داغ آئے کوئی، تو بیٹھ بھی جائے، ذرا سی دیر - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

آئے کوئی، تو بیٹھ بھی جائے، ذرا سی دیر
مشتاقِ دید، لطف اُٹھائے ذرا سی دیر

میں دیکھ لوں اُسے، وہ نہ دیکھے مری طرف
باتوں میں اُس کو کوئی لگائے ذرا سی دیر

سب خاک ہی میں مجھ کو ملانے کو آئے تھے
ٹھہرے رہے نہ اپنے پرائے ذرا سی دیر

تم نے تمام عمر جلایا ہے داغ کو
کیا لطف ہو جو وہ بھی جلائے ذرا سی دیر
 
Top