انصار عباسی نے اپنے مندرجہ ذیل تجزیہ میں آئین پاکستان کے اسلامی نکات کی نشاندہی کی ہے اور اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ اسلامی شقوں پر عمل در آمد نہیں ہو رہا۔
اسلام اور پاکستان ٗ ’شاہد اللہ شاہد لاعلم‘ ٗ بلاول نے حقیقت نظرانداز کردی
اسلام آباد (تبصرہ :…انصار عباسی) پاکستان کا 1973 کا آئین اسلامی ہے لیکن صرف دکھاوے کی حد تک؛ کیونکہ اس کی اہم ترین اسلامی شقوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے یا پھر ان پر محدود حد تک عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کے بیان کے بعد شروع ہونے والی بحث اور اس کے بعد پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو کے رد عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ اول الذکر کو علم ہی نہیں کہ آئین میں کیا لکھا ہے اور آخر الذکر حقیقت اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ کئی اسلامی شقوں کا نفاذ کبھی نہیں کیا گیا بلکہ ان کی مسلسل خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل ایک کے مطابق ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ آرٹیکل 2؍ کے مطابق اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا۔ آرٹیکل 2؍ اے کے تحت قرارداد مقاصد کو آئین کا اہم ترین حصہ بنایا گیا ہے۔ یہی قرارداد مقاصد آئین کے ابتدائیہ میں شامل ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور یہ بھی عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق، جس طرح قرآن اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں۔آئین کے آرٹیکل 31؍ کا تعلق ’’اسلامی طریق زندگی کے متعلق ہے۔ اس میں اسلامی طرز زندگی کے متعلق بتایا گیا ہے۔ (ا) پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کیلئے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ (۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کیلئے کوشش کرے گی: (الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کیلئے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہمتام کرنا؛ (ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا اور (ج) زکواۃ [عشر] اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔ آرٹیکل 37 (ز) میں وعدہ کیا گیا ہے کہ سماجی سطح پر انصاف فراہم کیا جائے گا اور معاشرے سے برائیاں ختم کی جائیں گی اور عصمت فروشی، قمار بازی، ضرر رساں ادویات کے استعمال، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت، نشر و اشاعت کی روک تھام کی جائے گی۔ آرٹیکل 37 (ح) میں کہا گیا ہے کہ نشہ آور مشروبات کے استعمال کی، سوائے اس کے کہ وہ طبی اغراض کیلئے یا غیر مسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کیلئے ہو، روک تھام کرے گی۔ آرٹیکل 38 (و) میں لکھا ہے کہ ربائ کو جتنی جلد ممکن ہو ریاست اسے ختم کرے گی۔ آرٹیکل 42 (ب) میں کہا گیا ہے کہ ملک کا صدر مملکت مسلمان ہوگا۔ آرٹیکل 62؍ میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کے طور پر
منتخب ہونے کیلئے شرائط بتائی گئی ہیں۔ 62(د) میں بتایا گیا ہے کہ ایسا شخص اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف کیلئے مشہور نہ ہو۔ (ہ) وہ اسلامی تعلقات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہو۔ (و) وہ سمجھدار اور پارسا ہو اور فاسق نہ ہو اور ایماندار اور امین ہو ، کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہو، اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔ آرٹیکل 91 (۳) میں لکھا ہے کہ وزیراعظم کو قومی اسمبلی کا مسلم رکن ہونا چاہئے۔ آرٹیکل 203 (۳) میں وفاقی شریعت کورٹ کے قیام کی بات کی گئی ہے۔ آرٹیکل 227؍ میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت کے منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔ آرٹیکل 228؍ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کی بات کی گئی ہے جس کا کام موجودہ قوانین میں تبدیلی لا کر انہیں اسلامی بنانا ہوگا اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کرنا وہگا جن سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے اسلام کے ان اصولوں اور تصوارت کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب ملے جن کا قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 260 (۳) اے میں بتایا گیا ہے کہ ’’مسلم‘‘ سے مراد کوئی ایسا شخص جو وحدت اور توحید قادر مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ، خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہو اور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو نہ اسے مانتا ہو جس نے حضرت محمد ﷺ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے۔ 260 (ب) میں قادیانی اور لاہور گروپ یا پھر کوئی بھی ایسا گروپ جو خود کو احمدی کہلواتا ہے، اسے غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ جدول نمبر سوم میں صدر مملکت اور وزیراعظم کے عہدوں کا حلف پیش کیا گیا ہے جس کے تحت وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور وحد و توحید قادر مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ، کتب الٰہیہ، جن میں قرآن پاک خاتم الکتب ہے، نبوت حضرت محمد ﷺ بحیثیت خاتم النبین، جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، روز قیامت اور قرآن پاک و سنت کی جملہ تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں۔ وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، ارکان پارلیمنٹ، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، گورنر صاحبان، وزرائے اعلیٰ صاحبان اور صوبائی ارکان کابینہ بشمول غیر مسلم پر لازم ہے کہ وہ حلف اٹھائیں کہ وہ اسلامی نظریات کے تحفظ کیلئے کام کریں گے جو پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے۔ اس میں یہ بھی وعدہ پیش کیا گیا ہے کہ اسلامی اتحاد کے فروغ کیلئے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنایا جائے گا۔ آئین میں یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ اقلیتوں کیلئے مناسب قانون سازی کی جائے گی تاکہ وہ اپنے مذاہب پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔
اسلام اور پاکستان ٗ ’شاہد اللہ شاہد لاعلم‘ ٗ بلاول نے حقیقت نظرانداز کردی
اسلام آباد (تبصرہ :…انصار عباسی) پاکستان کا 1973 کا آئین اسلامی ہے لیکن صرف دکھاوے کی حد تک؛ کیونکہ اس کی اہم ترین اسلامی شقوں کی خلاف ورزی کی جاتی ہے یا پھر ان پر محدود حد تک عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کے بیان کے بعد شروع ہونے والی بحث اور اس کے بعد پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو کے رد عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ اول الذکر کو علم ہی نہیں کہ آئین میں کیا لکھا ہے اور آخر الذکر حقیقت اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ کئی اسلامی شقوں کا نفاذ کبھی نہیں کیا گیا بلکہ ان کی مسلسل خلاف ورزی کی جاتی رہی ہے۔ آئین کے آرٹیکل ایک کے مطابق ملک کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہے۔ آرٹیکل 2؍ کے مطابق اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا۔ آرٹیکل 2؍ اے کے تحت قرارداد مقاصد کو آئین کا اہم ترین حصہ بنایا گیا ہے۔ یہی قرارداد مقاصد آئین کے ابتدائیہ میں شامل ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور یہ بھی عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی حلقہ ہائے عمل میں اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق، جس طرح قرآن اور سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے، ترتیب دے سکیں۔آئین کے آرٹیکل 31؍ کا تعلق ’’اسلامی طریق زندگی کے متعلق ہے۔ اس میں اسلامی طرز زندگی کے متعلق بتایا گیا ہے۔ (ا) پاکستان کے مسلمانوں کو، انفرادی اور اجتماعی طور پر، اپنی زندگی اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق مرتب کرنے کے قابل بنانے کیلئے اور انہیں ایسی سہولتیں مہیا کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں گے جن کی مدد سے وہ قرآن پاک اور سنت کے مطابق زندگی کا مفہوم سمجھ سکیں۔ (۲) پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں مملکت مندرجہ ذیل کیلئے کوشش کرے گی: (الف) قرآن پاک اور اسلامیات کی تعلیم کو لازمی قرار دینا، عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس کیلئے سہولت بہم پہنچانا اور قرآن پاک کی صحیح اور من و عن طباعت اور اشاعت کا اہمتام کرنا؛ (ب) اتحاد اور اسلامی اخلاقی معیاروں کی پابندی کو فروغ دینا اور (ج) زکواۃ [عشر] اوقاف اور مساجد کی باقاعدہ تنظیم کا اہتمام کرنا۔ آرٹیکل 37 (ز) میں وعدہ کیا گیا ہے کہ سماجی سطح پر انصاف فراہم کیا جائے گا اور معاشرے سے برائیاں ختم کی جائیں گی اور عصمت فروشی، قمار بازی، ضرر رساں ادویات کے استعمال، فحش ادب اور اشتہارات کی طباعت، نشر و اشاعت کی روک تھام کی جائے گی۔ آرٹیکل 37 (ح) میں کہا گیا ہے کہ نشہ آور مشروبات کے استعمال کی، سوائے اس کے کہ وہ طبی اغراض کیلئے یا غیر مسلموں کی صورت میں مذہبی اغراض کیلئے ہو، روک تھام کرے گی۔ آرٹیکل 38 (و) میں لکھا ہے کہ ربائ کو جتنی جلد ممکن ہو ریاست اسے ختم کرے گی۔ آرٹیکل 42 (ب) میں کہا گیا ہے کہ ملک کا صدر مملکت مسلمان ہوگا۔ آرٹیکل 62؍ میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کے طور پر
منتخب ہونے کیلئے شرائط بتائی گئی ہیں۔ 62(د) میں بتایا گیا ہے کہ ایسا شخص اچھے کردار کا حامل ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف کیلئے مشہور نہ ہو۔ (ہ) وہ اسلامی تعلقات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہو۔ (و) وہ سمجھدار اور پارسا ہو اور فاسق نہ ہو اور ایماندار اور امین ہو ، کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہو، اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو۔ آرٹیکل 91 (۳) میں لکھا ہے کہ وزیراعظم کو قومی اسمبلی کا مسلم رکن ہونا چاہئے۔ آرٹیکل 203 (۳) میں وفاقی شریعت کورٹ کے قیام کی بات کی گئی ہے۔ آرٹیکل 227؍ میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت کے منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔ آرٹیکل 228؍ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کی بات کی گئی ہے جس کا کام موجودہ قوانین میں تبدیلی لا کر انہیں اسلامی بنانا ہوگا اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کرنا وہگا جن سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے اسلام کے ان اصولوں اور تصوارت کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب ملے جن کا قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 260 (۳) اے میں بتایا گیا ہے کہ ’’مسلم‘‘ سے مراد کوئی ایسا شخص جو وحدت اور توحید قادر مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ، خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط طور پر ایمان رکھتا ہو اور پیغمبر یا مذہبی مصلح کے طور پر کسی ایسے شخص پر نہ ایمان رکھتا ہو نہ اسے مانتا ہو جس نے حضرت محمد ﷺ کے بعد اس لفظ کے کسی بھی مفہوم یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا جو دعویٰ کرے۔ 260 (ب) میں قادیانی اور لاہور گروپ یا پھر کوئی بھی ایسا گروپ جو خود کو احمدی کہلواتا ہے، اسے غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ جدول نمبر سوم میں صدر مملکت اور وزیراعظم کے عہدوں کا حلف پیش کیا گیا ہے جس کے تحت وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور وحد و توحید قادر مطلق اللہ تبارک و تعالیٰ، کتب الٰہیہ، جن میں قرآن پاک خاتم الکتب ہے، نبوت حضرت محمد ﷺ بحیثیت خاتم النبین، جن کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، روز قیامت اور قرآن پاک و سنت کی جملہ تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں۔ وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، ارکان پارلیمنٹ، چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، گورنر صاحبان، وزرائے اعلیٰ صاحبان اور صوبائی ارکان کابینہ بشمول غیر مسلم پر لازم ہے کہ وہ حلف اٹھائیں کہ وہ اسلامی نظریات کے تحفظ کیلئے کام کریں گے جو پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے۔ اس میں یہ بھی وعدہ پیش کیا گیا ہے کہ اسلامی اتحاد کے فروغ کیلئے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنایا جائے گا۔ آئین میں یہ بھی وعدہ کیا گیا ہے کہ اقلیتوں کیلئے مناسب قانون سازی کی جائے گی تاکہ وہ اپنے مذاہب پر عمل کرسکیں اور اپنی ثقافت کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔