یاسر شاہ
محفلین
وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا ﴿١﴾
قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو (کافروں کی روح) سختی سے کھینچتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَالنَّازِعَاتِ ۔۔۔ قسم ہے کھینچ کا نکالنے والوں کی
غَرْقًا۔۔۔ ڈوب کر
۔۔۔۔
پہلی صفت: نازعات کا لفظ “نزع “ سے نکلا ہے جس کے معنی کسی چیز کو کھینچ کر نکالنے کے ہیں اور غرقاً اس کی تاکید ہے جس کا معنی ہے، ڈوب کر یعنی پوری شدت کے ساتھ۔
اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو کافروں کی روح نکالتے ہیں۔ کافر کی روح آخرت کی مصیبتوں سے گھبرا کر اس کے بدن میں چھپنے کی کوشش کرتی ہے، اس لیے فرشتے اس کے بدن میں گُھس کر سختی سے کھینچ کر اس کی روح کو باہر نکالتے ہیں، جس سے اسے شدید تکلیف ہوتی ہے۔
بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ کافر کی جان بہت آسانی سے نکل گئی ہے لیکن یہ آسانی صرف ظاہری ہوتی ہیں اس کی روح کو جو تکلیف ہوتی ہے وہ الله تعالی کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ چنانچہ اس سختی سے روحانی تکلیف اور سختی مراد ہے ، دیکھنے والے اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔
جزاک اللہ خیر۔وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا (2)
اور جو (مومنوں کی روح کی) گرہ نرمی سے کھول دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وَّالنّٰشِطٰتِ ۔۔۔ کھولنے والے
نَشْطًا۔۔۔ گرہ کھولنا
۔۔۔۔
دوسری صفت: اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو مؤمن کی جان نکالنے آتے ہیں۔ فرشتے مؤمنوں کی روح کو نہایت آسانی اور سہولت سے نکالتے ہیں، شدت اور سختی نہیں کرتے؛ کیونکہ مؤمن روح کے سامنے برزخ کا انعام اور ثواب ہوتا ہےجسے دیکھ کر وہ جلدی سے ان کی طرف جانا چاہتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ہوا یا پانی، کسی چیز میں بند ہو اور اس کا ڈھکن کھول دیا جائے، وہ نہایت آسانی اور تیزی سے باہر نکل جاتی ہے، اسی طرح مؤمن کی روح نکلتی ہے
اس سورت کی پہلی چار آیتوں میں سے ہر آیت اتفاق سے "مستفعلن" کے وزن پہ ہے ۔چنانچہ کافی عرصہ پہلے یہ تفسیر پڑھ کے دو شعر موزوں کیے تھے۔
ہے روح کو نہایت کافر بدن سے الجھن
الجھا ہوا ہو جیسے کانٹوں کے بیچ دامن
وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا ۔۔وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا
دریا ہے جان _مومن ، دریا کا بند ہے تن
جو بند کھل گیا تو دریا کا دیکھو جوبن
وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا۔وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا