محسن وقار علی
محفلین
دن چڑھے رشید کی آنکھ کھلی تو اسے محسوس ہوا کہ کوئی لڑکی اس کے آس پاس سسکیاں بھر رہی ہے۔
وہ اپنے گھر میں اکیلا رہتا تھا۔ اس لیے سسکیوں کی آواز پر اسے تعجب ہوا جو رفتہ رفتہ خوف بن کر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسرانے لگا۔ اس نے سوچا اس کے علاوہ اس گھر میں اور کوئی موجود نہیں تو پھر یہ سسکیاں کون بھر رہا ہے ؟
اس نے اپنے کمرے کا بغور جائزہ لیا لیکن وہاں اس کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا۔
ڈرائنگ روم اور کچن کا جائزہ لیا وہاں بھی کوئی نہیں تھا لیکن سسکیوں کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔
آخر اس نے پوری توجہ سے سسکیوں کی آواز سن کر اس کے ماخذ تک پہنچنا چاہا تو اسے محسوس ہوا کہ سسکیوں کی آواز اس کے کمرے اور باتھ روم کی مشترکہ دیوار پر آویزاں قد آدم آئینے سے آ رہی تھی۔
آئینے سے سسکیوں کی آواز آتے سن کر رشید کے ہوش و حواس خوف سے شل ہونا شروع ہو گئے۔ اس کو ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ آئینے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے اور جاننے کی کوشش کرے کہ آخر آئنے سے سسکیوں کی آواز کیوں آ رہی ہے۔ تھوڑی دیر تک خوف میں مبتلا رہنے کے بعد رشید کے حواس کچھ کچھ نارمل ہوے تو اس نے ہمت کر کے آئنے کی طرف دیکھا۔ اسے آئینے کے اندر سفید کپڑوں میں ملبوس ایک خوبصورت نوجوان لڑکی دکھائی دی جو زانوں پر سر نیوڑھائے بیٹھی سسکیاں بھر رہی تھی۔
آج سے پہلے جب بھی رشید نے آئینہ دیکھا اسے ہمیشہ آئینے میں اپنا عکس دکھائی دیا۔ وہ روزانہ نہا دھوکر فارغ ہونے کے بعد گھر سے روانہ ہونے سے پہلے قد آدم آئنے کے سامنے اپنے سراپا کا جائزہ لیتا۔
آج صبح جو وہ سو کر اٹھا، کمرے میں مسلسل آنے والی سسکیوں کی آواز نے اس کے روز مرہ کے معمولات منتشر کر دیے۔ اسے نہ باتھ روم جانا یاد رہا، نہ دانت صاف کرنا، نہ شیو بنانا، نہ غسل کرنا، اور نہ دفتر جانے کے لیے کپڑے تبدیل کرنا۔ اس کی ساری توجہ پہلے سسکیوں پر مرکوز تھی اور پھر آئینے میں بیٹھی، سفید کپڑوں میں ملبوس، زانوں پر سر رکھے بیٹھی خوبصورت لڑکی پر۔ وہ پریشان تھا کہ آخر آئینے میں بیٹھی لڑکی کون تھی، آئینے کے اندر کیسے پہنچی تھی۔ اور آئینے میں حقیقی عمق کے نہ ہونے کے باوجود وہ کیسے وہاں ایک جیتی جاگتی لڑکی کی طرح بیٹھی سسکیاں بھر رہی تھی۔ ان سوالوں سے پریشان وہ ہمت کر کے آئینے کے سامنے پہنچا اور چند لمحوں تک آئینے کے سامنے کھڑے ہو کراس لڑکی کی سسکیوں کی آواز سنتا رہا اور اسے پر تجسس نگاہوں سے دیکھتا رہا۔
وہ لڑکی اس کے وجود سے بے خبر اسی طرح زانوں پر سر جھکائے سسکیاں بھرتی رہی۔
وہ سوچتا رہا اس لڑکی سے بات کرے تو کیسے ؟اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائے تو کیسے ؟ وہ لڑکی آئینے کے اندر تھی اور اس تک اس کی آواز پہنچنا ممکن نہیں تھا۔
کچھ سوچ کر اس نے اپنی انگلیوں سے آئینے پر ٹھک ٹھک کی لیکن آئینے کے اندر لڑکی اسی طرح اس کی آمد سے بے خبر زانوں پر سر رکھے سسکیاں بھرتی رہی۔ لڑکی کا چہرہ زانوں میں چھپا ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک اس کی صورت نہیں دیکھ پایا تھا لیکن اس کے کومل بازوں اور پیروں سے اوپر تھوڑی سی نظر آتی سفید ٹانگوں اور سر کے چمکتے زندگی سے بھرپور سیاہ بالوں سے اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ایک نوجوان لڑکی ہے جو آئینے میں قید ہے۔
اس کی سسکیوں کی آواز کا کنوار پن بھی اس کے اندازے کی تائید کر رہا تھا۔ اس کی آواز کی نرماہٹ اور رسیلا پن صاف بتا رہا تھا کہ وہ لڑکی عورت پن سے دور ابھی نو عمری کی دہلیز پر کھڑی ہے
رشید کی اپنی عمر بھی ابھی زیادہ نہیں تھی۔ حال ہی میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اس نے ایک انٹرنیشنل کمپیوٹر کمپنی میں کام شروع کیا تھا۔ جس گھر میں وہ آئینے میں قید لڑکی کے روبرو کھڑا تھا یہ بھی کمپنی کا فراہم کردہ تھا۔ گھرکے علاوہ کمپنی نے اسے گاڑی بھی دے رکھی تھی جسے عام طور پر وہ کام پر آنے جانے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
گھر اگرچہ چھوٹا تھا لیکن اسے اس طرح سے ڈیزاین کیا گیا تھا کہ یہاں رہنے والے کو زندگی کا تمام آرام میسر ہو اور وہ اپنے قیام سے لطف اندوز ہو سکے۔ گھر تقریباً تمام جدید سہولیات سے مزین تھا۔
گھر کے بیرونی گیٹ سے داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا۔ گیٹ کے اندر گاڑی پارک کرنے کی جگہ تھی۔ سامنے ڈرائنگ روم تھا۔ جس کے ساتھ ایک چھوٹا سا ڈائننگ روم تھا جو دیکھنے میں ڈرائنگ روم کا ہی حصہ دکھائی دیتا تھا۔ اس کے ساتھ کچن اور کچن کے ساتھ آگے مختصر سے ہال وے کے بعد بیڈ روم تھا جس کے ساتھ ایک کشادہ باتھ روم تھا جسے گھر کا مکین اور ڈرائنگ روم میں آنے والے مہمان مشترکہ طور پر استعمال کر سکتے تھے۔
اسی جگہ خواب گاہ اور باتھ روم کی مشترکہ دیوار پر ہال وے میں آویزاں وہ آئینہ تھا جس میں قید وہ اجنبی لڑکی زانوؤں پر سر رکھے مسلسل سسکیاں لے رہی تھی۔
جب آئینے پر بار بار ٹھک ٹھک کرنے سے لڑکی رشید کی طرف متوجہہ نہ ہوئی تو اس نے ہمت کر کے لڑکی کو مخاطب کیا۔
"محترمہ آپ کون ہیں اور یہاں بیٹھی سسکیاں کیوں بھر رہی ہیں ؟"
آئینے پر ٹھک ٹھک کا جواب نہ دینے والی لڑکی نے رشید کا سوال سن لیا تھا۔ اس کے سوال پر اس نے سر اٹھا کر رشید کی طرف دیکھا تو اس کے حسن کی چمک سے رشید کے اوسان اس طرح خطا ہوے کہ وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔
آج تک اس نے اتنی خوبصورت، زندگی سے ایسی بھرپور نوجوان لڑکی کبھی نہیں دیکھی تھی۔
لڑکی نے بظاہر رشید کا سوال سن لیا تھا لیکن اس نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا۔
وہ یونہی بیٹھی، زانوؤں پر دونوں ہاتھ رکھے ، سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھتی رہی۔ اس کی دید میں ایک سحر تھا، ایک بات تھی، اور ایک راز تھا۔ آئینے میں قید تنہا نوجوان لڑکی جو تھوڑی دیر پہلے سسکیاں بھر رہی تھی اب خاموش بیٹھی گہری نظروں سے رشید کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔
رشید نے پھر اپنا سوال دہرایا:
" محترمہ آپ کون ہیں اور اس آئینے میں کیا کر رہی ہیں ؟ "
اس بار لڑکی رشید کا سوال سن کر آہستگی سے اپنے پیروں پراس طرح کھڑی ہوئی کہ رشید کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اس کے لیے لڑکی کے خوبصورت سراپا کو نظر بھر دیکھنا ناممکن ہو گیا۔
" میں اس آئینے کی قیدی ہوں۔ " لڑکی کے جواب کے کرب سے رشید سسکیاں بھرتے لگا۔
اب تک اس نے کئی طرح کے قیدی دیکھے تھے ، قیدیوں کی کہانیاں پڑھی تھیں لیکن آئینے کے کسی قیدی کے بارے میں نہ اس نے کبھی سنا نہ ایسے قیدی سے اس کا کبھی سامنا ہوا۔
"محترمہ میں اس بات کے ادراک سے قاصر ہوں کہ کوئی شخص آئینے میں قید ہو سکتا ہے۔ "
"ہاں جب تک میں آئینے میں قید نہیں ہوئی تھی یہ بات میرے ادراک سے بھی باہر تھی۔"
" لیکن اس آئینے کے اندر آپ کیسے پہنچیں۔؟"
رشید نے اظہار تعجب کرتے ہوے آئینے میں قید لڑکی کی صورت حال سمجھنے کی کوشش کی۔
"آپ چونکہ آئینے سے باہر ہیں اس لیے آپ آئینے کی اندر کی دنیا کا شعور حاصل نہیں کر سکتے۔ "
لڑکی نے رشید کا تعجب کم کرنے کے لیے جواب دیا۔
"لیکن محترمہ کیا آپ زندہ ہیں ؟" رشید نے مزید متعجب ہوتے ہوے سوال کیا۔
"آپ کا کیا خیال ہے ؟"
"مجھے تو آپ زندہ دکھائی دیتی ہیں۔ بلکہ زندگی اس طرح آپ کے انگ انگ سے پھوٹ رہی ہے کہ میرا جی چاہتا ہے میں آگے بڑھ کر آپ کو تھام لوں اور آپ کے وجود کو محسوس کروں۔"
"یہ آپ نہیں کر سکتے کیونکہ میرے اور آپ کے درمیان آئینہ حائل ہے۔ نہ میں آئینے سے باہر آ سکتی ہوں نہ آپ اس کے اندر آ سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ چاہنے کے باوجود میرے وجود کو تھام کر اس کا احساس نہیں کر سکتے۔" لڑکی نے مترنم آواز سے جواب دیا۔
آئینے میں قید لڑکی سے باتیں کرتے رشید کو وقت گزرنے کا کچھ احساس نہیں ہوا۔
وہ صبح اٹھنے کے بعد روز مرہ کے معمولات سے فارغ ہونے کے بعد دفتر جانے کی بجائے اسی طرح آئینے کے سامنے کھڑا اس لڑکی سے باتیں کر رہا تھا۔
اسی چکر میں نہ وہ دفتر گیا نہ دفتر کال کر کے اس نے کسی کو بتایا کہ وہ آج دفتر نہیں آئے گا۔
جیسے جیسے رشید آئینے میں قید لڑکی سے گفتگو کر رہا تھا۔ وہ اس کے حسن کے سحر میں گرفتار ہوتا جا رہا تھا۔
اس میں رشید کا کوئی قصور بھی نہیں تھا۔ وہ تھی ہی اتنی جاذب نظر اور خوبصورت کہ اگر کوئی اور بھی اسے دیکھتا تو اسی طرح اس کے حسن میں گرفتار ہو جاتا۔
رشید اس سے ایک سوال کرتا تو وہ ایسے دلکش انداز میں اتنی سادگی کے ساتھ ایسا تہہ دار جواب دیتی کہ اس میں سے سو سوال اور جنم لیتے۔
آئینے میں قید لڑکی کے ساتھ انہی سوالوں اور جوابو ں میں رشید کے گھنٹے پہروں میں اور پہر دنوں میں تبدیل ہو گئے۔
اس کے کئی دن دفتر نہ جانے کی وجہ سے اس کے دفتر کے ساتھیوں کو اس کے بارے میں تشویش ہوئی۔ پہلے انہوں نے اس سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی- لیکن کئی دن تک اس سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے پولیس میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروا دی۔
یہاں کئی راتیں اور دن گزرنے کے باوجود آئینے میں قید لڑکی اور رشید کے درمیاں سوالوں اور جوابوں کا ایک سلسلہ تھا جو پھیلتا چلا جا رہا تھا- نہ رشید کے سوال ختم ہو رہے تھے نہ آئینے میں قید لڑکی کے جواب۔
رشید اس سے سوال پر سوال کئے جا رہا تھا اور وہ انتہائی آرام سے اس کے سب سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔
اس کے چہرے پر نہ تھکن تھی اور نہ بوریت۔ رشید سے گفتگو کرنے کی وجہ سے اب اس کی سسکیاں بھی رک چکی تھیں۔ اور وہ رشید کے ساتھ گفتگو میں اس طرح مگن تھی جیسے وہ رشید کی زندگی کا حصہ ہو اور وہ اس کی زندگی کا۔
"آپ آئینے میں قید ہیں تو آپ کھاتی پیتی کیا ہیں ؟"
"آئینے کی قید ایک عجیب و غریب قید ہے۔ جیسے ہی ایک شخص اس قید میں پہنچتا ہے وہ کھانے پینے کے ضرورتوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ نہ اسے بھوک لگتی ہے نہ پیاس۔ نہ اسے تھکن کا احساس ہوتا ہے اور نہ سونے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہ جس حالت میں ہوتا ہے اسی حالت میں رہتا ہے۔
میں اس وقت جیسی آپ کو نظر آ رہی ہوں۔ اس قید میں آتے وقت ایسی ہی تھی۔ یہی لباس زیب تن تھا۔ ایسے ہی بال بنے ہوے تھے۔ بالکل اب بھی اسی طرح ہوں جیسے یہاں لائی گئی تھی۔"
"لیکن آپ کب سے اس آئینے میں قید ہیں ؟ "
"مجھے وہ لمحہ صحیح طور پر یاد نہیں جب مجھے آئینے کی اس قید میں دھکیل دیا گیا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ رات کا وقت تھا۔ آسمان پر پورا چاند چمک رہا تھا۔ میں نے چاند کی طرف دیکھا اور چاند مجھے اچھا لگا۔ میں نے چاند کی طرف اپنے بازو پھیلا ے تا کہ اسے تھام لوں۔ عین اس لمحے مجھے اس قید میں دھکیل دیا گیا۔"
"اور تب سے اب تک آپ ویسی ہی ہیں جیسی اس قید میں آئی تھیں۔"
"ہاں۔ وقت کو اس آئینے کے اندر رسائی حاصل نہیں۔ اس لیے یہاں کسی چیز پر مرور ایام کا اثر نہیں ہوتا۔ گزرتے شب و روز کے اثرات اس آئینے سے باہر کی چیزیں ہیں۔"
"اگر یہ بات ہے تو پھر آپ زانوؤں پرسر رکھے سسکیاں کیوں بھر رہی تھیں ؟"
"اسے آپ احساس تنہائی کہہ لیں یا اس قید سے نجات پانے کی خواہش۔"
"میں اس سلسلے میں آپ کی کیسے مد د کر سکتا ہوں ؟" رشید نے آئینے میں قید لڑکی سے پوچھا۔
"میری مدد کرنے کے لیے آپ کو آئینے کے اندر آنا ہو گا یا مجھے آئینے سے باہر۔ میں خود بخود آئینے سے باہر نہیں آ سکتی۔ یہاں سے مجھے باہر لے جانے کے لیے آپ کو آئینے کے اندر آنا ہو گا "
"لیکن میں آئینے کے اندر کیسے آ سکتا ہوں۔ اگر میں نے کسی طرح آئینے میں گھسنے کی کوشش کی تو آئینہ ٹوٹ جائے گا۔ اور آئینہ ٹوٹ گیا تو آپ آئینے کے ساتھ بکھر جائیں گی۔ نہیں۔ نہیں۔ یہ اچھا خیال نہیں۔ کسی طرح آپ کو آئینے سے خود باہر آنا ہو گا۔"
" میں آئینے میں قید ہوں۔ قیدی کو قید سے باہر آنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ کسی نہ کسی کو اسے قید سے رہائی دلانی پڑتی ہے۔ اگر میں خود رہا ہو سکتی تو آپ مجھے یہاں سسکیاں بھرتے نہ پاتے۔ اس لیے آپ کسی طرح آئینے کے اندر آنے کی ترکیب کریں۔ اور مجھے اپنے ساتھ یہاں سے باہر نکال لے جائیں۔" لڑکی نے رشید سے التجا کی۔
" لیکن آپ یہ بھی تو بتائیں کہ میں آئینے کے اندر آؤں کیسے ؟"
"کاش میں یہ جانتی کہ آپ آئینے کے اندر کیسے آ سکتے ہیں۔ لگتا ہے آئینے کی قید سے رہائی میری قسمت میں نہیں۔ اور پھر وہ ہلکے ہلکے دوبارہ سسکیاں بھرنے لگی۔"
"نہیں۔ نہیں۔ پلیز آپ دوبارہ سسکیاں نہ بھریں۔ میں کچھ کرتا ہوں۔ " یہ کہہ کر وہ اٹھا اور آئینے کے اندر جانے کی تدبیر کرنے لگا۔
یہاں رشید اور آئینے میں قید لڑکی انہی تدبیروں میں گم تھے اور ادھر پولیس رشید کی بازیابی کے لیے اسے ادھر ادھر ڈھونڈھنے سے تھک کر اس کے گھر پہنچی تا کہ وہاں سے اس کی گمشدگی کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کر سکے۔
پولیس افسر بہت دیر تک اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہے۔ جب کسی نے گھر کے اندر سے جواب نہیں دیا تو وہ دروازہ کھول کر اندر چلے گئے۔
گھر میں کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے گھر میں ہر جگہ کوئی نشان ڈھونڈھنے کی کوشش کی جس سے انہیں کوئی نقطہ آغاز مل سکے۔ لیکن انہیں کہیں کوئی نشان نہ ملا۔
تھک ہار کر جانے لگے تو ایک پولیس افسر کی باتھ روم اور خواب گاہ کی مشترکہ دیوار پر آویزاں قد آدم آئینے پر نظر پڑی۔ اس نے دیکھا آئینے پر چند قدموں کے نشاں تھے جو کہیں نہیں جا رہے تھے۔
بزم اردو سے لیا گیا
وہ اپنے گھر میں اکیلا رہتا تھا۔ اس لیے سسکیوں کی آواز پر اسے تعجب ہوا جو رفتہ رفتہ خوف بن کر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسرانے لگا۔ اس نے سوچا اس کے علاوہ اس گھر میں اور کوئی موجود نہیں تو پھر یہ سسکیاں کون بھر رہا ہے ؟
اس نے اپنے کمرے کا بغور جائزہ لیا لیکن وہاں اس کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا۔
ڈرائنگ روم اور کچن کا جائزہ لیا وہاں بھی کوئی نہیں تھا لیکن سسکیوں کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔
آخر اس نے پوری توجہ سے سسکیوں کی آواز سن کر اس کے ماخذ تک پہنچنا چاہا تو اسے محسوس ہوا کہ سسکیوں کی آواز اس کے کمرے اور باتھ روم کی مشترکہ دیوار پر آویزاں قد آدم آئینے سے آ رہی تھی۔
آئینے سے سسکیوں کی آواز آتے سن کر رشید کے ہوش و حواس خوف سے شل ہونا شروع ہو گئے۔ اس کو ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ آئینے کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے اور جاننے کی کوشش کرے کہ آخر آئنے سے سسکیوں کی آواز کیوں آ رہی ہے۔ تھوڑی دیر تک خوف میں مبتلا رہنے کے بعد رشید کے حواس کچھ کچھ نارمل ہوے تو اس نے ہمت کر کے آئنے کی طرف دیکھا۔ اسے آئینے کے اندر سفید کپڑوں میں ملبوس ایک خوبصورت نوجوان لڑکی دکھائی دی جو زانوں پر سر نیوڑھائے بیٹھی سسکیاں بھر رہی تھی۔
آج سے پہلے جب بھی رشید نے آئینہ دیکھا اسے ہمیشہ آئینے میں اپنا عکس دکھائی دیا۔ وہ روزانہ نہا دھوکر فارغ ہونے کے بعد گھر سے روانہ ہونے سے پہلے قد آدم آئنے کے سامنے اپنے سراپا کا جائزہ لیتا۔
آج صبح جو وہ سو کر اٹھا، کمرے میں مسلسل آنے والی سسکیوں کی آواز نے اس کے روز مرہ کے معمولات منتشر کر دیے۔ اسے نہ باتھ روم جانا یاد رہا، نہ دانت صاف کرنا، نہ شیو بنانا، نہ غسل کرنا، اور نہ دفتر جانے کے لیے کپڑے تبدیل کرنا۔ اس کی ساری توجہ پہلے سسکیوں پر مرکوز تھی اور پھر آئینے میں بیٹھی، سفید کپڑوں میں ملبوس، زانوں پر سر رکھے بیٹھی خوبصورت لڑکی پر۔ وہ پریشان تھا کہ آخر آئینے میں بیٹھی لڑکی کون تھی، آئینے کے اندر کیسے پہنچی تھی۔ اور آئینے میں حقیقی عمق کے نہ ہونے کے باوجود وہ کیسے وہاں ایک جیتی جاگتی لڑکی کی طرح بیٹھی سسکیاں بھر رہی تھی۔ ان سوالوں سے پریشان وہ ہمت کر کے آئینے کے سامنے پہنچا اور چند لمحوں تک آئینے کے سامنے کھڑے ہو کراس لڑکی کی سسکیوں کی آواز سنتا رہا اور اسے پر تجسس نگاہوں سے دیکھتا رہا۔
وہ لڑکی اس کے وجود سے بے خبر اسی طرح زانوں پر سر جھکائے سسکیاں بھرتی رہی۔
وہ سوچتا رہا اس لڑکی سے بات کرے تو کیسے ؟اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائے تو کیسے ؟ وہ لڑکی آئینے کے اندر تھی اور اس تک اس کی آواز پہنچنا ممکن نہیں تھا۔
کچھ سوچ کر اس نے اپنی انگلیوں سے آئینے پر ٹھک ٹھک کی لیکن آئینے کے اندر لڑکی اسی طرح اس کی آمد سے بے خبر زانوں پر سر رکھے سسکیاں بھرتی رہی۔ لڑکی کا چہرہ زانوں میں چھپا ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک اس کی صورت نہیں دیکھ پایا تھا لیکن اس کے کومل بازوں اور پیروں سے اوپر تھوڑی سی نظر آتی سفید ٹانگوں اور سر کے چمکتے زندگی سے بھرپور سیاہ بالوں سے اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ایک نوجوان لڑکی ہے جو آئینے میں قید ہے۔
اس کی سسکیوں کی آواز کا کنوار پن بھی اس کے اندازے کی تائید کر رہا تھا۔ اس کی آواز کی نرماہٹ اور رسیلا پن صاف بتا رہا تھا کہ وہ لڑکی عورت پن سے دور ابھی نو عمری کی دہلیز پر کھڑی ہے
رشید کی اپنی عمر بھی ابھی زیادہ نہیں تھی۔ حال ہی میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اس نے ایک انٹرنیشنل کمپیوٹر کمپنی میں کام شروع کیا تھا۔ جس گھر میں وہ آئینے میں قید لڑکی کے روبرو کھڑا تھا یہ بھی کمپنی کا فراہم کردہ تھا۔ گھرکے علاوہ کمپنی نے اسے گاڑی بھی دے رکھی تھی جسے عام طور پر وہ کام پر آنے جانے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
گھر اگرچہ چھوٹا تھا لیکن اسے اس طرح سے ڈیزاین کیا گیا تھا کہ یہاں رہنے والے کو زندگی کا تمام آرام میسر ہو اور وہ اپنے قیام سے لطف اندوز ہو سکے۔ گھر تقریباً تمام جدید سہولیات سے مزین تھا۔
گھر کے بیرونی گیٹ سے داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا۔ گیٹ کے اندر گاڑی پارک کرنے کی جگہ تھی۔ سامنے ڈرائنگ روم تھا۔ جس کے ساتھ ایک چھوٹا سا ڈائننگ روم تھا جو دیکھنے میں ڈرائنگ روم کا ہی حصہ دکھائی دیتا تھا۔ اس کے ساتھ کچن اور کچن کے ساتھ آگے مختصر سے ہال وے کے بعد بیڈ روم تھا جس کے ساتھ ایک کشادہ باتھ روم تھا جسے گھر کا مکین اور ڈرائنگ روم میں آنے والے مہمان مشترکہ طور پر استعمال کر سکتے تھے۔
اسی جگہ خواب گاہ اور باتھ روم کی مشترکہ دیوار پر ہال وے میں آویزاں وہ آئینہ تھا جس میں قید وہ اجنبی لڑکی زانوؤں پر سر رکھے مسلسل سسکیاں لے رہی تھی۔
جب آئینے پر بار بار ٹھک ٹھک کرنے سے لڑکی رشید کی طرف متوجہہ نہ ہوئی تو اس نے ہمت کر کے لڑکی کو مخاطب کیا۔
"محترمہ آپ کون ہیں اور یہاں بیٹھی سسکیاں کیوں بھر رہی ہیں ؟"
آئینے پر ٹھک ٹھک کا جواب نہ دینے والی لڑکی نے رشید کا سوال سن لیا تھا۔ اس کے سوال پر اس نے سر اٹھا کر رشید کی طرف دیکھا تو اس کے حسن کی چمک سے رشید کے اوسان اس طرح خطا ہوے کہ وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔
آج تک اس نے اتنی خوبصورت، زندگی سے ایسی بھرپور نوجوان لڑکی کبھی نہیں دیکھی تھی۔
لڑکی نے بظاہر رشید کا سوال سن لیا تھا لیکن اس نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا۔
وہ یونہی بیٹھی، زانوؤں پر دونوں ہاتھ رکھے ، سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھتی رہی۔ اس کی دید میں ایک سحر تھا، ایک بات تھی، اور ایک راز تھا۔ آئینے میں قید تنہا نوجوان لڑکی جو تھوڑی دیر پہلے سسکیاں بھر رہی تھی اب خاموش بیٹھی گہری نظروں سے رشید کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔
رشید نے پھر اپنا سوال دہرایا:
" محترمہ آپ کون ہیں اور اس آئینے میں کیا کر رہی ہیں ؟ "
اس بار لڑکی رشید کا سوال سن کر آہستگی سے اپنے پیروں پراس طرح کھڑی ہوئی کہ رشید کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اس کے لیے لڑکی کے خوبصورت سراپا کو نظر بھر دیکھنا ناممکن ہو گیا۔
" میں اس آئینے کی قیدی ہوں۔ " لڑکی کے جواب کے کرب سے رشید سسکیاں بھرتے لگا۔
اب تک اس نے کئی طرح کے قیدی دیکھے تھے ، قیدیوں کی کہانیاں پڑھی تھیں لیکن آئینے کے کسی قیدی کے بارے میں نہ اس نے کبھی سنا نہ ایسے قیدی سے اس کا کبھی سامنا ہوا۔
"محترمہ میں اس بات کے ادراک سے قاصر ہوں کہ کوئی شخص آئینے میں قید ہو سکتا ہے۔ "
"ہاں جب تک میں آئینے میں قید نہیں ہوئی تھی یہ بات میرے ادراک سے بھی باہر تھی۔"
" لیکن اس آئینے کے اندر آپ کیسے پہنچیں۔؟"
رشید نے اظہار تعجب کرتے ہوے آئینے میں قید لڑکی کی صورت حال سمجھنے کی کوشش کی۔
"آپ چونکہ آئینے سے باہر ہیں اس لیے آپ آئینے کی اندر کی دنیا کا شعور حاصل نہیں کر سکتے۔ "
لڑکی نے رشید کا تعجب کم کرنے کے لیے جواب دیا۔
"لیکن محترمہ کیا آپ زندہ ہیں ؟" رشید نے مزید متعجب ہوتے ہوے سوال کیا۔
"آپ کا کیا خیال ہے ؟"
"مجھے تو آپ زندہ دکھائی دیتی ہیں۔ بلکہ زندگی اس طرح آپ کے انگ انگ سے پھوٹ رہی ہے کہ میرا جی چاہتا ہے میں آگے بڑھ کر آپ کو تھام لوں اور آپ کے وجود کو محسوس کروں۔"
"یہ آپ نہیں کر سکتے کیونکہ میرے اور آپ کے درمیان آئینہ حائل ہے۔ نہ میں آئینے سے باہر آ سکتی ہوں نہ آپ اس کے اندر آ سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ چاہنے کے باوجود میرے وجود کو تھام کر اس کا احساس نہیں کر سکتے۔" لڑکی نے مترنم آواز سے جواب دیا۔
آئینے میں قید لڑکی سے باتیں کرتے رشید کو وقت گزرنے کا کچھ احساس نہیں ہوا۔
وہ صبح اٹھنے کے بعد روز مرہ کے معمولات سے فارغ ہونے کے بعد دفتر جانے کی بجائے اسی طرح آئینے کے سامنے کھڑا اس لڑکی سے باتیں کر رہا تھا۔
اسی چکر میں نہ وہ دفتر گیا نہ دفتر کال کر کے اس نے کسی کو بتایا کہ وہ آج دفتر نہیں آئے گا۔
جیسے جیسے رشید آئینے میں قید لڑکی سے گفتگو کر رہا تھا۔ وہ اس کے حسن کے سحر میں گرفتار ہوتا جا رہا تھا۔
اس میں رشید کا کوئی قصور بھی نہیں تھا۔ وہ تھی ہی اتنی جاذب نظر اور خوبصورت کہ اگر کوئی اور بھی اسے دیکھتا تو اسی طرح اس کے حسن میں گرفتار ہو جاتا۔
رشید اس سے ایک سوال کرتا تو وہ ایسے دلکش انداز میں اتنی سادگی کے ساتھ ایسا تہہ دار جواب دیتی کہ اس میں سے سو سوال اور جنم لیتے۔
آئینے میں قید لڑکی کے ساتھ انہی سوالوں اور جوابو ں میں رشید کے گھنٹے پہروں میں اور پہر دنوں میں تبدیل ہو گئے۔
اس کے کئی دن دفتر نہ جانے کی وجہ سے اس کے دفتر کے ساتھیوں کو اس کے بارے میں تشویش ہوئی۔ پہلے انہوں نے اس سے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی- لیکن کئی دن تک اس سے رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے پولیس میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروا دی۔
یہاں کئی راتیں اور دن گزرنے کے باوجود آئینے میں قید لڑکی اور رشید کے درمیاں سوالوں اور جوابوں کا ایک سلسلہ تھا جو پھیلتا چلا جا رہا تھا- نہ رشید کے سوال ختم ہو رہے تھے نہ آئینے میں قید لڑکی کے جواب۔
رشید اس سے سوال پر سوال کئے جا رہا تھا اور وہ انتہائی آرام سے اس کے سب سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔
اس کے چہرے پر نہ تھکن تھی اور نہ بوریت۔ رشید سے گفتگو کرنے کی وجہ سے اب اس کی سسکیاں بھی رک چکی تھیں۔ اور وہ رشید کے ساتھ گفتگو میں اس طرح مگن تھی جیسے وہ رشید کی زندگی کا حصہ ہو اور وہ اس کی زندگی کا۔
"آپ آئینے میں قید ہیں تو آپ کھاتی پیتی کیا ہیں ؟"
"آئینے کی قید ایک عجیب و غریب قید ہے۔ جیسے ہی ایک شخص اس قید میں پہنچتا ہے وہ کھانے پینے کے ضرورتوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ نہ اسے بھوک لگتی ہے نہ پیاس۔ نہ اسے تھکن کا احساس ہوتا ہے اور نہ سونے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہ جس حالت میں ہوتا ہے اسی حالت میں رہتا ہے۔
میں اس وقت جیسی آپ کو نظر آ رہی ہوں۔ اس قید میں آتے وقت ایسی ہی تھی۔ یہی لباس زیب تن تھا۔ ایسے ہی بال بنے ہوے تھے۔ بالکل اب بھی اسی طرح ہوں جیسے یہاں لائی گئی تھی۔"
"لیکن آپ کب سے اس آئینے میں قید ہیں ؟ "
"مجھے وہ لمحہ صحیح طور پر یاد نہیں جب مجھے آئینے کی اس قید میں دھکیل دیا گیا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ رات کا وقت تھا۔ آسمان پر پورا چاند چمک رہا تھا۔ میں نے چاند کی طرف دیکھا اور چاند مجھے اچھا لگا۔ میں نے چاند کی طرف اپنے بازو پھیلا ے تا کہ اسے تھام لوں۔ عین اس لمحے مجھے اس قید میں دھکیل دیا گیا۔"
"اور تب سے اب تک آپ ویسی ہی ہیں جیسی اس قید میں آئی تھیں۔"
"ہاں۔ وقت کو اس آئینے کے اندر رسائی حاصل نہیں۔ اس لیے یہاں کسی چیز پر مرور ایام کا اثر نہیں ہوتا۔ گزرتے شب و روز کے اثرات اس آئینے سے باہر کی چیزیں ہیں۔"
"اگر یہ بات ہے تو پھر آپ زانوؤں پرسر رکھے سسکیاں کیوں بھر رہی تھیں ؟"
"اسے آپ احساس تنہائی کہہ لیں یا اس قید سے نجات پانے کی خواہش۔"
"میں اس سلسلے میں آپ کی کیسے مد د کر سکتا ہوں ؟" رشید نے آئینے میں قید لڑکی سے پوچھا۔
"میری مدد کرنے کے لیے آپ کو آئینے کے اندر آنا ہو گا یا مجھے آئینے سے باہر۔ میں خود بخود آئینے سے باہر نہیں آ سکتی۔ یہاں سے مجھے باہر لے جانے کے لیے آپ کو آئینے کے اندر آنا ہو گا "
"لیکن میں آئینے کے اندر کیسے آ سکتا ہوں۔ اگر میں نے کسی طرح آئینے میں گھسنے کی کوشش کی تو آئینہ ٹوٹ جائے گا۔ اور آئینہ ٹوٹ گیا تو آپ آئینے کے ساتھ بکھر جائیں گی۔ نہیں۔ نہیں۔ یہ اچھا خیال نہیں۔ کسی طرح آپ کو آئینے سے خود باہر آنا ہو گا۔"
" میں آئینے میں قید ہوں۔ قیدی کو قید سے باہر آنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ کسی نہ کسی کو اسے قید سے رہائی دلانی پڑتی ہے۔ اگر میں خود رہا ہو سکتی تو آپ مجھے یہاں سسکیاں بھرتے نہ پاتے۔ اس لیے آپ کسی طرح آئینے کے اندر آنے کی ترکیب کریں۔ اور مجھے اپنے ساتھ یہاں سے باہر نکال لے جائیں۔" لڑکی نے رشید سے التجا کی۔
" لیکن آپ یہ بھی تو بتائیں کہ میں آئینے کے اندر آؤں کیسے ؟"
"کاش میں یہ جانتی کہ آپ آئینے کے اندر کیسے آ سکتے ہیں۔ لگتا ہے آئینے کی قید سے رہائی میری قسمت میں نہیں۔ اور پھر وہ ہلکے ہلکے دوبارہ سسکیاں بھرنے لگی۔"
"نہیں۔ نہیں۔ پلیز آپ دوبارہ سسکیاں نہ بھریں۔ میں کچھ کرتا ہوں۔ " یہ کہہ کر وہ اٹھا اور آئینے کے اندر جانے کی تدبیر کرنے لگا۔
یہاں رشید اور آئینے میں قید لڑکی انہی تدبیروں میں گم تھے اور ادھر پولیس رشید کی بازیابی کے لیے اسے ادھر ادھر ڈھونڈھنے سے تھک کر اس کے گھر پہنچی تا کہ وہاں سے اس کی گمشدگی کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کر سکے۔
پولیس افسر بہت دیر تک اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہے۔ جب کسی نے گھر کے اندر سے جواب نہیں دیا تو وہ دروازہ کھول کر اندر چلے گئے۔
گھر میں کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے گھر میں ہر جگہ کوئی نشان ڈھونڈھنے کی کوشش کی جس سے انہیں کوئی نقطہ آغاز مل سکے۔ لیکن انہیں کہیں کوئی نشان نہ ملا۔
تھک ہار کر جانے لگے تو ایک پولیس افسر کی باتھ روم اور خواب گاہ کی مشترکہ دیوار پر آویزاں قد آدم آئینے پر نظر پڑی۔ اس نے دیکھا آئینے پر چند قدموں کے نشاں تھے جو کہیں نہیں جا رہے تھے۔
بزم اردو سے لیا گیا