جس نے سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھنٹے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تا کہ تم اس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو۔ اللہ نے یہ سب کچھ بر حق ہی پیدا کیا ہے ۔ وہ اپنی نشانیوں کو کھول کھول کر پیش کر رہا ہے ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں )
قرآن کی مندرجہ بالا آیات سے ہمیں آسمان سے متعلق جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان معلومات کوا نجیل اور عہد نامہ قدیم میں اتنی گہرائی کے ساتھ پیش نہیں کیا جتنی گہرائی کے ساتھ قرآن نے پیش کیا ہے ۔
ستارے :۔ لفظ ستارہ قرآن مجید میں ۱۳ مرتبہ استعمال ہوا ہے اس کا مادہ ایک ایسا لفظ ہے جس کا مفہوم ہے ظاہر ہونا یا دکھائی دینا۔ اس بات کو مندرجہ ذیل آیت نے اور واضح کیا ہے ۔
والسماء والطارق۔۔۔۔۔۔۔۔النجم الثاقب (سورۃ 86آیت1-3)
(قسم ہے آسمان کی اور رات کو نمودار ہونے والے کی اور تم کیا جانو کہ وہ رات کو نمودار ہونے والا کیا ہے ، چمکتا ہوا تارہ)
سیارے :۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں سیاروں کو کواکب سے (جو کوکب کی جمع ہے ) تعبیر کیا گیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں لفظ کوکب کے معنوں کی اچھی توضیح ایک بہت مشہور آیت میں کی گئی ہے ۔ اس کے گہرے مفہوم کی امتیازی دینی نوعیت اپنی جگہ برحق ہے علاوہ ازیں یہ ماہر مفسرین کے مابین کافی بحث و تمحیص کا موضوع ہے ۔ زیر بحث آیت یہ ہے ۔
اللہ نور السموٰت۔۔۔۔۔۔۔۔کوکب دری (سورۃ 24آیت 35)
(اللہ آسمان و زمین کا نور ہے (کائنات میں ) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہوا چراغ ایک ایسے فانوس میں ہو فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا تارا)
یہاں موضوع کسی ایسے جسم پر روشنی کا ایک ظل ہے جو اسے منعکس کرتا ہے اور اس کو ایک موتی کی چمک دیتا ہے مثل ایک سیارے کے جو سورج کی وجہ سے منور ہوتا ہے ان کے علاوہ سورۃ 37آیت6میں بھی اسی طرح کا اشارہ ملتا ہے ۔
انارنیاالسماء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الکواکب
(ہم نے آسمان دنیا کو کواکب سے زینت دی ہے ۔)
ان آیات کے علاوہ بھی کئی دوسری جگہ ارشاد الٰہی سے معلوم ہوتا ہے کہ کواکب وہی اجرام فلکی ہیں جن کو جدید سائنس سیاروں کے نام سے جانتی ہے ۔
نظام سماوی:۔ اس موضوع پر قرآن مجید میں جو معلومات ملتی ہیں ان کا تعلق بنیادی طور پر نظام شمسی سے ہے تاہم بذات خود نظام شمسی سے ماوراء جو حادثات رونما ہوئے ان کے حوالے بھی اس میں موجود ہیں ۔
وھو الذی۔۔۔۔کل فی فلک یسجون(سورۃ21آیت33)
(اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا یہ سب اپنے اپنے مداروں پر چل رہے ہیں ۔)
لا الشمس۔۔۔۔وکلوفی فلک یسبحون (سورۃ 36آیت40)
(نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مدار پر تیر رہا ہے )
اس جگہ ایک اہم حقیقت کا واضح طور پر اظہار کیا گیا ہے وہ ہے سورج اور چاند کے مداروں کا وجود عربی کے لفظ فلک کا ترجمہ مدار بھی کیا گیا ہے ۔ قرآن کے کئی فرانسیسی مترجم اس کا مفہوم کرہ بیان کرتے ہیں لیکن جدید سائنس سے مطابقت رکھتے ہوئے اس لفظ کا مفہوم مدار ہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے ۔
دن اور رات:۔
الم تران۔۔۔۔۔فی الیل (سورۃ31آیت29)
(کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن میں پرو تا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں ضم کر دیتا ہے ۔)
یکور الیل ۔۔۔۔۔۔۔علی الیل (سورۃ29آیت5)
(وہی (اللہ تعالیٰ) رات کو دن پر لپٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے ۔)
مندرجہ بالا آیات کے علاوہ سورۃ 7آیت54اور سورۃ36آیت37میں بھی دن اور رات کے دور کو نہایت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔
کائنات کا پھیلاؤ:۔ قرآن کی مندرجہ ذیل آیت47سورۃ51میں کلام باری تعالیٰ ہے ۔
والسماء بن ینھا۔۔۔۔۔۔واناالموسعون
آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اس میں توسیع کر رہے ہیں ) یہاں لفظ سما کا ترجمہ آسمان ہے اور اوسع کی مطابقت ہے موسعون سے جس کے معنی ہیں کشادہ پھیلا ہوا یا وسیع کرنا۔
اس آیت سے کائنات کے پھیلاؤ کے بارے میں معلومات موصول ہوتی ہے ۔
نظریہ کشش ثقل:۔
یفشی الیل النھار۔۔۔۔۔۔۔ حتیثا (سورۃ (اعراف)آیت54)
(وہ رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے جو کوشش کرتی ہے کہ اسے تیزی سے جا پکڑے )
یعنی رات کو تیزی سے پکڑنے یا اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتی ہے گویا زمین سورج کو اپنی طرف کھنیچتی ہے اور سورج زمین کو زپنی طرف کھینچتا ہے ۔ حضرت علیؓ (جنہیں قرآن حکیم کی معرفت کے اسرار رموز سمجھنے اور بیان میں کمال حاصل تھا) نے اسی آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا تھا۔
’’واللہ اطور بہ ماسمر سمبر وما ام نجم والسماء نجما‘‘
(نہج البلاغہ (صفحہ380-381)مطبوعہ تہران)
(خدا گواہ ہے کہ میں ہر گز ایسانہ کروں گا جب تک زمانے کی کہانی جاری ہے آسمان میں ایک ستارہ دوسرے ستارے کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے ۔)
یہی وہ کشش ثقل کا نظریہ ہے جو کہ آج نیوٹن کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔
زمین:۔
زمین کی ساخت کو مندرجہ ذیل آیات میں واضح کیا گیا ہے ۔
واللہ جعل لکم الارض ۔۔۔۔۔حجاجا (سورۃ 71آیت19-20)
(اور اللہ نے زمین کو تمہارے لئے فرش کی طرح بچھایا ہے کہ تم اس کے اندر کھلے راستوں پر چلو)
الم نجعل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوتاداً (سورۃ78آیت6-7)
(کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا)
والقی فی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمید بکم (سورۃ81آیت10)
( اس نے (خدانے ) زمین میں پہاڑ جما دیئے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے ۔)
تمام آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین کی ساخت اس کی حرکت نشیب و فراز گردش اور کشش ثقل کے بارے میں قرآن مجید نے متعدد معلومات فراہم کی ہیں جس سے جدید فلکیات کے نظریے کی مطابقت واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے ۔
اس طرح عالم فلکیات کی بنیادی معلومات مثلاً زمین و پہاڑ کی پیدائش جاندو سورج کا متحرک ہونا اور سیارگان کا اپنے اپنے مدار میں گردش کرنا وغیرہ قرآن مجید میں پہلے ہی سے موجود ہے ۔ جسے آج علماء طبقات الارض صدیوں کی تحقیق کے بعد معلوم کر سکے ہیں ۔ اس سے مذہب اسلام کے علمی معیار کی بلند ی کا ثبوت فراہم ہوتا ہے ۔ اور مسلمانوں کے لئے باعث افتخار ہے کہ ان کے مذہب کا مضبوط ثبوت قرآن کریم ہے ۔