آئین پاکستان:سیکولر یا اسلامی؟...ثروت جمال اصمعی

آبی ٹوکول

محفلین
پاکستان کی پوری سیاسی اور عسکری قیادت کم و بیش ایک ماہ پہلے یعنی ستمبر کی 9 تاریخ کو کسی پیشگی شرط کے بغیرتحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات پر مکمل اتفاق کا اظہار کرچکی ہے۔ پاکستانی فوج کی طرف سے اس کے بعد طالبان کے خلاف کسی یکطرفہ کارروائی کی بھی کوئی خبر منظر عام پر نہیں آئی لیکن طالبان کے مختلف گروپوں کی جانب سے آئے دن بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اس میں غیرمعمولی تیزی دیکھی جارہی ہے۔ طالبان کی طرف سے مذاکرات کے لیے ناممکن العمل پیشگی شرائط بھی عائد کی جارہی ہیں۔ دیوبندی مکتب فکر کے نہایت ممتاز اور محترم علمائے کرام کی اللہ اور رسولؐ کے نام پر کی گئی اپیل بھی طالبان کے موقف میں کوئی نرمی پیدا کرنے میں کامیاب ثابت نہیں ہوسکی ہے بلکہ طالبان کے ترجمان نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کے موجودہ’’ سیکولر‘‘ آئین کے تحت ہرگز مذاکرات نہیں کریں گے۔ طالبان مذاکرات کریں یا نہ کریں مگرپاکستان کے دستور کی تیاری کے تمام مراحل میں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ شامل رہنے والے تمام دینی مکاتب فکر اور دینی و سیاسی قوتوں کی جانب سے ان کی یہ غلط فہمی یقیناً دور کردی جانی چاہیے کہ اس ملک کا آئین سیکولر ہے۔ پاکستان کے آئین کو سیکولر قرار دینا اس ملک کی دینی و سیاسی طاقتوں کی اسلامی دستور کی تیاری کے لیے کی گئی بے مثالی کاوشوں اور کامیاب جدوجہد کی کھلی بے توقیری کے مترادف ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ دستور میں نہ صرف بانیان پاکستان کی منظور کردہ وہ قرارداد مقاصد مؤثر حیثیت میں شامل ہے جس میں اس ملک کا مقتدر اعلیٰ اللہ رب العالمین کو قرار دیتے ہوئے عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو شریعت اسلامی کے نفاذ کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے بلکہ سنی شیعہ ،دیوبندی بریلوی اور اہل حدیث تمام مکاتب فکر کے نمائندہ31 جیدعلمائے کرام کے مکمل اتفاق رائے سے مرتب کردہ دستور سازی کے 22 رہنما اصول بھی سمودیے گئے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کی شریعہ اپیلٹ بنچ کے رکن جسٹس خلیل الرحمن خان نے اپنے ایک مقالے میں پاکستان کے موجودہ آئین کا اس پہلو سے جائزہ لیا ہے کہ جدید اسلامی ریاست کے دستور کے لیے علمائے کرام کے مرتب کردہ یہ بائیس رہنما اصول ہمارے آئین میں کس طرح سموئے گئے ہیں۔ انہوں نے ان بائیس نکات میں سے ایک ایک نکتے کو درج کرکے دستور کی وہ دفعات نقل کی ہیں جن کے ذریعے ان نکات کو دستور کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اس تحقیقی کاوش سے مدد لیتے ہوئے ہم ان میں سے چند ابتدائی نکات اور دستور پاکستان کی متعلقہ دفعات یہاں مثالاً پیش کررہے ہیں۔ ’’اصل حاکم ، تشریعی و تکوینی حیثیت سے، ﷲ رب العالمین ہے۔‘‘ ۔۔علماء کے بائیس رہنما اصولوں کا یہ پہلا نکتہ موجودہ آئین کی تمہید اور آرٹیکل 2 اور 2(الف) میں شامل ہے۔ قرارداد مقاصد کو تمہید کے علاوہ دفعہ 2(الف) کے ذریعے آئین میں شامل کرکے اللہ رب العالمین کو تشریعی اور تکوینی حیثیت سے حاکم مطلق تسلیم کیا گیا ہے جبکہ آرٹیکل 2 کی رو سے مملکت کا مذہب اسلام ہے۔
دوسرا نکتہ’’ ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہوگا، اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جاسکے گا جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔ اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب و سنت کے خلاف ہوں تو۔۔۔ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کردیے جائیں گے۔‘‘۔۔۔ یہ نکتہ دستور پاکستان کی دفعہ 227میں یوں درج ہے ’’تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام حوالہ دیا گیا ہےاور ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جاسکے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔‘‘ جسٹس خلیل الرحمن’’ انتظامی حکم‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ہر انتظامی حکم کسی نہ کسی قانون کی بنیاد پر جاری ہوتا ہے۔ہر قانون کا کتاب و سنت کے مطابق ہونا ضروری ہے، کیونکہ اگر وہ قانون قرآن وسنت کے خلاف ہے تووہ وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ہر انتظامی حکم کوقانون کے خلاف یا ماوراہونے کی وجہ سے یا بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کی صورت میں عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔پہلے سے موجود قوانین آرٹیکل 277کی رو سے قرآن و سنت کے مطابق ڈھالے جائیں گے۔وفاقی شرعی عدالت تقریباً تمام قوانین کا جائزہ لیتی ہے ماسوائے چند قوانین کے جنہیں استثنیٰ حاصل ہے۔ اس سلسلے میں قانون سازی کی اتنی ضرورت نہیں جتنی سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔سیاسی عزم کے لیے مقتدر اشخاص اور اداروں کا اسلامی ذہن کا حامل ہونا ضروری ہے۔‘‘
تیسرا نکتہ: ’’مملکت کسی جغرافیائی، نسلی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصول و مقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطہ حیات ہے۔‘‘۔۔ یہ نکتہ دستور کی دفعہ 2 (الف) یعنی قرارداد مقاصد کے علاوہ دستور پاکستان کے آرٹیکل 33 میں یوں درج ہے: ’’مملکت شہریوں کے درمیان علاقائی، نسلی، لسانی،قبائلی، فرقہ وارانہ اور صوبائی تعصبات کی حوصلہ شکنی کرے گی۔‘‘
چوتھا نکتہ : ’’اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے ، منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلام کے احیاء اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مسالک کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔‘‘ ۔۔ دستورپاکستان کی دفعہ 31 کی پہلی شق میں ’’اسلامی طریق زندگی ‘‘ کے عنوان سے اس نکتے کو یوں سمویا گیا ہے : ’’پاکستان کے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کے لیے انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔‘‘ اسی آرٹیکل کی دوسری شق میں کہا گیا ہے :’’ پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کے لیے کوشش کرے گی: (الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قراردینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن اشاعت کا اہتمام کرنا۔(ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا، اور(ج) زکو ٰۃ [عشر] ، اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔
علماء کے مرتب کردہ رہنما اصولوں کا پانچواں نکتہ عالم اسلام سے تعلقات کو مستحکم بنانے پر مبنی ہے ، اسے ہمارے دستور کی دفعہ 40 میں شامل کرلیا گیا ہے۔ علماء کا چھٹا نکتہ مملکت کے تمام باشندوں کے لیے بلالحاظ مذہب اور رنگ و نسل بنیادی ضروریات زندگی کی مملکت کی جانب سے ضمانت دیے جانے سے متعلق ہے ۔ یہ ضمانت آئین پاکستان کے آرٹیکل 38 میں ’’عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا فروغ ‘‘ کے عنوان سے فراہم کی گئی ہے۔علماء کے رہنما اصولوں کے ساتویں اور آٹھویں نکتے میں تمام باشندگان مملکت کو شریعت کے مطابق تحفظ ِجان و مال و آبرو، آزادی مذہب و مسلک،آزادی عبادت، آزادی ذات، آزادی اظہار رائے ، آزادی نقل و حرکت، آزادی اجتماع،آزادی اکتساب رزق ، ترقی کے مواقع میں یکسانی اوررفاہی اداروں سے استفادے کے حق کی بات کی گئی ہے جبکہ دستور میں یہ تمام آزادیاں اور حقوق آرٹیکل4 اور آرٹیکل 8تا25 کے ذریعے فراہم کردیے گئے ہیں۔
علماء کے رہنما اصولوں کے باقی نکات بھی آئین پاکستان میں اسی طرح سمولیے گئے ہیں لیکن کالم کی گنجائش ختم ہوجانے کی وجہ سے مزید تقابل پیش کرنا ممکن نہیں۔

ربط
 

حسینی

محفلین
آئین میں کوئی کمی نہیں۔۔۔ اگر کمی ہے تو آئین اور قانون کو نافذ کرنے والوں میں ہے۔۔۔ لہذا آئین کو سیکولر یا غیر اسلامی کہنا ہرگز ٹھیک نہیں۔
ہاں پھر بھی آپ کی نظر میں کوئی کمی بیشی رہ گئی ہے۔۔۔ تو سو بسم اللہ پارلیمنٹ میں آجائیے۔۔۔۔ اور آئین میں ترمیم کر لیں۔۔۔۔ یہ کہاں کا اسلام ہے کہ تلوار کی نوک پر اپنا ایجنڈا نافذ کرنے لگے۔۔۔ جیسے یہ ملک ان کی اپنی جاگیر ہو۔
 
۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کی شریعہ اپیلٹ بنچ کے رکن جسٹس خلیل الرحمن خان نے اپنے ایک مقالے میں پاکستان کے موجودہ آئین کا اس پہلو سے جائزہ لیا ہے
یہ مقالہ درکار ہے اگر کسی کے پاس ہو تو شکریہ کا موقع دے۔
 
Top