آئینے کی باتیں - تبصرے و تجاویز

ًماہِ-حق

محفلین
تو کیا محض آئینہءِ آدم کے بالمقابل ہوجانے سے میں اپنے آپ کو جان لوں گا؟
۔۔۔ ہاں، اگر تمہیں پتہ ہو کہ بالمقابل ہوجانے کا کیا مطلب ہوتا ہے اور تم صحیح معنوں میں اس آئینے کے رُوبرو ہوجاؤ تب۔ لیکن اگر ایسا نہ کرپاؤ تو تم اپنے نفس کو ہی دیکھو گے بغیر کسی معرفت کے۔ یعنی مثال کے طور پر تم کسی اللہ کے بندے سے ملے، اور تمہیں وہ شخص فاسق لگا، تو دراصل تم نے اسکے اندر اپنی ہی صورت دیکھی۔ لیکن تمہیں یہ علم نہ ہوا کہ یہ خود تمہارے اپنے نفس کی ہی ایک صورت ہے۔ چنانچہ تم اپنے آپ کی معرفت سے محروم رہ گئے۔
پھر فرق کیا ہوا؟ایسے کسی آئینہءآدم کے سامنے ہونا یا نہ ہونا برابر ہی ہوا، یعنی ہمیں اپنی معرفت حاصل نہ ہوئی۔
۔۔۔ نہیں، کیونکہ اگر تمہارے لئے حقیقی طور پر آئینے کے روبرو ہوجانے کا اذن ہوچکا ہے تو تم اللہ کے اس بندے کے سامنے انکساری اور تواضع کا برتاؤ رکھو گے اور اسکی اطاعت پر کمربستہ رہو گے۔ اور تمہارے لئے اس اذن ِ ربّی کی علامت یہ ہوگی کہ تم اس بندے کی بزرگی اور کمال کا عینی مشاہدہ کرنے سے قبل ہی اسکے اندر اس بزرگی اور کمال کے ہونے کا یقین اپنے دل میں پاؤ گے۔ اور اس معاملے میں تمہاری مثال ایسے ہی ہوگی جیسے کسی عجمی شخص سے عربی میں بات کی جائے اور وہ اسے سمجھ نہ سکے۔
اب میں نے تمہارے آغازِ سفر کی وضاحت کردی ہے، جیسا کہ میں نے وعدہ کیا تھا۔ اور تمہاری جو امانت میرے پاس تھی اسے تم تک پہنچا دیا ہے۔ اور اب اس مقام سے آگے تمہیں لیکر جانا میرے بس میں نہیں ہے۔ اگر تم آگے بڑھنا چاہتے ہو تو ایسا ہی کرو جیسا میں نے تمہیں بتایا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو سمجھ لو کہ تم اس بات کے اھل ہی نہیں تھے۔ اب چلے جاؤ یہاں سے۔
ٹحہرو، رکو، ہوسکے تو مجھ پر تھوڑی سی مہربانی اور کردو۔ مجھے کم از کم کچھ ایسی ضروری باتیں تو بتاتے جاؤ جو آگے آگے درپیش ہونے والے احوال میں میری تسلّی اور اطمینان کا باعث ہوں۔ کیونکہ مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں وحشتِ تنہائی کا شکار ہوکر بد دل ہی نہ ہوجاؤں۔ مجھے یقین ہے کہ تم درست مشورے دیتے ہو اور حتی المقدور تم نے میرے ساتھ کشادہ دلی اور فیاضی کا مظاہرہ ہی کیا ہے اب تک۔
۔۔۔ ٹھیک ہے تو پھر سنو۔ اس راہ میں بندے کو جو احوال پیش آتے ہیں انکی ابتداء انتباہ سے ہوتی ہے۔ یہ انتباہ یا بیداری، بندے پر اللہ کی عنایت کی ایک علامت ہے۔ پس اس حالت میں بندہ خود کو غیر مطمئن سا محسوس کرتا ہے اور عامۃ الناس کی مرّوجہ روش پر قانع نہیں رہتا۔ معرفتِ حق کیلئے اپنے اندر ایک شدید طلب اور پیاس محسوس کرتا ہے۔
میری ساری عمر میں​
ایک ہی کمی ہے تُو​
حالانکہ شروع شروع میں حق تعالیٰ اسکے نزدیک ، ناموں میں سے ایک نام ہی ہوتا ہے لیکن جلد ہی اس پر معاملہ واضح ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس انتباہ یا بیداری کے سچّا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اسے دنیا سے بیزاری اور وحشت سی محسوس ہوتی ہے۔ اور یہ وحشت اسکے ظاہر پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، حتّیٰ کہ اسے لوگوں سے کنارہ کش ہونے کے سوا، اور کسی کام میں راحت محسوس نہیں ہوتی۔ کیونکہ تمام دنیوی امور میں لوگوں کے ساتھ موافقت کرنا اسکے لئے تکلیف اور مشقّت کا موجب ہوجاتا ہے۔ یہ انتباہ اور بیداری، درحقیقت فتح یعنی کشودِ کار کی ابتداء ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ شخص آدابِ شرعیہ سے موافقت و مطابقت رکھنے والے اعمال پر کاربند رہے۔
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ حالتِ انتباہ طویل عرصے تک برقرار رہتی ہے۔ حتّیٰ کہ بڑھتے بڑھتے انسان کی حیرت و سرگردانی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اسکی حیاتِ جسمانی اور صحت کو بھی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں، جیسا کہ امام غزالی رحمۃاللہ علیہ کے ساتھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔
یوں بھی ہوتا ہے کہ اللہ جلد ہی اپنی رحمت سے بندے کو اس حال میں سے نکال لے اور مرشد تک پہنچانے کا کوئی ظاہری یا مخفی سبب بنادے۔ اور زیادہ تر ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔
لیکن کچھ بندوں کے ساتھ یہ معاملہ بھی کیا جاتا ہے کہ دفعۃّ انہیں فتح نصیب ہوجاتی ہے۔ اور یہ محض اللہ کی عنایت ہے۔ چنانچہ انکی حالتِ انتباہ کا نور انکی فتح کے نور کے اندر سما جاتا ہے۔ چنانچہ انکی ابتدائی حالت اورانکی انتہائی حالت، ایک جیسی معلوم ہوتی ہے، جیسا کہ شیخِ اکبر محی الدّین ابن عربی رحمۃاللہ علیہ کے ساتھ ہوا۔اور اللہ جو چاہے، کرتا ہے۔
یہ بات اصل میں ترتیب سے متعلق ہے۔ تربیت اور فتح کی ترتیب۔ چنانچہ کچھ اہل اللہ ایسے ہیں جنکی تربیت اور تادیب پہلے ہوتی ہے اور فتح بعد میں نصیب ہوتی ہے۔ اور یہی عام طور پر ہوتا ہے۔
جبکہ کبھی کبھی اسکے برعکس بھی ہوجاتا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا۔ اور ضروری ہے کہ بندے کی تکمیل کیلئے یہ دونوں امور اس میں موجود ہوں۔ یعنی تزکیہ و تصفیہ اور فتح۔
پس دیکھ لو کہ کیا تم میں ایسی اصناف موجود ہیں؟ اگر نہیں تو تم ابھی اس خطابِ خاص کے اہل نہیں اور دائرہءِ اختصاص میں داخل ہونے کے قابل نہیں۔
ذرا ٹھہرو اے میرے آئینے۔۔۔ یہ جس حیرت کا تم نے ذکر کیا ہے، کیا اسے شک کا نام دیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ بہت سی جامعات کے استاد اس معاملے میں غزالی اور ڈیکارٹ (Descartes ) کو ایک دوسرے کے برابر رکھتے ہیں۔
۔۔۔ جان لو کہ حیرت اور شک ایک شئے نہیں ہیں۔ نیز یہ کہ حیرت کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک سلوک کی ابتداء میں لاحق ہوتی ہے اور دوسری وہ جو منتہیوں اور واصلین کو لاحق ہوتی ہے۔ پہلی حیرت کا سبب تو لاعلمی ہے، جبکہ دوسری حیرت علم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
اور شک میں اور مبتدئیوں کی حیرت میں بھی فرق ہے۔ کیونکہ شک کی جڑ کفر کی ظلمت میں ہے جو قلبِ کافت کو چاروں طرف سے ڈھانپ لیتی ہے اور یہی ھالت ڈیکارٹ اور اس جیسے دوسرے فلسفیوں کی ہے۔
اور جہاں تک مبتدی کی حیرت کا تعلق ہے، تو یہ اسکے ایمان کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ گاہے بگاہے کشف اور بصیرت بھی اپنا جلوہ دکھاتے رہتے ہیں اگر مبتدی میں اسکی استعداد ہو تو۔ اور یہ دونوں امور یعنی حیرت اور کشف و بصیرت ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور مبتدی کو سمجھ نہیں آتی کہ اسکے ساتھ یہ کیا ہورہا ہے
گاہ مری نگاہِ تیز، چیر گئی دلِ وجود۔۔۔​
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توھّمات میں​
اور یہی ھالت غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی تھی۔ جب انہوں نے علومِ عقل و نقل حاصل کرلئے لیکن انہیں پر اکتفا نہ کیا۔ اور انکی اس حالتِ حیرت کو بعض لوگ انکا روحانی بحران قرار دیتے ہیں۔ یہ دراصل انکے جوھرِ قابل اور اسکی نفاست کی دلیل ہے۔ اور یہ جوھرِ نفیس اس وقت پوری طرح آشکار ہوگیا جب وہ تحقق اور وصل کے درجے تک پہنچ گئے۔
اور رہی بات ان اساتذہ کی جو غزالی اور ڈیکارٹ کو ملاتے ہیں، درا صل یہ لوگ ایسے معاملات کی فہم کے ا ہل نہیں۔ کیونکہ یہ لوگ مختلف حقائق کے درمیان امتیاز نہیں کرسکتے۔ اور انکی اپنی لگی بندھی سوچ انکو درست علم تک پہنچنے سے روکے رکھتی ہے۔ تم ان بڑی بڑی جامعات اور اکیڈمک درسگاہوں پر زیادہ بھروسہ مت رکھو کیونکہ شک اور گمان، حقیقت کا نعم البدل کبھی نہیں ہوسکتے۔، چاہے انکے درست ہونے پر پوری دنیا ہی متفق کیوں نہ ہوجائے۔ پس حقائق کو آپس میں گڈ مڈ کرنے سے بچتے رہو۔
اللہ تمہیں ہدایت نصیب کرے۔
(جاری ہے)۔۔۔ ۔
 

انتہا

محفلین
حصّہ دوم
آئینہءِ آدمیّت
آئینے سے جدا ہونے، اسکی باتوں پر اچھی طرح غور کرلینے اور اسکا مطمعِ نظر سمجھ لینے کے بعد، اس نے اپنے ابنائے جنس میں تلاش و جستجو کی حتّیٰ کہ زندگی اسے اس شخص تک کشاں کشاں لےگئی جس میں اسے اپنی حقیقت دکھائی دینے کا امکان نظر آیا۔​
سیّدی، مجھے کیسے یہ پتہ چلے گا کہ آپ میری حقیقت ہیں، جبکہ آپ صورت کے اعتبار سے تو دوسرے انسانوں کی طرح ہی ہیں؟
۔۔۔ بیٹا، یہ ممکن نہیں کہ حقیقت کو دو آنکھوں سے دیکھا جاسکے، یہ تو ایک آنکھ سے ہی نظر آتی ہے۔​
اور یہ ایک آنکھ کونسی ہے؟
۔۔۔ یہ تمہارے قلب کی آنکھ ہے۔اور اسکا نام ہے بصیرت۔ چنانچہ اس کے ساتھ بھی وہی کچھ پیش آسکتا ہے جو ظاہری آنکھوں کے ساتھ پیش آیا کرتا ہے۔ چنانچہ یہ چشمِ بصیرت درست بھی ہوسکتی ہے، بیمار بھی ہوسکتی ہے، اور اندھے پن میں بھی مبتلا ہوسکتی ہے۔پس جسکی بصیرت صحیح سلامت ہوگی، وہ مجھے پہچان سکے گا، اور جو بیمار ہو اسےلازم ہے کہ میری رہنمائی کے مطابق چلے، حتّیٰ کہ اسکی بینائی واپس لوٹ آئے۔ لیکن جسکی چشمِ بصیرت اندھی ہو، وہ مجھ سے کٹ چکا ہے۔
یا سیّدی ، مجھے اپنی بصیرت کا حال کیسے معلوم ہوگا؟
۔۔۔ تم ہمیں اس وقت تک دیکھ نہیں سکو گے جب تک اس چیز سے نجات حاصل نہ کرلو جوتمہاری نگاہ پر پردہ ڈالتی ہے، یا اسے کمزور کرتی ہے۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی غالب اکثریّت کی آنکھیں درستگی کی محتاج ہیں۔
ایسی کونسی چیز ہے جو میری نگاہ پر پردہ ڈال دیتی ہے اور مجھے اسکا پتہ تک نہیں؟
۔۔۔ ہر ایسی بات جو تمہارے والدین اور اساتذہ کی پرورش و تربیت کے نتیجے میں تمہیں حاصل ہوئی ، اورہر وہ بات جسے تم محض اپنی قوم اور اُن لوگوں کی وجہ سے جانتے ہو، جن میں تمہاری زندگی گذری۔
میں ان سب باتوں سے بھلا کس طرح علیحدہ ہوسکتا ہوں، یہ کوئی آسان کام تونہیں ہے۔
۔۔۔ سب سے پہلے تم پر یہ لازم ہے کہ تم دینِ حق یعنی اسلام پر رہو۔ کیونکہ یہ کنجی ہے راہِ حقیقت کی۔اورجس کے پاس کنجی نہ ہو اسے اس احاطے میں داخل ہونے کا خیال نکال دینا چاہئیے۔
آپ اسلام کو یہ خصوصیت کیسے دے سکتے ہیں جبکہ اس سے پہلے شیخِ اکبر جیسے کئی محقّقین نے ہر قسم کے عقیدے میں معرفتِ حق پر کلام کیا ہے۔ کیا یہ محققین کے درمیان اختلافی بات نہیں ہے؟
۔۔۔ بیٹا، جو شخص اپنے کام میں محکم نہ ہو، اسکے پھسلنے کا ڈر رہتا ہے۔ ہم جو بات کر رہے تھے اسکا تعلق مبتدی سے ہے، اور جس کلام کی طرف تم نے اشارہ کیا ہے، وہ منتہی کی جانب سے ہے۔
تو کیا اس سے یہ سمجھنا چاہئیے کہ منتہی کیلئے ضروری نہیں کہ وہ مسلم ہو؟
۔۔۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔تم اس وقت اپنی فکر کو اس میدان میں دوڑانے کی کوشش کر رہے ہو جو تمہارے مقام و مرتبے سے بلند ہے، چنانچہ ایسے نتائج نکال رہے ہو جو خلافِ حق ہیں۔ اور ایسا اکثر لوگوں نے کیا ہے۔ ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے آپ کو اس بات سے برتر سمجھتے ہیں کہ اہلِ حق کے ہاتھوں سے کچھ علم حاصل کریں۔ چنانچہ وہ خود بھی بھٹکے اور دوسروں کو بھی بھٹکایا، اور اھل اللہ میں شیخِ اکبر جیسے لوگوں کی طرف جہالت اور ظلم کو منسوب کرنے لگے۔
سب سے پہلے تمہیں یہ بات سمجھنی چاہئیے کہ صرف اسلام ہی ہے جو دینِ حق ہے۔ اور چونکہ اسلام ہی واحد دینِ حق ہے، تو اس حیثیّت سے ضروری ہوا کہ اس میں ہر وہ سچّائی موجود ہو جو دوسرے ادیان و مذاہب میں پائی جاتی ہے، اور کچھ ایسی سچّائیاں بھی اس میں ہوں جو اور کسی مذہب میں نہ پائی جاتی ہوں۔ اور یہ اطلاق صرف اسلام ہی کو حاصل ہے، باقی جتنے مذاہب ہیں وہ مقیّد ہیں یعنی انکا دائرہءِ کار محدود ہے۔ اور اگر اسلام میں یہ آفاقیت اور اطلاق نہ ہوتا تو اسکا خاتم الشّرائع ہونا بھی ممکن نہ ہوتا۔ چنانچہ یہ باقی شریعتوں کو منسوخ نہ کرتا اور نہ ہی اسکو دوسرے ادیان پر غلبہ و تسلّط دیا جاتا۔
اس اطلاق سے تم اور تم جیسے دوسرے لوگ محض عبادات اور حلال و حرام کے احکامات مراد لیتے ہو لیکن اکابر اور انتہائی اعلیٰ مقامات کے حامل لوگ اس اطلاق کو صرف عبادات اور احکامات تک ہی نہیں محدود سمجھتے، بلکہ اس سےکہیں بڑھ کر اور وسیع تر علمی معنوں میں اس اطلاق کو دیکھتے ہیں۔انکا اطلاق تمہاری سمجھ میں آنے والے اس اطلاق سے آگے کی چیز ہے۔ تمہارا اطلاق تو یہیں تک محدود ہے کہ بس آدمی اہلِ اسلام کے عقیدے پر ہو اور اللہ کی عبادت اسکی شریعت کے مطابق کرتا رہے۔
جب تک ہم تمہیں اس معنی کے قریب لیکر جائیں،اتنی دیر تک اپنے ذہن میں اسلام کا یہ تصّور کرو کہ گویا ایک سمندر ہے، جس میں مختلف دریا اور نہریں گرتی ہیں۔ یہ نہریں گویا مختلف قسم کے عقائد ہیں۔ اور سمندر گویا اطلاق ہے، آفاقیت اور لامحدودیت ہے، علم کے اعتبار سے ۔ لیکن اگر شریعت کے اعتبار سے دیکھیں تو ضروری ہے کہ تم اس سمندر میں اسلام کی نہر کے راستے آؤ، جودوسرے عقائد کی نہروں کی مانند ایک نہر ہے۔
بہت سے لوگ جو استدلالی اور عقلی طور پر ان معانی میں غور کرتے ہیں۔ مختلف حقائق کو باہم خلط ملط کردینے کی وجہ سے اصل مفہوم سے بہت دور جا پڑتے ہیں، اور یہ غلط مفہوم، راہِ حق میں آنے والی رکاوٹوں میں سے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
لیکن وہ عام لوگ جنہیں یہ وہم ہے کہ وہ اس طرح کے مسائل کی گہرائیوں میں جانے کے اہل ہیں، اور اہلِ حق کو کفر اور دوسرے برے الزامات کا نشانہ بناتے ہیں ، یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ لوگ دھوکے اور گمرہی کا شکار ہوگئے، تو ایسے لوگ اس قابل نہیں کہ ہم انہیں مخاطب کریں۔ اور ہم نے انکی اس طرزِ عمل کا ذکر تم سے اسلئے کیا ہےتا کہ تم ان جیسے نہ ہوجاؤ۔
(جاری ہے)۔۔۔ ۔۔

محمود بھائی دوبارہ پوسٹ کی وجہ؟ کیا پہلی پوسٹ میں کچھ غلطی ہے؟
 
میں نے پہلی پوسٹ کسی دوسرے کمپیوٹر لکھی تھی۔۔جب پوسٹ کیا تو فونٹ کی وجہ سے کچھ پڑھا نہیں جاسکا۔۔۔اور تدوین کا آپشن بھی نہیں تھا۔۔۔چنانچہ اپنے کمپیوٹر پر دوبارہ ٹائپ کرکے اسے پوسٹ کیا۔
 

انتہا

محفلین
فونٹ کا مسئلہ تو اب بھی ہے۔ آپ کی یہ آخری والی دونوں پوسٹیں نستعلیق میں نظر نہیں آ رہیں جب کہ گزشتہ سب نستعلیق میں ہی ہیں۔ ویسے ماشاءاللہ بہت اچھی کتاب اور بہترین ترجمہ ہے۔ مبارک باد قبول فرمائیے۔
 
Top